اے اللہ ! اگر آج مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت فناہوگئی تو پھر قیامت تک روئے زمین پر آپ کا کوئی نام لیوا نہیں ہوگا
EPAPER
Updated: May 11, 2020, 12:00 PM IST
|
Dr Saeed Ahmed Inaitullah
اے اللہ ! اگر آج مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت فناہوگئی تو پھر قیامت تک روئے زمین پر آپ کا کوئی نام لیوا نہیں ہوگا ’’ اے اللہ ! اگر آج مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت فناہوگئی تو پھر قیامت تک روئے زمین پر آپ کا کوئی نام لیوا نہیں ہوگا۔‘‘
یہ غزوۂ بدر کے وہ تاریخی لمحات ہیں جہاں سرکار دو عالم محمد رسول اللہ ﷺ کفار مکہ کے مسلح لشکر کو دیکھ کر باری تعالیٰ کے سامنے سر بسجود ہیں اور مدد و نصرت کی دعا فرما رہے ہیں۔
قریش ِ مکہ ایک ہزار کی تعداد میں ہر طرح کے اسلحہ سے لیس ہوکر مقام ِ بدر آپہنچے ۔مسلمان تعداد میں ان سے بہت کم صرف ۳۱۳؍ تھے ۔ان کے پاس ہتھیار نہ ہونے کے برابر تھے ۔ ان کے رسالہ میں صرف ۲؍ گھوڑے تھے۔ باقی مجاہدین میں سے کسی کے پاس تلوار ہے تو نیزہ نہیں اور اگر کسی کے پاس نیزہ ہے تو تلوار ندار اور کچھ تو ایسے کہ جن کے پاس کوئی بھی اسلحہ نہیں ہے۔ یہ ہے وہ جماعت جو اُس لشکر کے خلاف نکلی جو ساز و سامانِ جنگ سے لیس اپنے سرداروں اور شہسواروں کے ہمراہ اس جماعت کو ہمیشہ کیلئے نیست ونابود کرنے نکلی تھی جن کے بارے میں قریش یہ خیال رکھتے تھے کہ ان کی اکثریت انصار مدینہ کی وہ جماعت ہے جو جنگ کی ضروری مہارت سے عاری ایک کاشتکار قوم ہے، جو فنون ِ حرب سے نابلد ہے مگر پھر دیکھنے والوں نے دیکھاکہ خدائی نصرت سے انہی لوگوں نے قریش کے سرداروں اور شہسواروں کو کھجور کے کٹے ہوئے تنوں کی مانند بدر میں دفن کردیا۔
غزوۂ بدر میں فتحیابی سے اسلامی تاریخ ایک نئے موڑ مڑتی ہے۔ اس سے قبل مسلمان کسمپرسی، لاچاری اور اپنی جان بچانے کیلئے جائے پناہ ڈھونڈتے رہتے تھے اور آج سرداروں کے سر ان کے قدموں تلے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کا اخلاق بلند اور پورے علاقے میں ان کا دبدبہ اور رعب لوگوں کے چہروں پر عیاں نظر آرہاہے ۔
اسلام کی تشریعی اور مسلم امت کی عمومی تاریخ میں آغازِ دعوت سے لے کر ترک وطن اور ہجرت مدینہ تک کا طویل عرصہ مسلسل صبر واستقامت اور عفو ودرگزر سے کام لینے والوں کو اعدائے ملت و دین کے خلاف قتل اور قوت کے استعمال کی اجازت حاصل ہوچکی تھی مگر وہ تاحال ایسا ارادہ نہ رکھتے تھے۔ اس صورت حال میں اپنے محبوب ترین بندوں کے ارادوں کے بر خلاف محض خالق کی حکمت بالغہ کے تحت اس کی غیر مبدل سنت اور قدرتِ قاہرہ کا مظہرعظیم القدر رونما ہونے والے واقعہ ہی کا نام غزوۂ بدر ہے ۔ قمری حساب سے ۲؍ ہجری ۱۷؍رمضان المبارک اورمیلادی حساب سے ۱۳؍ مارچ ۶۲۴ء کو یہ غزوہ واقع ہوا۔ ایمان و حق کا یہ معرکہ امت مسلمہ کیلئے کئی اہم دروس و عبر پر محیط ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ ا س کے مختلف پہلوؤں کی طرف توجہ کرتے چلیں ۔
قریش مکہ جو عداوت حق میں اپنے زمانہ کے سرغنہ تھے، وہ دعوت ِ حق کو کسی بھی صورت پنپتے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ اپنے وطن اور اللہ کے گھر اور اس کے حرم محترم سے ہجرت کے باوجود کفر کے ان سرغنوں اور شر کے ان سرداروں کی ہمہ وقت کوشش اہل ایمان کی جماعت سے مسلسل عداوت ، ان کے خلاف سازش اور ان کی قوت کو توڑنے کی ہمہ وقت تدابیر ان کا ہدف اولین تھا۔ ان احوال میں شر وشیطان کی اس جماعت کی قوت وشوکت کو توڑنا، انہیں مادی طورپر کمزور کرنا، سیاسی طورپر غیر مستحکم بنانا، یہ اہل حق کا حق تھا اسی لئے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب قریش کے تجارتی قافلہ کا جہت ِ شام سے ابوسفیان کی قیادت میں واپسی کا علم ہوا، یقیناً یہ قریش کے مادی استحکام اور ان کی عسکری قوت کیلئے سرمایہ کاذریعہ تھا لہٰذا مسلمانوں نے اس قافلے کو روکنے اور اس سے تعرض کا ارادہ فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے تم سے (کفارِ مکہ کے) دو گروہوں میں سے ایک پر غلبہ و فتح کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ یقیناً تمہارے لئے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح (کمزور گروہ) تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے حق کو حق ثابت فرما دے اور (دشمنوں کے بڑے مسلح لشکر پر مسلمانوں کی فتح یابی کی صورت میں) کافروں کی (قوت اور شان و شوکت کی) جڑ کاٹ دے تاکہ (معرکۂ بدر اس عظیم کامیابی کے ذریعے) حق کو حق ثابت کر دے اور باطل کو باطل کر دے اگرچہ مجرم لوگ ناپسند ہی کرتے رہیں۔‘‘ (انفال:۷۔۸)
جس امر کا ارادہ مسلمانوں نے کیا تھا وہ تو نہ ہوسکا، قضائے الہٰی غالب رہی۔ تجارتی قافلہ تو فرار میں کامیاب ہوگیا مگر اس فیصلہ کن معرکہ کے اسباب پیدا ہوگئے جو رحمٰن کا ارادہ تھا۔ قریش جنہیں پہلے سے ہی مسلمانوں کا مکہ مکرمہ سے بچ نکلنا، پھر مدینہ منورہ میں امن سے رہنا، مدینہ کے اردگرد والوں کا اور دیگر قبائل کا پیغمبر اسلام ﷺ کے قریب ہوجانا گوارا نہ تھا، انہیں اپنے غیظ و غضب کے اظہار کا موقع میسر آگیا۔ وہ اپنی پوری قوت کو مجتمع کرکے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی اپنی انتہائی خواہش کی تکمیل نیز دیگر عرب پر اپنا سکہ جمانے اور یوں خطے میں اپنی برتری قائم کرنے کی خاطر پوری تیاری سے نکلے مگر یہ ان کا عزم تھا جس کا انہوں نے برملا اظہار بھی کیا اور قرآن نے بھی اسے یوں ثبت فرمایاکہ ’’اور ایسے لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اپنے گھروں سے اِتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھلاتے ہوئے نکلے تھے اور (جو لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکتے تھے، اور اللہ ان کاموں کو جو وہ کر رہے ہیں (اپنے علم و قدرت کے ساتھ) احاطہ کئے ہوئے ہے۔‘‘
(انفال:۴۷)
اس آیت میں کفار کے ظاہری عزائم اور ان کے خبث باطنہ کا بیان ہے۔ نیز اس میں اللہ تعالیٰ کی اس قضاء مبرم کی طرف بھی اشارہ ہے جس کی خاطر حق تعالیٰ نے قافلہ کے بجائے مسلمانوں کو اعدائے اسلام کی مادی،عسکری اور سیاسی قوت کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔ تعداد میں کثیر، اسباب حرب سے مکمل مسلح جماعت کو قلیل تعداد اور انتہائی کم اسباب حرب والی دو جماعتوں کا آمنا سامنا کرادیا۔ مسلمانوں کی تعداد سے اہل کفر۳؍ گنا اور اسباب حرب میں کئی گنازیادہ تھے مگر باری تعالیٰ کی مرضی یہ تھی کہ لوگ ایمانیات و غیبیّات کا مشاہدہ کرلیں، حق وباطل میں تفریق دیکھ لیں۔ قرآن نے اسے یوں ثبت فرمایا: ’’ اے مسلمانو! یاد کرو وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو حکم کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہلِ ایمان کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رُعب ڈالے دیتا ہوں۔‘‘(انفال:۱۲) (جاری