Inquilab Logo

خود بھی چلیں، دوسروں کو بھی چلنے کا موقع دیں…

Updated: March 19, 2024, 12:20 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

عروس البلاد کےرمضان المبارک کا ابراہیم محمد مرچنٹ روڈ، مینارہ مسجد سے گہراتعلق ہے۔ ممبئی کےرمضان کی رونقوں اور چہل پہل پر ہونے والی گفتگو کا آغاز ہی اس علاقہ کے افطار سے سحری تک کی مجموعی سرگرمیوں پر ہوتا ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

عروس البلاد کےرمضان المبارک کا ابراہیم محمد مرچنٹ روڈ، مینارہ مسجد سے گہراتعلق ہے۔ ممبئی کےرمضان کی رونقوں اور چہل پہل پر ہونے والی گفتگو کا آغاز ہی اس علاقہ کے افطار سے سحری تک کی مجموعی سرگرمیوں پر ہوتا ہے۔ یہاں افطار سے سحری تک چلنے والی دکانیں، ہوٹلیں، اسٹال اور ٹھیلے انواع واقسام کے لذتِ کام ودہن کی اشیاء سے سجےہوتےہیں۔ ان سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ کافی تعداد میں برادران وطن بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ 
عنقریب ہونےوالے پارلیمانی الیکشن کے پیش نظر امسال یہاں کی رونقوں پرسیاسی رنگ بھی چڑھ گیا ہے حالانکہ شہری انتظامیہ (برہن ممبئی مہانگر پالیکا) نے رمضان کی مناسبت سے جے جے جنکشن سے کرافورڈ مارکیٹ تک حضرت مخدوم شاہ مہائمی فلائی اوور کے نیچے والے حصے کوخوبصورت اوردلکش قمقموں کی لمبی لڑیوں سے سجایا اور پورے علاقے کو دلہن جیسا بنا دیاہے لیکن اس سجاوٹ کا دعویٰ متعدد سیاسی پارٹیوں کے لیڈران بھی کررہےہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق ان دنوں مینارہ مسجدکےعلاقےمیں سیاسی لیڈروں کا گشت بڑھ گیا ہے۔ مہاراشٹراسمبلی کے اسپیکر راہل نارویکر اور مقامی رکن اسمبلی امین پٹیل کےعلاوہ جمعہ کو مقامی رکن پارلیمان اروند ساونت پہلی مرتبہ رمضان المبارک میں مقامی سرگرم سماجی کارکنوں کی دعوت پر یہاں پہنچے۔ انہوں نےیہاں کے نوجوانوں سے مقامی مسائل پر گفتگوکی اور مسائل کو حل کرنےکاوعدہ کیا۔ 
 رمضان میں مینارہ مسجد علاقہ کی سرگرمیوں کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہےکہ کسی دور میں یہاں کےمیمن واڑہ محلے میں شہر کے متمول گھرانےکے علاوہ بڑے بڑے مسلم تاجروں، صنعتکاروں، سماجی اور سیاسی رضاکاروں کے ساتھ خلیجی ممالک کے سفارت کاروں کی دیر رات تک محفل سجا کرتی تھی۔ یہ محفل ’فیمس گروپ‘ سے موسوم تھی۔ ا س طرح کے لوگ تراویح کے بعد آتے اور سحری کرکے رخصت ہوتے تھے۔ وقت کے ساتھ یہ روایت بدل گئی ہے۔ اب اس طرح کی بیٹھک نہیں ہوتی۔ اسی طرح رمضان میں خریداری کیلئے آنےوالوں کی افطاری کا میمن واڑہ میں بندوبست کیاجاتاتھالیکن اب وہ سلسلہ بھی ختم کردیاگیاہے۔ کھڑک کی رہنے والی ۵۰؍ سالہ سعیدہ قریشی کےمطابق انہوں نے کسی زمانےمیں دورانِ خریداری کئی مرتبہ یہاں افطار کیا تھا۔ 
  جمعہ کی شب تراویح کےبعد پُررونق ابراہیم محمدمرچنٹ روڈ کا منظر بڑا دلکش تھا۔ آنےوالوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ سلیمان عثمان مٹھائی والا، ماڈرن سویٹس، نورانی ملک سینٹر، زم زم سویٹس، چائنیز اینڈ گرلز، ماشاءاللہ، ہندوستان اور جنتا ریسٹورنٹ، بڑے میاں اور اس طرح کی سبھی دکانوں اور ہوٹلوں پر گاہکوں کی بھیڑ اُمڈ آئی تھی۔ گاہکوں میں مسلمان کم برادران وطن زیادہ دکھائی دے رہے تھے جن میں مراٹھا، گجراتی، پارسی اور کرسچین کے علاوہ ایک دو انگریز فیملیز بھی نظر آئیں۔ حالانکہ امسال پولیس اور شہری انتظامیہ کی ہدایت پر پوری سڑک کے بجائے محدود جگہ تک دکانیں لگائی گئی ہیں۔ اس کےباوجود لوگوں کے بیٹھنے اور لذت کام و دہن سے محظوظ ہونے کاانتظام ہے۔ 
 ایسانہیں کہ یہاں صرف متمول افراد کی بھیڑہوتی ہے۔ یہاں کےمجمع سے اُمیدلگائے سیکڑوں گداگربھی سحری تک قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ دونوں پاؤں سے معذور، بیساکھیوں کی مدد سےچل رہے ۷۰؍سالہ ادریس خان کو دیکھ کر گمان گزرا کہ وہ بھی گداگر ہیں لیکن ان سے بات چیت کرنے پر پتہ چلا کہ وہ بھیک مانگنےکےسخت خلاف ہیں۔ ۱۹۷۲ءمیں یوپی سے ممبئی آئے تھے۔ لیکن انہوں نے اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بنایا، وہ دن بھراس علاقہ میں پلاسٹک اور لوہا لکڑ چُن کر اپنی روزی کاسامان کرلیتےہیں۔ رات کو ۱۱؍ بجے تک کام کرکے وہ اپنے ٹھکانے کی طرف آرام کرنے لوٹ رہےتھے۔ ادریس خان کی اس خودداری اور محنت کرکے روزی کمانےکی تگ و دو کو سلام کرکے ہم آگے بڑھ گئے۔ سلیمان عثمان مٹھائی والا کی دکان پر موجود چاندمحمدنے بتایاکہ ۱۹۳۶ء میں ہماری دکان شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ۸۸؍ سال سے ہمارے مالپوہ اور فیرنی کی کوالیٹی میں کوئی فرق نہیں آیاہے۔ مالپوہ، فیرنی اور افلاطون کو ممبئی میں ہم نے متعارف کرایا ہے۔ اب بھی رمضان المبارک میں لوگ لائن لگا کر مالپوہ خریدتے ہیں۔ ابھی ان سے بات چیت ہو ہی رہی تھی کہ ایک بزرگ (محمد فاروق قریشی عرف ڈاگا) مائیکروفو ن پر بڑی دلکش گزارشیں کررہے تھے: ’’خود بھی چلیں، دوسروں کو بھی چلنے کا موقع دیں، موبائل فون تمہارے دل کا ٹکڑا ہے، اس کی حفاظت کریں، پرس تمہاری ضرورتوں کو پورا کرتاہے اس کا خیال رکھیں ‘‘۔ اس ماحول میں بھی اُن کی صدا گونج رہی تھی۔ اس نمائندہ نے انہیں روکا اور گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ وہ یہ گزارشات برسوں سے کر رہے ہیں تاکہ بھیڑ بھاڑ میں لوگوں کا کوئی نقصان نہ ہوجائے۔ ان کی ادا بھی نرالی ہے۔ وہ اپنی اس خدمت کیلئے کسی سےکوئی تقاضا نہیں کرتے۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK