Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

خواتین رمضان کیسے گزاریں ؟ (۱)

Updated: March 10, 2025, 2:47 PM IST | Shagufta Umer | Mumbai

خواتین کو چاہئے کہ اپنے پاس موجود سونے کے زیورات، جائیداد یا جمع شدہ رقم پر اہتمام کے ساتھ تعین کر کے اپنی زکوٰۃ ادا کریں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں زندگی، ایمان اور صحت کی حالت میں ایک دفعہ پھر رمضان گزارنے کی سعادت عطا کی، جوکہ ہمارے گناہوں کی مغفرت اور جنت کے حصول کے ساتھ ہماری تربیت کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کی مہلت ِ عمل اس رمضان کی آمد سے پہلے ہی ختم ہو گئی اور وہ زندگی کے سفر کے اگلے مرحلے میں داخل ہو گئے، جہاں اب اپنے اعمال کے ذریعے مغفرت اور بلندیٔ درجات کا موقع ختم ہو گیا۔ البتہ صدقۂ جاریہ کے کاموں اور اولاد کی دعاؤں کے فیض سے اجر کا ایک راستہ باقی رہ گیا۔ 
فرضیت و فضیلت ِ رمضان
رمضان کی فرضیت، فضیلت اور مقاصد کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا: ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔ اور اے نبیؐ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہئے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ (یہ بات تم انہیں سنا دو) شاید کہ وہ راہِ راست پا لیں۔ ‘‘ (البقرہ: ۱۸۵- ۱۸۶)
اب جب ہم نے رمضان کو پا لیا تو ہم پر اس ماہ کے تمام روزے رکھنا فرض ہوگئے۔ کتنا رحیم ہے وہ پروردگار جس نے فرضیت کے حکم کے ساتھ ہماری کمزوریوں اور مجبوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اس میں استثنیٰ بھی عطا فرما دیا، یعنی بیماری یا حالت ِ سفر میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت۔ البتہ عذر دور ہونے کے بعد ان روزوں کی تعداد بصورتِ قضا پوری کرنا ہوگی۔ مرض میں رخصت سے مراد کسی قسم کا دائمی مرض بھی ہے جیسے ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور گردوں کے امراض وغیرہ، اور انتہائی شدید مرض جیسے کینسر یا ہیپیٹائٹس و دیگر، یا معمولی تکلیف جیسے بخار ہو جانا اور ڈائریا و ہیضہ وغیرہ ہوجانا۔ نیز خواتین کے لیے حمل کی صورت میں، جب کہ خاتون یا بچے کو نقصان پہنچنے کا امکان ہو، اور رضاعت کے دوران بھی اگر بچے کا محض ماں کے دودھ پر انحصار ہو اور ماں بھوک پیاس برداشت نہ کر پائے تو اسے اس شرعی عذر سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے۔ اگر کسی بھی قسم کا شرعی عذر دور ہو جائے تو ان روزوں کی قضا لازم ہوگی۔ دائمی مرض کی صورت میں فدیہ دینا ہوگا اور وقتی عذر کی صورت میں فدیہ لازم نہیں، لیکن دے دینا افضل ہوگا کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں، کیا معلوم قضا رکھنے کی مہلت ہی نہ ملے۔ یہ تمام آسانیاں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب ہیں جو اپنے احکام کے ذریعے ہمیں تکلیف اور مصیبت میں ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ مغفرت اور اجر عطا کرنا چاہتا ہے۔ 
رمضان کی فضیلت کی وجہ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ مبارک میں قرآن کے نزول کو قرار دیتے ہوئے اس ہدایت عظمیٰ پر شکر گزار ہونے کی تاکید کی ہے۔ دورانِ رمضان ہرروز اپنی نیت کو تازہ کریں، اپنے عزم کو پختہ کریں کہ رمضان کی اہمیت، فضیلت، پیغام اور مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے معمولات کو ترتیب دوں گی اور روزوں کے مقاصد تک پہنچنے کی کوشش کروں گی۔ 
قرآن مجید سے تعلق
اس ماہ مبارک میں ہمیں جس چیز کا سب سے زیادہ اہتمام کرنا ہے وہ قرآن مجید کی صحبت اور معیّت ہے۔ تلاوت و سماعت ِ ترجمہ و تفسیر دورۂ قرآن اور قیام اللیل کے ذریعے قرآن کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنے کی استعداد پیدا کرنا ضروری ہے۔ تلاوت کی مقدار کے حوالے سے تراویح کے ذریعے ایک پارہ روزانہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اگر دورۂ قرآن کی محفل میں شرکت ممکن نہ ہو تو مستند وہاٹس ایپ پر ترجمہ و تفسیر کے گروپ میں شمولیت اختیار کی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ناظرہ قرآن پڑھتے وقت کم از کم ایک رکوع کا ترجمہ ہی سمجھ کر پڑھ لیا جائے اور رفتہ رفتہ ترجمے کو بعد از رمضان مکمل کر لیں۔ اگر کسی جگہ خواتین کی تراویح کا اہتمام ہو تو ضرورشرکت کی کوشش کریں۔ بصورتِ دیگر گھر میں ہی تراویح پڑھیں۔ 
انفاق فی سبیل اللہ
ایک حدیثِ رسولؐ میں روزے کو ہمدردی کا مہینہ بھی قرار دیا گیا ہے جس میں کسی روزہ دار کو افطار کروانے کے جو ذرائع بھی میسر ہوں اجر کا باعث بتائے گئے ہیں، خواہ ایک کھجور، دودھ، لسی اور پانی کا ایک گھونٹ ہی ہو۔ البتہ اپنے وسائل کے مطابق مستحق روزہ داروں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانے کا اہتمام ضرور کریں کہ اس کا اجر قیامت کے دن حوضِ کوثر سے سیرابی ہے۔ فرائض کے ستّر گنا اجر کی بنیاد پر اکثر لوگ ترجیحاً رمضان میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ خواتین کو چاہئے کہ اپنے پاس موجود سونے کے زیورات، جائیداد یا جمع شدہ رقم پر اہتمام کے ساتھ تعین کر کے اپنی زکوٰۃ ادا کریں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ عورت کی ذاتی ملکیت (زیورات، جائیداد و نقد رقوم) پر شوہر کیلئے زکوٰۃ دینا لازم نہیں۔ یہ شوہر کا حُسن ِ سلوک ہے کہ وہ اپنی بیوی کی طرف سے زکوٰۃ ادا کر دے۔ چنانچہ اگر شوہر کیلئے ممکن نہ ہو تو اپنی زکوٰۃ ادا کرنا ایک خاتون کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ کا کوئی ذریعۂ آمدنی نہ ہو تو اپنے زیورات میں سے بیچ کر ادا کریں کیونکہ اس معاملے میں لاپروائی آخرت میں بہت بڑے عذاب سے دوچار کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں زکوٰۃ کے احکام کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرور کوشش کریں۔ 

ذکر اوردعاؤں کا اہتمام: آغازمیں بیان کردہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن اور رمضان کے ساتھ دعاؤں کے خصوصی تعلق کا ذکر کیا ہے۔ دعا درحقیقت ذکر ہی کی ایک صورت ہے۔ ذکر کی اگرچہ قلبی، قولی اور عملی صورتیں بھی ہوتی ہیں لیکن رمضان المبارک میں آپ کو چاہئے کہ خصوصی طور پر زبان سے ذکر کا اہتمام کریں۔ کلمۂ شہادت، تیسرا اور چوتھا کلمہ، استغفار کے مختلف کلمات، صبح و شام کے اذکارو دیگر انتہائی توجہ اور یکسوئی سے ادا کریں۔ رمضان کی راتوں میں روزہ افطار کے وقت بلکہ سارا دن ہی توجہ اور یقین کے ساتھ اپنے مسائل، پریشانیوں، نعمتوں کے حصول اور مغفرت کی دعائیں مانگیں۔ اپنے ملک کی فلاح، خوش حالی اور استحکام کے ساتھ امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے بھی دُعا کریں۔ رمضان میں اللہ تعالیٰ عرش کے حامل فرشتوں کو بھی کہتے ہیں کہ وہ دعا کرنے والوں کی دعا پر آمین کہیں۔ اور حدیث مبارکہ میں افطار کے وقت دعاؤں کی قبولیت کو بھی لازم بتایا گیا ہے۔ 
رمضان اور احتساب:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 
 ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیے گئے، اور جس نے رمضان میں راتوں کو قیام کیا، ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیے گئے، اور جس نے شب قدر میں قیام کیا ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے گئے۔ ‘‘(متفق علیہ)
 اس حدیث مبارکہ میں رمضان کے روزوں، قیام اللیل یعنی تراویح اور شب ِقدر کی عبادت کے اجر میں گزشتہ گناہوں کی معافی کا زبردست پیکیج دیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی تینوں مراحل میں ایمان اور احتساب کی شرط لگائی گئی ہے۔ اس شرط سے مقصود اللہ تعالیٰ پر ایمان، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بحیثیت رہبر اور راہنما ایمان، آخرت کے مراحل اور جواب دہی پر ایمان کے تقاضوں کو سمجھنا اور ان پر عمل پیرا ہونے کی نیت اور کوشش کرنا ہے۔ دوسری اہم بات ایمانیات، اخلاقیات اور معاملات کے حوالے سے اپنے اعمال کا جائزہ لینا ہے کہ کیا مطلوب ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ مجموعی طور پر ہم اپنی زندگی اور روزمرہ کے معاملات میں اللہ تعالیٰ کو خالق، مالک، رازق تسلیم کرتے ہوئے اپنے عمل میں ان صفات میں کتنی مطابقت قائم کرتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ کو رحیم، رحمان، شفیق، غفور، حلیم سمجھتے ہوئے اپنے گناہوں اور غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے کس طرح آہ وزاری سے استغفار کرتے ہیں ؟ اور ان صفات کو انسانوں سے معاملات میں کس حد تک اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ؟ آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے آخرت کے تمام مراحل، میدانِ حشر کی حاضری اور جواب دہی، میزانِ اعمال، نامۂ اعمال، پل صراط اور شفاعت ِ رسولؐ کو اپنے ذہن میں مستحضر رکھنے اور ان مراحل کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنے کی کتنی فکر اور عملی کوشش کرتے ہیں ؟
 احتساب کا عمل ایمانیات کے بعد ہمارے اخلاق اور معاملات سے متعلق ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا ہے کہ ہم اخلاقی معیار سے فضائلِ اخلاق سے کتنا قریب اور رزائل اخلاق سے کتنا دُور ہیں ؟ سچائی، قناعت، حیا، امانت داری، ایفائے عہد، ہمدردی، ایثار و قربانی، بہادری اور بُردباری کا ہماری زندگیوں میں کتنا عمل دخل ہے؟ کہیں جھوٹ، غیبت، چغلی، عیب جوئی، خیانت، وعدہ خلافی وغیرہ غیر محسوس طریقے سے ہمارے عمل کا حصہ تو نہیں ؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ سے اپنے اخلاق کی بہتری کی دعا کرتے ہوئے برے اخلاق کو دور کرنے اور اچھے اخلاق کو اختیار کرنے کی شعوری کوشش کریں۔ 
 معاملات کے حوالے سے اپنے تمام رشتوں بحیثیت بیٹی، بہن، ماں، ساس، بہو، نند، بھابی، خالہ، پھوپھی اور دیگر میں دیکھیں کہ اپنے فرائض کی ادائیگی پر میری کتنی نظر اور کتنی کوشش ہے؟ محض حقوق طلب کرنا اور فرائض کی عدم ادائیگی معاشرت میں حسن پیدا نہیں کر سکتی۔ آپ کے حقوق کسی نے ادا نہیں کئے تو اُس سے بازپُرس ہوگی، جب کہ آپ کو اپنے فرائض کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی۔ رزق حلال کے بارے میں محتاط رہیں۔ اس حوالے سے اپنے شوہر کی بھی مدد کریں اور ان کی استطاعت سے زیادہ مالی وسائل طلب نہ کریں۔ احتساب کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرماتے ہوئے کہ میں تمہاری پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں یہ بھی فرمایا کہ پھر میری بات کو بھی سنو اور مجھ پر ایمان لاؤ تاکہ تم فلاح پاؤ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو دل سے قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔ 
رمضان ایک تربیت گاہ: اسلام میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کی عبادات بذات خود مقصود نہیں ہیں، بلکہ یہ ہمہ وقت اللہ کی رضا اور تقویٰ کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ ہرسال رمضان کا مہینہ جو پوری امت کو سال کے ایک ہی دورانیہ میں گزارنا ہے، مسلمانوں کے لئے ایک تازگیِ ایمان و عمل کی تربیت گاہ کا درجہ رکھتا ہے۔ چنانچہ اس سے انھی فوائد کا حصول مطلوب ہے جو تربیت کا حاصل ہونے چاہئیں۔ اس تربیت گاہ سے گزرنے کے بعد اولاد کو چاہیے کہ والدین کا ماتھا چومے اور انھیں بتائے کہ وہ ان کی تمام محبتوں اور خدمات کے شکر گزار ہیں اور ان سے محبت کا اظہار کریں۔ شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کا شکریہ ادا کرے کہ اس نے تمام گھر والوں کے لئے کھانا پکانے، صفائی ستھرائی اور بچوں کی تربیت میں کتنی محنت کی ہے۔ بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی شکر گزار ہو کہ وہ دن بھر مصروفِ عمل رہ کر بیوی بچوں اور والدین کے لئے وسائل زندگی مہیا کرتا ہے اور گھر والوں سے محبت و شفقت کا برتاؤ کرتا ہے۔ اس تربیت گاہ سے گزرنے والا فرد اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب سے کسی تکلیف پہنچانے پر تہ دل سے معافی بھی مانگ سکتا ہے، اور اپنے ملازمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جنہوں نے اپنی خدمات سے انہیں سہولیات باہم پہنچائیں ان کی تواضع اور دلجوئی کرسکتا ہے۔ والدین اس تربیت گاہ سے گزرنے کے بعد اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کرنے اور ان کی زندگی میں بڑے بڑے خوابوں کی تکمیل کے لئے عملی تعاون فراہم کرنے اور ان کی بہتر سے بہتر اخلاقی، معاشرتی اور روحانی تربیت پر توجہ دینے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK