Inquilab Logo Happiest Places to Work

شیرکوٹ، یوپی: غزہ کیلئے فنڈ اکٹھا کرنے والے امام کو پولیس نے حراست میں لیا، مقامی افراد میں غم و غصہ

Updated: June 19, 2025, 7:01 PM IST | New Delhi

مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ سیاسی محرکات پر مبنی ہے۔ مولانا زکی نے جمعہ کی نماز کے بعد صرف چندے کی اپیل کی تھی اور اس سلسلے میں کوئی دھمکی نہیں دی گئی۔

Maulana Zaki. Photo: INN
مولانا زکی۔تصویر: آئی این این

اتر پردیش پولیس نے بجنور کے شیرکوٹ قصبے کی جامع مسجد کے امام مولانا زکی اور ان کے دو ساتھیوں کے خلاف فلسطین کے جنگ زدہ علاقے غزہ کیلئے چندہ جمع کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا جس کے بعد مقامی مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا ہے۔ ایک مقامی شخص ارشاد کی جانب سے دائر کردہ شکایت میں الزام لگایا گیا کہ مولانا زکی نے زبردستی چندہ جمع کیا اور انکار کرنے والوں کے خلاف فتویٰ جاری کرنے کی دھمکی دی تھی۔

مولانا زکی نے ان الزامات کی تردید کی ہے لیکن صحت کے مسائل کی وجہ سے تفصیلی بیان جاری نہیں کیا۔ تاہم، مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ سیاسی محرکات پر مبنی ہے اور مسلمانوں کی خیراتی کوششوں کو مجرمانہ رنگ دینے کے بڑھتے ہوئے رجحان کا حصہ ہے۔ شیرکوٹ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ مولانا زکی نے جمعہ کی نماز کے بعد صرف چندے کی اپیل کی تھی اور اس سلسلے میں کوئی دھمکی نہیں دی گئی۔ مولانا زکی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک عاجز اور پرامن شخصیت ہیں جو سماج کی خدمت کیلئے مشہور ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بچوں، خواتین اور نوجوانوں نے غزہ کیلئے اپنی استطاعت کے مطابق تھوڑا بہت عطیہ کیا۔ تاہم، اب فخر کی جگہ خوف نے لے لی ہے، کیونکہ عطیہ دینے والوں کو ڈر ہے کہ انہیں بھی اس معاملہ میں گھسیٹا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی جارحیت کیخلاف احتجاج سے قبل ہی مظاہرین کو پولیس نےروک دیا

افضل گڑھ کے سی او راجیش سولنکی نے مقدمہ درج کئے جانے کی تصدیق کی اور کہا کہ پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا اس معاملے میں غیر ملکی فنڈنگ سے جڑے کسی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ تاہم، اب تک زبردستی چندہ جمع کرنے یا فنڈز کے غلط استعمال کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ تمام عطیات رضاکارانہ تھے جو غزہ کے مصائب میں گھرے لوگوں سے ہمدردی کی وجہ سے دیئے گئے۔

شیرکوٹ کے مسلمان رہائشیوں نے الزام لگایا کہ دائیں بازو کے ہندوتوا گروپس نے پولیس پر دباؤ ڈال کر یہ کارروائی کرائی ہے۔ ان کے مطابق، ہندوتوا گروپس اکثر مسلم اجتماعات کی نگرانی کرتے ہیں اور پولیس کو کارروائی کیلئے اکساتے ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مقدمہ کمزور دکھائی دیتا ہے جب تک کہ جبر یا غیر قانونی لین دین کے واضح ثبوت پیش نہ کئے جائیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK