Inquilab Logo

رمضان المبارک اور وقت

Updated: March 29, 2024, 11:27 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ماہ مبارک آتا ہے اور جس جس کو میسر ہوتا ہے اُس کیلئے خوش بختی کی نوید لے کر آتا ہے۔ مگر جلد ہی گزر جاتا ہے۔ ’’جلد ہی‘‘ اس لئے کہنا پڑتا ہے کہ دور ِ حاضر میں وقت کو پَر لگ گئے ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ماہ مبارک آتا ہے اور جس جس کو میسر ہوتا ہے اُس کیلئے خوش بختی کی نوید لے کر آتا ہے۔ مگر جلد ہی گزر جاتا ہے۔ ’’جلد ہی‘‘ اس لئے کہنا پڑتا ہے کہ دور ِ حاضر میں وقت کو پَر لگ گئے ہیں۔ یہ اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کب صبح ہوئی اور کب شام، کب ہفتہ شروع ہوا اور کب ختم ہوگیا، کب سال شروع ہوا اور کب اختتام کو پہنچ گیا۔ ایسے میں وقت کے زیادہ سے زیادہ اور بہترین مصرف کے تعلق سے ہر خاص و عام کو بہت حساس ہونا چاہئے۔ جو لوگ ’’دن‘‘ میں نہیں، ’’لمحے‘‘ میں جینا جانتے ہیں وہ وقت کے استعمال میں بہت محتاط ہوتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر وقت کی قدروقیمت کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہ اپنے نظام الاوقات سے معمولی سا بھی انحراف نہیں کرتے۔ چونکہ ’’دنوں ‘‘ میں نہیں ’’لمحوں ‘‘ میں جیتے ہیں اس لئے ان کے نزدیک رمضان اُنتیس یا تیس دن کا مہینہ یاکم و بیش ۷۲۰؍ گھنٹوں کا نہیں بلکہ لگ بھگ ۴۳؍ ہزار ۲۰۰؍ منٹ کا عرصہ ہوتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ خوش نصیب لوگ ماہ مبارک کے ایک ایک گھنٹے کے نہیں ایک ایک منٹ کے بہترین مصرف کی کوشش کرتے ہیں کہ جو بھی لمحہ گزرے عبادت میں گزرے اور نیکیوں میں گزرے۔ آخری چند دنوں میں انہیں رمضان کے گزر جانے کا افسوس تو ہوتا ہے کہ نورانی اور روحانی ساعتوں کا مہینہ گزر جانے کو ہے مگر اُنہیں یہ افسوس نہیں ہوتا کہ ہائے، اتنا مبارک مہینہ ملا اور ہم کچھ نہیں کرسکے۔ 
 رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے اور اس سے بھرپور استفادہ کیلئے مسلمانوں کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ آغازِ شعبان ہی سے خود کو ذہنی طور پر تیار کریں۔ اس سلسلے کی احادیث سے کون واقف نہ ہوگا مگر بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اس نصیحت و ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔ شعبان ہی سے کمربستہ ہوجائیں تو یکم رمضان سے وقت کے صحیح استعمال کی تیاری مکمل ہوجاتی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس نبوی ؐ طریقے پر عمل کرتے ہیں اور رمضان کو بالکل اُس طرح گزارتے ہیں جس طرح اس کے گزارنے کا حق ہے۔ 
 اب جبکہ ہم آپ اس ماہ کے تیسرے عشرے کے قریب آچکے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ کم از کم اب وقت کا زیادہ سے زیادہ استعمال عبادت و ریاضت کیلئے ہو، کار ہائے خیر کیلئے ہو، زکوٰۃ و صدقات و خیرات کی فکر اور تقسیم کیلئے ہو، آخرت کی فکر کیلئے ہو اور ایسی ہر فکر کی برکت سے ہم آئندہ گیارہ مہینے بھی اسی طرح گزارنے کے قابل ہوجائیں جس طرح ایام رمضان گزارتے رہے۔ اس مہینے میں پیدا ہونے والے جذبۂ بہی خواہی کو دیگر مہینوں میں بھی جاری رکھنے کا مشن ابھی سے شروع ہوجانا چاہئے۔ 
 گزرنے والا یہ مہینہ غوروخوض کا بھی تھا۔ اس میں یقیناً بہت سے لوگوں نے غور کیا ہوگا کہ آخر مسلمان اتنا بے توقیر کیسے ہوگیا ہے جبکہ اس کا وقار تو اوروں سے زیادہ ہونا چاہئے تھا۔ یہ بھی سوچا ہوگا کہ مسلمانوں کی اکثریت غریب کیوں ہے اور چھوٹے موٹے کاروبار پر انحصار کیوں کرتی ہے جبکہ فلسفہ ٔ زکوٰۃ اس قوم کی بہت بڑی معاشی طاقت ہے۔ غوروخوض کے دوران یہ بات بھی ذہن میں آئی ہوگی کہ مسلمانوں میں وہ لوگ جو خوشحال ہیں وہ معاشی طور پر کمزور لوگوں کی جتنی مدد کرنا چاہئے اُتنی نہیں کرتے۔ یہ درست ہے مگر کیا معاشی طور پر کمزور، اُن سے بھی زیادہ کمزور لوگوں کی مدد کرتے ہیں ؟ یہ سوال اہم ہے۔ توجہ اس پر بھی ہونی چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK