Inquilab Logo Happiest Places to Work

ماہ رمضان میں سلف کا معمول اور ہماری ترجیحات

Updated: March 20, 2025, 12:01 PM IST | Rizwanullah Abdul Rauf Siraji | Mumbai

آج آپ کے دست و پا میں طاقت ہے، ابھی آپ کے پاس موقع ہے، وقت ہے، جتنی نیکیاں کرنا ہے کرلیں ۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

محترم قارئین !رمضان کا با برکت مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے، یہ مہینہ برکتوں ، سعادتوں اور نیکیوں کا مہینہ ہے، یہ قرآن کا مہینہ ہے، رحمت و غفران کا مہینہ ہے، قبولیت اعمال کا مہینہ ہے، جہنم سے آزادی اور دعاؤں کا مہینہ ہے، اللہ اس ماہ میں نیکیوں کےتمام دروازے کھول دیتا اور گناہوں کے تمام دروازے بند کردیتا ہے۔ کچھ لوگ تواس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خلوص کے ساتھ جم کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ، تلاوت قرآن، سنن و نوافل اور دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں لیکن وہیں کچھ دیگر ایام کی طرح بس چند عبادتوں ہی پر اکتفا کرلیتے ہیں ۔ 
سلف کا حال ہم سے مختلف تھا، انہوں نے اس ماہ کا بھر پور فائدہ اٹھایا، وہ اللہ سے چھ ماہ دعا کرتے تھے کہ انہیں رمضان کا مہینہ ملے، پھر وہ چھ ماہ اللہ سے دعا کرتے تھے کہ وہ ان کی طرف سے قبول کرے اورماہ رمضان جب ختم ہوجاتا تو وہ مایوس ہوجاتے، غم کا اظہار کرتے اور ان میں کا بعض بعض کو سال بھر اطاعت و فرماں برداری کی وصیت کرتا کیوں کہ مومن کے نزدیک ہر مہینہ عبادت کا مہینہ ہے بلکہ پوری عمر اطاعت ہی کا مہینہ ہے۔ 
سلف میں سب سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نام آتا ہے جنہیں رسول گرامی ﷺ کی رفاقت ملی، جنہوں نے نبی ﷺ کا بنفس نفیس دیدار کیا ہے پھر تابعین عظام رحمہم اللہ کا نام آتا ہے، جنہوں نے نبی ﷺ کو تو نہیں دیکھا لیکن نبی ﷺکے صحابہ کو ضرور دیکھا ہےاور ان دونوں کے ادوار کو اللہ کے رسول ﷺ نے قرون مفضلہ میں شمار کیا ہے، ان کی زندگی کا جائزہ لینےسے پتہ چلتا ہےکہ ان کے احوال و اقوال رسول گرامیؐ کی زندگی کا مرقع تھے۔ 
دیگر مہینوں کےمقابلےاللہ کے رسول ﷺاس ماہ میں دگنا عبادت انجام دیتے تھے، اسی لئےدیگر مہینوں کے مقابلے سلف کا حال بھی ماہ رمضان میں جدا گانہ ہوا کرتا تھا اور وہ اس ماہ میں عبادات پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ ذیل کی سطور میں ماہ رمضان کے حوالےسے سلف کے چند احوال ملاحظہ کریں ۔ 
ابن عبد الحکم فرماتے ہیں ’’ رمضان آتے ہی امام مالک درس حدیث اور علمی مجلسوں سے الگ ہو کر تلاوت قرآن یعنی مصحف پر زور دیتے تھے۔ ‘‘ (لطائف المعارف :۱؍۱۷۱)
عبد الرزاق فرماتے ہیں کہ ’’ماہ رمضان آتے ہی سفیان ثوری ؒ تمام عبادتیں چھوڑ کرتلاوت قرآن پر توجہ دیتے تھے۔ ‘‘ (وظائف رمضان :۱؍۴۲)
مسیح بن سعید فرماتے ہیں کہ ’’محمد بن اسماعیل ماہ رمضان میں (قرآن ) روزانہ دن میں ایک مرتبہ اور تراویح کے بعد ہر تین رات میں ایک مرتبہ ختم کرتے۔ ‘‘ (سیر أعلام النبلاء :۱۰ ؍ ۱۰۳ )
سعید بن جبیر کی بابت عبد الملک بن سلیمان فرماتے ہیں کہ’’ وہ ہر دو رات میں قرآن ختم کرتے تھے۔ ‘‘ (الزھد لإبن حنبل : ۲۱۶۲)
سفیان ثوری ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ زبید الیامی جب ماہ رمضان آتا تو مصحف لاتے اور اس کے پاس اپنے ساتھیوں کو جمع کرلیتے تھے۔ ‘‘(لطائف المعارف :۱۷۱)
سلام بن أبو مطیع فرماتے ہیں کہ’’قتادہ سات (دن ) میں قرآن ختم کرتے تھے لیکن جب رمضان آجاتاتو ہر تین میں اور جب آخری عشرہ آجاتا تو ہر ایک رات میں ختم کرتے۔ ‘‘ 
(سیر أعلام النبلاء: ۵؍۲۷۶)
قاسم بن علی اپنے والد ابن عساکر رحمہ اللہ کی بابت فرماتے ہیں ’’وہ ہمیشہ باجماعت نماز ادا کرتے اور قرآن کی تلاوت کرتے، ہر جمعہ کو قرآن ختم کرتے، ہر رمضان میں روزانہ ختم کر تے اور منارئہ شرقیہ یعنی دمشق کی جامع مسجد میں اعتکاف کرتے تھے۔ ‘‘(قیمۃ الزمن عند العلماء : ۱؍۹۶)
یہ تھا ماہ رمضان میں سلف صالحین کاحال قرآن کے ساتھ لیکن ہمارا کیا حال ہے؟ اگر امام مالکؒ تلاوت قرآن کے لئے علمی مجالس موقوف کر سکتے ہیں تو کیا ہم ٹویٹر، فیس بک، انٹر نیٹ اور ٹی وی وغیرہ نہیں چھوڑ سکتے ؟ 
سخاوت کا عالم یہ تھا کہ ماہ رمضان میں آپ ﷺ دیگرمہینوں کی بہ نسبت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، اسی لئےسلف بھی ماہ رمضان میں اللہ کی راہ میں خوب خرچ کرتے تھے۔ 
امام شافعیؒ نے فرمایا’’ لوگوں کے نزدیک ماہ رمضان میں زیادہ سخاوت کرنے والا محبوب ہوتا ہے کیوں کہ اس میں نبی ﷺ کی اقتداء ہے، اس میں لوگوں کی مصلحت اور ان کی ضرورت کی رعایت ہےکیوں کہ بہت سے لوگ کام کاج سے ہٹ کر روزے اور نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ‘‘(لطائف المعارف :۱؍۱۶۹) اسی لئے ماہ رمضان میں صاحب ثروت حضرات سےسخاوت ہی مطلوب۔ ماہ رمضان آتے ہی عمر فاروق ؓکہتے کہ’’گناہوں سے پاک کرنے والے کا آنا مبارک ہو، رمضان پورا خیر ہے، دن میں روزہ اور رات میں قیام اور اس میں خرچ کرنا فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی طرح ہے۔ ‘‘ (تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الانبياء والمرسلين للسمرقندي: ۴۵۵)
امام شافعی ؒفرماتے ہیں ’’ابن عمر ؓ روزہ رکھتے لیکن افطاری مساکین ہی کے ساتھ کرتے تھے، مسجد آکر نماز ادا کرتے لیکن گھر جاتےوقت ان کے ساتھ مسکینوں کا ایک گروپ ہوا کرتا تھا۔ اگر ان کے پاس کھانے کی حالت میں کوئی مانگنے والا آجاتا تو کھانے سے اس کا حصہ لیتے اور کھڑے ہو کر اسے دےدیتے تھے، جب وہ واپس ہوجاتا تب برتن میں بچا ہوا کھانا ان کے اہل کھاتے، کچھ کھائے بغیر وہ روزے کی حالت میں صبح کرتے۔ (لطائف المعارف : ۱؍ ۱۶۸ )
آج ہمارا معاملہ سلف کے برعکس ہے، ہم پوری رات موبائل وغیرہ میں گزار دیتے ہیں، دیر رات میں سونے کی وجہ سے سحری بھی نہیں کرتے بلکہ فجر کی نماز کا کچھ پتہ نہیں ہوتا، ظہر تک سوتے ہیں ، اٹھتے ہی پہلے نہاتےہیں اور سیر و تفریح کے لئے نکل جاتے ہیں ۔ کچھ لوگ تو اسے کما ئی کا مہینہ بنا لیتے ہیں ، انہیں صرف کما ئی سے مطلب ہوتا ہے۔ بھا ئیو !وقت قیمتی ہے، آج آپ کے دست و پا میں طاقت ہے، ابھی آپ کے پاس موقع ہے، وقت ہے، جتنی نیکیاں کرنا ہے کرلیں ۔ ہم میں کتنے لوگ پچھلے رمضان میں تندرست تھے لیکن آج وہ مجبور ہیں ، وہ ترس رہے ہیں کہ کاش میرے بدن میں طاقت ہوتی تو میں بھی قیام اللیل کی ادائیگی کرتا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK