Inquilab Logo

تو کیا شہر میں اب اتنی ہی اُردو بچی ہے؟

Updated: March 31, 2024, 4:53 PM IST | Nadir | Mumbai

تپتی دھوپ میں حلق خشک ہو رہا تھا، سامنے گاڑی پر رکھی تربوز کی قاش پیاس کی شدت میں اضافہ کر رہی تھی۔ لیکن ابھی تربوز صرف خریدا جا سکتا تھا، کھانے کیلئے گھنٹوں کا انتظار تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

 ممبرا، امرت نگر : ظہر بعد 
تپتی دھوپ میں حلق خشک ہو رہا تھا، سامنے گاڑی پر رکھی تربوز کی قاش پیاس کی شدت میں اضافہ کر رہی تھی۔ لیکن ابھی تربوز صرف خریدا جا سکتا تھا، کھانے کیلئے گھنٹوں کا انتظار تھا۔ ہم نے دام پوچھے، اس نے دام بتائے لیکن ہمیں یقین نہیں آیا کہ اس نے وہی کہا جو ہم نے سنا ’۳۰؍ روپے کلو ‘ ہم نے پھر پوچھا، اس نے جواب دہرایا، ہم نے ایک ایک لفظ بغور سنا وہ ۳۰؍ روپے کلو ہی کہہ رہا تھا۔ ’’ ہم نے پوچھا ’’ تربوز کلو سے کب سے ملنے لگا؟ ‘‘ اس نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا دیگر گاہکوں میں لگ گیا۔ اسے کچھ فرصت ہوئی تو ہم نے پھر کریدا کہ ’’ یہ تربوز کلو سے کیوں بیچ رہے ہو؟‘‘کہنے لگا’’ کیا کریں مہنگا آ رہا ہے۔ پہلے ۸؍ روپے میں لاتے تھے اور یہاں ۲۵؍ میں بیچتے تھے، اب ۱۸؍ روپے میں لا کر ۲۵؍ میں بیچنا پڑ رہا ہے، تو بچے گا کیا؟ سب تو آنے جانے ہی میں نکل جائے گا۔ ‘‘ ہم نے اپنی زندگی میں پہلی بار تربوز کو مرغی کی طرح کلو کے دام فروخت ہوتے دیکھا۔ یہ تولا تو جائے گا لیکن کاٹا نہیں جائے گا۔ جتنا وزن ہے اتنا پورا خریدنا ہوگا۔ حیرانی اس بات کی تھی کہ لوگ خرید بھی رہے تھے۔ ظہیرالدین اپنے باکڑے پر بڑی پھرتی سے انناس اور پپیتے کاٹ کاٹ کر بکسوں میں بھر رہا تھا جنہیں وہ ۵۰؍ روپے فی بکسا بیچنے والا تھا۔ یہ کبھی نوجوان ہوا کرتا تھا اور ہمارا شمار لڑکوں میں ہوتا تھا۔ اس زمانےمیں ہم نے ظہیر سے پھلوں سے زیادہ چھلکے لئے تھے۔ دراصل ہم نے ایک بکری کا بچہ پالا تھا۔ اسے کھلانے کی غرض سےایک بار ظہیر سے تربوز کے چھلکے مانگے تو اس نے چھلکے دیتے ہوئے کہا کل سے صبح ایک تھیلا رکھ جانا اور شام کو لے جانا۔ خوب بھر کر بکرے کو کھلانا۔ دوسرے دن سے ہم ایسا ہی کرنے لگے۔ ہم سے زیادہ ہمارا بکراظہیر کی دکان کو پہچانتا تھا۔ اب تو ظہیر کے لڑکے بڑے ہو گئے ہیں اور باپ کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ ایک انناس چھیلتا جا رہا تھا تو دوسرا گاہکوں سے پیسے لے رہا تھا۔ ہم نے پوچھا ’’ یہ لوگ اسکول نہیں جاتے؟‘‘ اس نے بتایا ’’جاتے ہیں رمضان میں مدد کرنے یہاں آ جاتے ہیں۔ ‘‘
 ممبرا، دارالفلاح مسجد: مغرب بعد 
  دھوپ کی جگہ اب قمقموں کی روشنی تھی، پھلوں اور ترکاریوں کی جگہ کپڑے اور جوتے فروخت ہو رہے تھے۔ ممبرا پولیس کا واچ ٹاور جو مغرب کی اذان تک خاموش تھا، اب بولنے لگا تھا۔ اس پر کھڑے رضاکار مائیک ہاتھ میں لئے خریداروں اور راہ گیروں کی رہنمائی کر رہے تھے۔ ’’ رکشا والے بھائی، پسنجر سے رکشا کے اندر ہی پیسے لے لیں، اس سے آسانی ہوگی، او لا والے بھائی اگر آپ کا پک اپ ہے تو تھوڑ آگے جا کر پک کریں۔ یہاں ٹریفک جام نہ کریں۔ ‘‘ پولیس اہلکار بڑے آرام سے ایک طرف بیٹھے ہیں۔ سارا کام سلطانہ ویلفیئر ٹرسٹ کے رضاکاروں نے سنبھال رکھا ہے۔ انہوں نے آسمانی رنگ کا جیکٹ پہن رکھا ہے جس پر ایم ایس پی لکھا ہے۔ ایم ایس پی کے معنی وہ نہیں ہیں جو کسانوں کا مطالبہ ہے۔ یہاں ایم ایس پی سے مراد ہے مرضیہ شانو پٹھان جو مقامی کارپوریٹر کی صاحبزادی ہیں اور خود سماجی کارکن ہیں۔ رضاکاروں میں خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے برقع پہن رکھا ہے۔ خواتین کو غالباً اسلئے تعینات کیا گیا ہے کہ رمضان کی خریداری کیلئے مارکیٹ میں خواتین کی کثرت ہوتی ہے۔ 
 ہم بھیڑ سے ہٹ کر ذرا قسمت (کالونی) کی گلی میں آئے تو ہماری نظر ایک کھمبے پر لٹکے بورڈ پر پڑی جو کسی انگریزی اسکول کا اشتہار تھا۔ اس پر لکھا تھا ’رمضان اسپیشل آفر‘ اگر آپ رمضان میں داخلہ کروائیں تو داخلہ فیس ادا نہیں کرنی ہوگی۔ ’آفر اور اسکیم‘ تو کاروبار میں چلائے جاتے ہیں۔ تعلیم کا کاروبار سے کیا تعلق اور ’ آفر‘ کا رمضان سے کیا لینا دینا؟ 
 ممبر ا: یاد گار ہوٹل : تراویح بعد 
 اس سال سڑک کنارے دکانیں کچھ کم ہیں، ٹریفک بھی جام نہیں ہے۔ البتہ کئی شوروم نما دکانیں کھلی ہوئی ہیں جس سے رونق کچھ بڑھ گئی۔ ان سب کے باوجود کوئی کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ یادگار ہوٹل کے باہر ملائی والی چائے کے اسٹال پر دوستوں نے یاد دلایا کہ امرت نگر اور آس پاس چندے کیلئے لگنے والے منڈپ غائب ہیں۔ ان کے مائیک سے اپیل اور اپیل کے درمیان شعر و شاعری ندارد ہے۔ کوسہ سے لے کر ممبرا اسٹیشن تک کوئی ہورڈنگ اردو میں نہیں ہے۔ رمضان مبارک کے بورڈ بھی ہندی میں ہیں۔ بلکہ یہ جو رضاکار مائیک پر لوگوں کی رہنمائی کر رہے ہیں، وہ بھی وقت کو سمئے، اور مسئلے کو سمسیا کہہ رہے ہیں البتہ بیچ بیچ میں ’برائے مہربانی ‘ ضرور بولتے ہیں۔ تو کیا شہر میں اب اتنی ہی اردو بچی ہے؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK