Inquilab Logo

ان چار دنوں میں اللہ مہینہ بھر کی روزی دے دیتا ہے

Updated: April 09, 2024, 1:04 PM IST | Ehsan-ul-Haq | Lucknow

جی ہاں، یہ بدھ بازار ہےجہاں زیر آسمان سب بِک جاتا ہے۔ نشاط گنج سے مہا نگر تک پھیلے اس بازار میں دور دراز سے لوگ خریداری کیلئے آتے ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

جی ہاں، یہ بدھ بازار ہےجہاں زیر آسمان سب بِک جاتا ہے۔ نشاط گنج سے مہا نگر تک پھیلے اس بازار میں دور دراز سے لوگ خریداری کیلئے آتے ہیں۔ رمضان اور عید، ہولی اور دیوالی کے موقع پر یہ بازار خریداروں  کیلئے خاصی کشش رکھتا ہے۔ راجدھانی لکھنؤ کی مصروف ترین سڑک پر لگنے والا یہ بازار بہت پرانا ہے اور بدھ ہ کو لگتا ہے۔ اس روز خریداری مقصد نہ ہو تو لوگ بھو‘لے سے بھی ادھر کا رُخ نہیں  کرتے کیونکہ سڑک پر پھیلی دُکانوں  کے درمیان کار یا بائک سے گزرنا مشکل ہوتا ہے۔ کورونا کے ایام میں ایک تاجر تنظیم کے کسی عہدیدار کی موت پر ہی یہ بازار بدھ کو بند ہوا تھا۔ ٹریفک میں رخنہ کے سبب انتظامیہ کی سطح پر کئی بار اس بازار کو مستقل طور پر بند کرنے کی کوشش بھی ہوئی لیکن کامیاب نہیں ہو سکی۔ یہی اس کی مقبولیت کا سب سے بڑاثبوت ہے۔ 
 یہاں تمام گھریلو اشیاء سستی اور اچھی مل جاتی ہیں۔ ہر طرح کے لوگ خواہ غریب ہوں یا کھاتے پیتے گھرانے کے، اس بازار سے استفادہ کرتے ہیں۔ مہنگائی کے اِس دور میں ہر کوئی سستے اور معیاری کپڑوں اور لوازمات کی تلاش میں رہتاہے اور یہ بازار اس ضرورت کو پورا کرنے میں  معاون ہے۔ یہاں چھوٹی سوئی سے لے کر گھر کے فرنیچر تک ہر چیز اپنے بجٹ میں خریدی جاسکتی ہے۔ 
 بدھ بازار ہمارے دفتر کے راستے ہی میں  پڑتا ہے۔ گزشتہ بدھ کو جب ہمارا اس راستے سے گزہوا تو ہم نےدیکھا… دوپہر کا وقت تھا…دکانیں سج رہی تھیں … دھوپ کی پروا کئے بغیر دور دراز سے خریداربھی پہنچ رہے تھے۔ رمضان کی مناسبت سے دکانیں کُرتا، ٹوپی، تسبیح وغیرہ سے سجی تھیں … میوہ جات … کھجوریں اور سویوں کی دکانیں پہلے کی بہ نسبت زیادہ دکھائی دیں۔ ابھی بازار شروع ہوا تھا گویا لوگ حسب عادت ٹہل ٹہل کر سستے کی تلاش میں دکانوں پر مول بھائو کررہے تھے۔ آگے بڑھ کر دیکھا تو لہسن، پیاز، کھیرا اور ککڑی کے ساتھ ٹھیلوں پر تربوز بھی سجے تھے۔ معلوم ہوا کہ آس پاس کے تاجر براہ راست اس بازار میں فروخت کیلئے مذکورہ اشیاء لاتے ہیں جس سے ان کی قیمتیں کم ہوتی ہیں اور لوگ یہاں سے زیادہ سے زیادہ خرید کر لے جاتےہیں، کچھ تو ہفتے بھر کا حساب بنا لیتے ہیں۔ 
 ذرا آگے بڑھنے پر دیکھا ایک چچا میاں سڑک کے کنارے درخت کے سائے میں کھڑے ٹھیلے پر کپڑوں کا تھان سجائے ہوئے تھے…خواتین سوٹ کے کپڑے دیکھ رہی تھیں …آگے چوڑیوں کی دکانیں سجی تھیں … جہاں کپڑوں کی مناسبت سے چوڑیوں کی میچنگ کی جارہی تھی۔ ہم کارمل گرلس کالج کے پاس سے بادشاہ نگر کی طرف بڑھ رہے تھے کہ ہمیں دفتر پہنچنا تھا۔ سڑک کی دونوں جانب خوبصورت صوفے، کرسیاں اور تخت کی قطاریں سجی تھیں۔ ۔ ۔ بادشاہ نگر چوراہا کراس کرکے اب ہم میٹرو اسٹیشن کے نیچے سے نشاط گنج فلائی اوور کی طرف بڑھ رہے تھے اور یہاں کھڑے ای رکشے والے بدھ بازار کیلئے سواریاں بیٹھا رہے تھے۔ 
 رات میں دفتر سے واپسی کے وقت دریائے گومتی کے پُل سے گزر ہوا۔ یہاں داہنے طرف مسجد چاند واقع ہے جو واقعی چاند کی طرح روشنی بکھیر رہی تھی۔ مختلف قسم کی روشنیا ں جب پانی میں پڑتی تھیں تو پانی سرخ اور سنہرے رنگ سے چمک اُٹھتا تھا۔ دریا کے پُل کے اُس پار نشاط گنج کی پہلی گلی میں سوئیوں کی دکانیں سجی ہوئی تھیں۔ رات دس بجے بعد بھی خریداروں کی بھیڑ تھی۔ ریلوے کراسنگ سے پہلے پُل کے نیچے کپڑوں کے بازار میں بھی خاصی چہل پہل تھی۔ ریلوے کراسنگ آگے کرامت مارکیٹ ہے۔ اس کے باہر رومال اور ٹوپی فروخت کرنے والوں کے ساتھ یہاں مراد آبادی بریانی کے اسٹال بھی سجے تھے۔ آگے گول چوراہا کراس کرکے ہم ایک بار پھر بدھ بازار پہنچ گئے تھے۔  اب یہاں دکانیں سمٹنے کو تھیں لیکن ابھی بھی خریدار پہنچ رہے تھے چنانچہ دکاندار چاہ کر بھی دکان بڑھا نہیں پارہے تھے۔ خریدار اس موقع کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ آخری اوقات میں دکاندار سے خصوصی رعایت میں ضروری اشیاء خرید رہے تھے … آگے بڑھ کر دیکھا تو عید سے قبل گھر کی تزئین و آرائش کا سامان خریدا جا رہا تھا۔ خوبصورت مصنوعی گلدستے لوگ پسند کررہے تھے۔ فرش پر بچھانے کیلئے قالین بھی خریدی جارہی تھی۔ وہیں کارنر پر قاسم چچا جو اپنی دکان تقریباً سمیٹ چکے تھے سے علیک سلیک ہوئی۔ اُن کی دکان بھی صرف اسی بازار میں لگتی ہے۔ کہنے لگے: ’’ مہینے میں صرف چار دن ہمارا کام چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس چار دن میں ہی مہینے بھر کی روزی دے دیتا ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر تھوڑا توقف کیا، پھر کہنے لگے: ’’ماہ رمضان میں تو اُس کی خاص عنایت ہوتی ہے، اس مہینے میں اللہ تعالیٰ نے برکت ہی برکت رکھی ہے، عبادت و ریاضت کے ساتھ لوگ دل کھول کر خرچ کرتے ہیں، اس بار رمضان میں ہی ہولی تھی تو خریداری بھی خوب ہوئی۔ دیوالی اور دسہرا میں بھی یہاں خوب خریداری ہوتی ہے۔ اللہ سے یہی دعا ہے کہ عید جمعرات کو ہوتاکہ رمضان کے آخری بدھ کو ایک موقع اور مل جائے…‘‘  یہ کہتے ہوئے چچا سان سمیٹ کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے اور ہم بھی، یہ سوچتے ہوئے کلاسک چوراہے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہو گئے کہ بے شک، اللہ نے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے، چاند ایک دن آگے پیچھے ہونے میں بھی رزق چھپا ہے۔ سچ ہے کہ اللہ کا نظام اللہ ہی جانتا ہے، وہ کن کن لوگوں کو کیسے کیسے روزی دیتا ہے، بندہ نہیں سمجھ سکتا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK