کچھ روز پہلے کی بات ہے الگ الگ جگہ لوگوں سے یہ بات سننے کو مل رہی تھی کہ رمضان آرہا ہے، چند روز بچے ہیں، کسی نے کہا اتنی جلدی پھر رمضان آگیا ایسا لگ رہا ہے کہ ابھی جلدی ہی رمضان گزرا تھا اور اب جب یہ ڈائری پڑھی جارہی ہوگی تو پانچ روزے گزر چکے ہوں گے اور چھ تراویح پڑھی جا چکی ہوگی۔
ماہِ رمضان ، برکت کا مہینہ ہے، اللہ بندے کو کیسے نوازتا ہے کسے خبر!۔ تصویر: آئی این این
کچھ روز پہلے کی بات ہے الگ الگ جگہ لوگوں سے یہ بات سننے کو مل رہی تھی کہ رمضان آرہا ہے، چند روز بچے ہیں، کسی نے کہا اتنی جلدی پھر رمضان آگیا ایسا لگ رہا ہے کہ ابھی جلدی ہی رمضان گزرا تھا اور اب جب یہ ڈائری پڑھی جارہی ہوگی تو پانچ روزے گزر چکے ہوں گے اور چھ تراویح پڑھی جا چکی ہوگی۔ ذرا غور تو کیجئے کہ حقیقتاً کتنی جلدی وقت گزر رہا ہے۔ رمضان کے اس ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں مختلف مقامات پر جانا ہوا اور رمضان میں خرید و فروخت اور دکانوں کے تعلق سے چند دلچسپ باتیں بھی سننے کو ملیں۔
عام دن ہو یا رمضان کا قیمتی وقت مسلمانوں کی غفلت کے تعلق سے اَن گنت مرتبہ لکھا جا چکا ہے اس لئے کم از کم یہاں اس تعلق سے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں رہتی لیکن کسی نہ کسی صورت یہ بات اپنے آپ سامنے آہی جاتی ہے۔ ممبئی میں رمضان کو روزے سے زیادہ کھانے سے جوڑ دیا گیا ہے اس لئے کھانے پینے کے بازاروں کی رونق دوبالا ہوجاتی ہے۔ اسی رونق کے تعلق سے ایک شناسا سے گفتگو ہو رہی تھی تو کہنے لگے، ’’بھائی رمضان تو کمائی کا مہینہ ہے بس سمجھ کا کھیل ہے کہ کون کیا کماتا ہے۔ ایک جگہ نفل کا ثواب فرض کے برابر مل رہا ہے تو بہت سے لوگ نیکی کمانے میں لگے ہیں اور ایک جگہ کھانے، پینے، کپڑے، جوتے اور دیگر کاروبار میں آمدنی کا موقع ہے تو بہت سے لوگ پیسے کمارہے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے خود ہی کہا کہ حلال کمانے میں تو کوئی برائی نہیں ہے لیکن ہر مسلمان کو رمضان کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔
کہنے لگے، ’’ایک نوجوان کا قصہ سنو، میں چند برسوں سے اسے جانتا ہوں جو پورے سال آوارہ گردی کرتے پھرتا ہے، کوئی کام دھندہ نہیں کرتا نہ گھر والوں کے کچھ کام آتا ہے لیکن اس کے باپ دادا کے زمانے سے ان کے گھر کے لوگ رمضان میں محمد علی روڈ پر ایک مخصوص قسم کی مٹھائی فروخت کرتے ہیں جسے ہر کوئی بنانا نہیں جانتا۔ بہر حال یہ نوجوان پورے رمضان ٹھیلے پر رات بھر یہ مٹھائی فروخت کرتا ہے۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ الله کا بندہ جب پورے سال کچھ نہیں کرتا تو رمضان میں عبادت کرلیا کرے لیکن اسی ایک مہینے میں اسے پیسے کمانا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ اسے اس مہینے میں کام کی اتنی فکر کیسے آجاتی ہے؟‘‘
مدنپورہ کے گوشت بازار میں گوشت کی دکان پر جانا ہوا۔ یہاں دو جوان اپنے باپ دادا کا گوشت کا کاروبار سنبھالے ہوئے ہیں ان میں سے ایک بھائی نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ لوگ رمضان سے پہلے ہی گوشت خرید کر رکھ لیتے ہیں تاکہ رمضان میں بھاگ دوڑ نہ کرنا پڑے اس لئے رمضان کے ابتدائی چند دنوں میں کاروبار سست رہتا ہے۔ چند روز گزر جانے پر لوگ جب روزے کے عادی ہوجاتے ہیں تب پھر آہستہ آہستہ دوبارہ معاملہ معمول پر آتا ہے۔ باتوں کا سلسلہ جاری تھا، دوران گفتگو کہنے لگا ’’بھائی آج بھی ایسے نیک لوگ ہیں کہ تعجب ہوتا ہے۔ ہمارے ایک گاہک ہیں وہ پورے رمضان گوشت لینے نہیں آتے ایک مرتبہ میں نے ان سے پوچھ لیا کہ رمضان میں کیوں نہیں آتے تو انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر میں پورے رمضان گھر کے تمام افراد صرف کھچڑی کھاتے ہیں۔ ‘‘ اس نے مزید بتایا کہ ان کے گھر والے پورے رمضان کھانے پینے پر توجہ نہیں دیتے، صرف کھچڑی کھاتے ہیں اس طرح گھر کی خواتین کو بھی کھانا پکانے اور برتن وغیرہ دھونے جیسے کام سے چھٹی مل جاتی ہے اور سب عبادت پر توجہ دیتے ہیں۔
بازاروں میں ایک تبدیلی یہ نظر آرہی ہے کہ پہلے کچھ لوگ اپنے معمول کا پیشہ چھوڑ کر رمضان میں بھجیا، فالودہ یا دیگر اشیاء فروخت کرنے لگتے تھے خواہ اس میں مالی نقصان ہی کیوں نہ ہو، تاہم اب یہ رجحان نظر نہیں آتا۔