Inquilab Logo

روزہ ہیں، گلی گلی خاک چھاننا روز کا معمول ہے

Updated: April 03, 2024, 12:31 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai

روزہ ایسی عبادت ہے کہ کسی کو دیکھ کر پتہ نہیں لگایا جاسکتا ہے وہ روزدار ہے یا نہیں لیکن عام دنوں میں بھی کھانے پینے کے اوقات میں یا کبھی کسی کو کوئی کھانے پینے کی چیز پیش کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے بہت سے نیک بندے سال بھر نفلی روزے رکھتے رہتے ہیں، حالانکہ بظاہر وہ زیادہ دیندار نظر بھی نہیں آتے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

روزہ ایسی عبادت ہے کہ کسی کو دیکھ کر پتہ نہیں لگایا جاسکتا ہے وہ روزدار ہے یا نہیں لیکن عام دنوں میں بھی کھانے پینے کے اوقات میں یا کبھی کسی کو کوئی کھانے پینے کی چیز پیش کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے بہت سے نیک بندے سال بھر نفلی روزے رکھتے رہتے ہیں، حالانکہ بظاہر وہ زیادہ دیندار نظر بھی نہیں آتے۔ البتہ جن لوگوں کو بچپن سے رمضان کے روزے رکھنے کی عادت ہے تو پھر بچے، بوڑھے بیمار کوئی اس عبادت کو چھوڑنے کے تعلق سے سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہماری قوم میں یوں تو بہت سے خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں لیکن جہاں تک روزہ کا سوال ہے تو ایسے لوگ مل جاتے ہیں کہ دل سے ان کی تعریف نکلتی ہے کہ کیسے کیسے مشکل حالات میں بھی لوگ روزہ رکھتے ہیں اور ایسی ہی کچھ مثالیں اس سال رمضان میں بھی سامنے آئی ہیں جن کا ذکر یہاں کرنا شاید روزہ رکھنے کیلئے کسی کی ہمت بندھنے کا سبب بن جائے۔ 
 دوپہر کے تقریباً ۳؍ بجے ہوں گے ایک صاحب چہرے پر داڑھی، سر پر ٹوپی لگائے کاندھے پر کچے کپڑوں کا جھولا لٹکائے، ایک ہاتھ میں کپڑوں کی تھیلی اور دوسرے ہاتھ میں کپڑوں کے چند کے نمونے لئے ہر چند قدم چلنے کے بعد ’کپڑے والا، کپڑے والا‘ آوازلگاتے جارہے تھے۔ داڑھی ٹوپی دیکھ کر اندازہ ہوا کہ روزہ دار ہوں گے اور روزہ رکھ کر کاندھوں پر کئی کلو وزنی بوجھ لئے گلی گلی آواز لگاتے پھرنا آسان نہیں ہوتا۔ سوچا ان سے بات کرکے رمضان میں ان کے مشقت والے پیشے کے تعلق سے ایک خبر بنادوں گا اور یہ خیال آتے ہی انہیں بھائی صاحب کہہ کر آواز دے دی۔ گاہک ملنے کی امید میں وہ رُک گئے۔ مجھے اندازہ تھا مجھے کوئی گاہک سمجھ رہے ہوں گے اس لئے پہلے ہی اپنا تعارف کروادیا کہ ایک صحافی ہوں کچھ خریدنا نہیں صرف گفتگو کرنے کے مقصد سے روک لیا ہے۔ 
وہ بغیرکسی تاثر کے میری بات سن رہے تھے، اپنا نام ریاض بتایا۔ یہ بھی تصدیق کی کہ روزہ ہیں اور گلی گلی خاک چھاننا روز کا معمول ہے اور شام کو جہاں بھی وہ موجود ہوتے ہیں وہیں افطار ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ افطار کا کوئی نہ کوئی انتظام کردیتا ہیں۔ البتہ جس مقصد سے انہیں روکا تھا وہ پورا نہ ہوسکا کیونکہ ان کے پیشے کے تعلق سے مزید کچھ بات ہونے سے قبل وہ روہانسے ہوگئے اور اپنے جو حالات انہوں نے بیان کئے اس کا لب لباب یہ ہے کہ آبائی وطن میں وراثت میں کچھ زمین ملی تھی جس پر ۲؍ خواتین نے انہیں  ۸؍ لاکھ روپے دے کر مکان تیار کیا تھا اور اس میں رہنے لگیں۔ ریاض صاحب کی ایک بہو نے اپنے زیورات فروخت کرکے ان خواتین کی رقم ادا کردی اور اب وہ زمین اور مکان ان کے صاحبزادے کے قبضہ میں ہے اور انہیں ان سے مکان واپس حاصل کرنے کیلئے ۸؍لاکھ روپے کی ضرورت ہے جو کسی حال میں جمع نہیں کرپارہے۔ مزید گفتگو کیلئے وقت نہیں بچا تھا اس لئے فون نمبر لے کر انہیں رخصت کردیا۔ ان کے جانے کے چند سیکنڈ بعد ایک دیگر داڑھی ٹوپی والے صاحب جو پہلے والے شخص کی طرح عمر دراز معلوم ہورہے تھے ہاتھوں میں خواتین کا اسکارف لئے آواز لگاتے سامنے سے گزرے۔ وہ احساس دلا گئے کہ ایسے بہت سے افراد ہیں جو روزہ رکھ کر روزانہ اس طرح کی یا اس سے بھی زیادہ جسمانی مشقت برداشت کرتے ہیں۔ بیکریوں کی جھلستی بھٹیوں پر کام کرنے والے، شدید دھوپ میں ہاتھ گاڑی کھینچنے والے، ویلڈنگ کی گرمی میں کام کرنے والے، لوگوں کو اے سی کی ٹھنڈک پہنچے اس لئے دھوپ میں اے سی کی مرمت کرنے والے اور نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہیں جنہیں کوئی تکلیف روزہ سے نہیں روک سکتی۔ 
 عام طور پر ایسی مشقت برداشت کر کے روزہ رکھنا ان ہی کیلئے آسان ہوپاتا ہے جن کے والدین اور سرپرست بچپن ہی سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالتے ہیں۔ 
 ایک دیگر واقعہ یہ ہوا کہ حال ہی میں ایک وہاٹس ایپ گروپ پر ایک فٹبال لیگ میچ کیلئے ۹؍ اور ۱۱؍ سالہ کھلاڑیوں کے نام طلب کئے گئے۔ اس پر کسی خاتون نے پوچھا کہ بچے روزہ رکھ کر فٹ بال کا میچ کیسے کھیل سکیں گے۔ اس پر کسی نے وہاٹس ایپ پر ہی جواب دیا کے کہ الحمدللہ ہمارے ۹؍ اور ۱۱؍ سال کے عمر کے کھلاڑیوں نے روزہ رکھ کر ۷؍ سے ۸؍ میچ کھیلے اور تمام میچ جیتے بھی ہیں۔ 
 انہوں نے تسلی دی کہ ہمارے بچے روزہ رکھ کر جسمانی محنت کرلیتے ہیں اور ان شاء اللہ رمضان میں ہونے والے باقی کے میچ بھی جیت جائیں گے۔ اس کے علاوہ مزید چند میچ رمضان میں ہوں گے اس کے بعد کے سارے میچ رمضان کے بعد ہوں گے۔ وہاٹس ایپ پر ہونے والی اس گفتگو کو پڑھ کر اس بات کی خوشی ہوئی کہ والدین اور بچوں میں سے کسی نے بھی روزہ یا میچ چھوڑنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں۔ ہاں یہا یہ کہا جاسکتا ہےکہ رمضان کے چند روز کھیل کود کو کنارے رکھ کر عبادت کو ترجیح دی جائے تو بہتر ہوگا اور یہ بات ہر ایک پر نافذ ہوتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK