Inquilab Logo Happiest Places to Work

رمضان ڈائری: مالیگاؤں، خواتین کی باجماعت نمازِ تراویح اور شہر کی حافظات

Updated: March 20, 2025, 12:03 PM IST | Raeesa Munawwar | Mumbai

چونکہ وقت کم تھا اس لئے سوچا کہ دن میں ہی گاندھی مارکیٹ کا چکر لگا لیا جائے۔ یوں تو اس مارکیٹ کا نام سونیا گاندھی مارکیٹ ہے مگر عرف عام میں گاندھی مارکیٹ کہلاتا ہے جہاں کپڑوں کا وہ خزانہ ہے جو شاید ہی کہیں اور ملے۔

A half-hour children`s "Ramadan Bazaar" in Malegaon. Photo: INN.
مالیگاؤں میں آدھ گھنٹے والا بچوں کا ’’رمضانی بازار‘‘۔ تصویر: آئی این این۔

رمضان المبارک کے پندرہ دن گزر چکے ہیں۔ مالیگاؤں میں رمضان کا الگ مزاج بنا ہوا ہے تاہم اب پہلے روزے کی طرح دن میں سناٹا نہیں ہے۔ اس کی وجہ شاید یوم عید کا قریب آنا ہے۔ اب رمضانی اشیاء کے بجائے عید سے متعلق اشیاء کی خریداری جاری ہے چنانچہ دن میں بھی خرید و فروخت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ آرائش و زیبائش کی اشیاء کے لئے مشہور انجمن چوک میں اب دن میں بھی بھیڑ ہے۔ رات کی تو بات ہی الگ ہوتی ہے جب پیر رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ ایسے میں موٹرگاڑیوں کا داخلہ بھی ممنوع ہوجاتا ہے۔ 
چونکہ وقت کم تھا اس لئے سوچا کہ دن میں ہی گاندھی مارکیٹ کا چکر لگا لیا جائے۔ یوں تو اس مارکیٹ کا نام سونیا گاندھی مارکیٹ ہے مگر عرف عام میں گاندھی مارکیٹ کہلاتا ہے جہاں کپڑوں کا وہ خزانہ ہے جو شاید ہی کہیں اور ملے۔ لاٹ اور سیل میں کم داموں میں ہر قسم کے کپڑے یہاں دستیاب ہیں خواہ وہ ملبوسات کیلئے ہوں، چادر کیلئے یا پردے کیلئے۔ یہاں عموماً شام میں بے پناہ بھیڑ ہوتی ہے البتہ رمضان میں شام کے وقت تھوڑی دیر کیلئے سناٹا چھا جاتا ہے کیونکہ خواتین گھروں میں افطار کی تیاری میں مصروف ہوجاتی ہیں۔ 
سنیچر کی شام میں ایک جگہ سے انتقال کی خبر آئی۔ اتوار کو تعزیت کیلئے جاتے وقت راستے میں آمنہ آپا مل گئیں۔ ان سے کئی سال بعد ملاقات ہوئی تھی۔ محلے ہی میں ایک گھر میں خواتین کیلئے قرآن پاک کا دَور ہوتا ہے، اس میں شرکت کیلئے جارہی تھیں۔ آمنہ آپا سبکدوش معلمہ ہیں، اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے برسوں تک رات میں بچیوں کو ناظرہ اور قرآن پڑھایا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یہ خدمت وہ اپنی والدہ مرحومہ زبیدہ خالہ کے ساتھ انجام دیتی تھیں۔ بات نکلی ہے تو جان لیجئے کہ شہر مالیگاؤں میں جہاں لڑکوں کے لئے دینی مدارس کا خاطرخواہ انتظام ہے وہیں ہر محلے میں لڑکیوں کے لئے بھی بہت اچھا نظم ہے۔ مدرسہ جامعۃ الصالحات تو عالمی سطح پر مشہور ہے ہی، محلوں میں قائم مدارس کی بھی خاطرخواہ تعداد ہے جہاں معلمات جس اخلاص کے ساتھ پڑھاتی ہیں وہ جذبہ شاید ہی کہیں اور ملے۔ آمنہ آپا کیا ملیں، کتنی ہی معلمات یاد آگئیں جن میں اختر خالہ، زبیدہ خالہ، زیتون خالہ اور نعیم النساء خالہ شامل ہیں۔ خدا کے فضل سے نعیم النساء خالہ ابھی حیات ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ تادیر قائم رکھے۔ 
راستے میں کئی جگہ پیشہ ور گداگر نظر آئے جو باقاعدہ مائیک اور اسپیکر کے ساتھ چلتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی برقع پوش خواتین بھی تھیں جو گھروں کے دروازے پر دستک دے رہی تھیں۔ زکوٰۃ کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے نادار بندوں کو کیسے کیسے نوازا ہے یہ بیان کرنا مشکل ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ انفرادی طور پر ان لوگوں کو جانے بوجھے بغیر محض ’رحم‘ کھا کر کچھ دے دینے سے انسانیت تو کام کرجاتی ہے لیکن شاید اصل مستحق تک زکوٰۃ نہ پہنچے۔ اسی لئے اجتماعی نظم ِ زکوٰۃ میں شرکت کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اسی دوران انگنو سیٹھ کی مسجد (موتی پورہ) کے بیت المال کمیٹی کے بورڈ پر نظر پڑی۔ ایک پمفلٹ بھی نظر سے گزرا جس میں زکوٰۃ کی اپیل کی گئی ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ اس بیت المال اور اپنے اپنے علاقے کے ایسے اداروں کو زکوٰۃ دی جائے تاکہ اصل مستحقین تک پہنچے۔ 
عشاء کے بعد حافظہ سعودہ آپا کا فون آیا تھا۔ وہ جاننا چاہ رہی تھیں کہ میں مالیگاؤں میں ہوں یا نہیں۔ چونکہ وقت بہت کم تھا، اس لئے چلتے چلتے ہی ان سے ملاقات ہوسکی۔ اب اکثر محلوں میں کسی ایک گھر میں خواتین کیلئے تراویح کا نظم کرلیا جاتا ہے جہاں حافظات کلام پاک سناتی ہیں۔ اتوار کی شب محلے میں مولانا ادریس صاحب کے مکان میں خواتین کی تراویح میں حفظ قرآن مکمل ہوا۔ کئی جگہوں پر ۲۱؍ اور ۲۶؍ رمضان المبارک کو ختم قرآن اور دعا ہوگی۔ 
برکتوں ، رحمتوں اور مغفرتوں کے اس ماہ میں کچھ ایسی سرگرمیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جو عام دنوں میں نہیں ہوتیں۔ یہ کسی ایک محلے کی بات نہیں ہے، بلکہ مالیگاؤں کے تقریباً ہر محلے میں ، جہاں کہیں کشادہ جگہ یا چوک ہوتا ہے، مغرب کی اذان سے قبل بچے اپنی جگہ ’’چھیک‘‘ (قبضہ) لیتے ہیں۔ چونکہ افطار گھر میں کرنا ہے اسلئے اپنی جگہ کو کسی اور کے قبضے سے بچانے کیلئے وہ چھوٹی سی چٹائی، یا چادر یا جوٹ کا تھیلا (گونی) بچھا دیتے ہیں۔ اِدھر مغرب کی نماز ہوئی اور اُدھر بچوں کی دکانیں سج گئیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ہر سال یہ بچے نئے نئے ’’آئیٹم‘‘ فروخت کرتے ہیں۔ اتوار کے دن ان بچوں کی دکانوں میں پان مسالہ، بھیل، آلو، چورن، شربت، حلوہ اور ایسی ہی کئی چیزیں تھیں۔ سب سے مزے کی دکان تو ’نوٹ کے بدلے‘ نوٹ والی ہے جہاں ایک روپے دے کر ۱۰۰؍ روپے کا نوٹ خریدا جاتا ہے۔ ’’رمضانی بازار‘‘ کی ہر دکان پر بھیڑ ہوتی ہے جو صرف آدھے گھنٹے میں اٹھ جاتی ہے۔ پھر بچے اپنے اسی ’’مارکیٹ‘‘ میں معمول کے مطابق کھیل کود اور غل مچانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ 
رمضان کا یہ بھی کیا فلسفہ ہے۔ شوقیہ ہی سہی، بچے اس طرح تجارت کی طرف بہرحال قدم بڑھاتے ہیں جس کی اسلام میں تلقین کی گئی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK