Inquilab Logo Happiest Places to Work

سورۂ فاتحہ قرآن کریم کا خلاصہ ہے جبکہ سورۂ بقرہ میں ایمان اور معاملات پر تفصیلی ہدایات ہیں

Updated: March 12, 2024, 11:34 AM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

یہ ہے سورۂ فاتحہ کا خلاصہ، مفسرین نے اسے پورے قرآن کریم کا خلاصہ قرار دیا ہے۔ اس سورہ کے تین بنیادی مضامین ہیں، ایک اللہ تعالی کی ربوبیت، دوسرے اللہ تعالیٰ کا لائق عبادت ہونا، تیسرے طلب ہدایت۔ اس طلب کا جواب قرآن کریم سے دیا گیا ہے، یعنی جو ہدایت تم مانگ رہے ہو وہ قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے۔ 

The main worship and feature of Ramadan is Qiyam Al-Ileel. Photo: INN
رمضان المبارک کی اہم عبادت اور خصوصیت قیام الیل ہے۔ تصویر : آئی این این

(پہلی تراویح: سورۂ فَاتِحَہ سے سَیَقُوْلُ کے ربع تک)
 سورۂ فاتحہ ہر نماز کی تمام رکعات کا لازمی حصہ ہے، یہ مختصر سورہ جسے فاتحۃ الکتاب بھی کہتے ہیں تمام نمازوں میں پڑھی جاتی ہے۔ اس میں فرمایا گیا ہے کہ تمام تعریفیں جو؛ اب تک کی گئیں یا آئندہ کی جائیں گی سب اللہ کے لائق ہیں، کیوں کہ وہ مہربان ہے، وہی رحم والا ہے، وہی روزِ جزا کا مالک ہے، ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے مدد بھی مانگتے ہیں، اے اللہ!ہمیں سیدھا راستہ دکھا دے، جو راستہ ان لوگوں کا ہے جن پر تونے اپنا فضل وانعام فرمایا ہے، جن پر نہ تیرا غضب نازل ہوا اور نہ وہ لوگ گمراہ ہوئے۔ یہ ہے سورۂ فاتحہ کا خلاصہ، مفسرین نے اسے پورے قرآن کریم کا خلاصہ قرار دیا ہے۔ اس سورہ کے تین بنیادی مضامین ہیں، ایک اللہ تعالی کی ربوبیت، دوسرے اللہ تعالیٰ کا لائق عبادت ہونا، تیسرے طلب ہدایت۔ اس طلب کا جواب قرآن کریم سے دیا گیا ہے، یعنی جو ہدایت تم مانگ رہے ہو وہ قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے۔ 
سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ بقرہ ہے، اس کا آغاز ذٰلِکَ الْکِتَابُ سے ہوتا ہے، اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جس راہ ہدایت کے تم طلب گار ہو وہ یہی کتاب ہے۔ اس سورہ میں بڑے اہم مضامین بیان کئے گئے ہیں، پہلے ایمان کے بنیادی اصول، توحید، رسالت اور آخرت کا اجمالی ذکر ہے، آخر میں ان عقائد کا مفصل تذکرہ ہے، درمیان میں عبادات معاملات، معاشرت، اخلاق، اصلاح ظاہر و باطن کے متعلق تفصیلی ہدایات ہیں۔ 
سورہ کی ابتدا الٓمٓ سے کی گئی ہے، یہ حروف مقطعات ہیں، ان کے بارے میں اکثر مفسرین کی رائے یہی ہے کہ یہ ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، تاہم ان کا وجود بھی فوائد سے خالی نہیں ہے، ان کا پڑھنا باعث ثواب ہے ان کے پڑھنے سے فوائد وبرکات بھی حاصل ہوتے ہیں، اگرچہ ہمیں ان کا علم نہ ہو۔ 
 سورۂ بقرہ کا آغاز اس آیت سے کیا گیا ہے کہ اس کتاب میں کسی طرح کا کوئی شک نہیں ہے، یہ کتاب متقین کے لئے رہ نما ہے، اس کے بعد بتلایا گیا ہے کہ متقین کون ہیں اور ان کی کیا صفات ہیں، یہ وہ بندے ہیں جو غیب کی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو اللہ نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، یہ تین عبادتیں ہیں، ان میں سے ایک کا تعلق دل سے ہے، دوسری کا تعلق بدن سے ہے اور تیسری کاتعلق مال سے ہے۔ یہ تینوں عبادتیں اس آیت میں جمع کردی گئی ہیں۔ اس کے بعد ان کفار کا ذکر ہے جن کے لئے کفر کا فیصلہ ہوچکا ہے، وہ ایمان کی دولت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم کردئیے گئے ہیں جیسے ابوجہل، ابو لہب وغیرہ، ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے یعنی وہ حق بات کو نہیں سمجھتے اور اُن کے کانوں پر بھی مہر لگادی گئی ہے یعنی حق بات کو متوجہ ہوکر نہیں سنتے اوراُن کی آنکھوں کے سامنے پردہ ڈال دیا گیا ہے کہ انہیں حق کا راستہ نظر نہیں آتا۔ کفار کے بعد منافقین کا بیان ہے۔ آنے والی تیرہ آیتوں میں انہی کا ذکر ہے، وہ دل سے ایمان نہیں لائے، حالاں کہ محض زبان سے ایمان کا اظہار کردینا کافی نہیں ہے، بلکہ دل سے ماننا بھی ضروری ہے، یہ لوگ ایمان کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں، حالاں کہ ان کے دلوں میں نفاق ہے، اسلام سے نفرت ہے اور مسلمانوں سے حسد اور عناد ہے۔ یہ منافق زمین میں فساد برپا کرنے والے ہیں۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو جواب میں یہ کہتے ہیں کہ کیا ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں، حالاں کہ در حقیقت بے وقوف منافق لوگ ہیں، اہل ایمان بے وقوف نہیں ہیں، یہ لوگ اہل ایمان کے ساتھ استہزاء سے پیش آتے ہیں، یہ محض اللہ کی طرف سے ڈھیل ہے کہ وہ اس سرکشی میں سر سے پیر تک غرق ہیں۔ منافقین نے بظاہر ایمان قبول کیا ہے اور دل میں کفر چھپا رکھا ہے، ان کی آخرت بھی خراب ہوئی اور یہ لوگ دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوئے۔ 
 آگے قرآن کریم نے منافقین کی اس بے راہ روی کو دو مثالوں کی روشنی میں واضح کیا ہے، پھر تمام انسانوں کو اللہ کی عبادت کا حکم دیتے ہوئے کفار سے کہا ہے کہ اگر تمہیں ہماری اس کتاب میں جو ہم نے نازل کی ہے ذرا بھی شک ہو تو اس جیسی کوئی ایک سورہ بنا کر لاؤ اور اس کام میں اپنے معبودان باطلہ سے یا عرب کے فصحاء وبلغاء سے مدد لے لو، اس کے باوجود اگر تم کوئی ایسی سورہ نہ بنا سکو اور یقینا نہیں بنا سکو گے تو اللہ سے ڈرو اور دوزخ کی آگ سے بچنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کے لئے جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر ہے۔ 
ایمان کی نعمت کا ذکر کرنے کے بعد قرآن کریم نے ایک اور بڑی نعمت کا ذکر کیا ہے، یہ نعمت تخلیق آدم علیہ السلام ہے، ان کی تخلیق کا قصہ پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیاہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ وہ زمین میں اپنا نائب مقرر کرنا چاہتا ہے اس پر فرشتوں نے عرض کیا کہ کیا آپ دنیا میں ایسی قوم پیدا کرنا چاہتے ہیں جو اس میں فساد برپا کرے گی اور خون بہائے گی اور ہم آپ کی تسبیح وتقدیس بیان کرتے رہتے ہیں، حضرت آد م علیہ السلام کی تخلیق، حضرت حواء علیہا السلام کی پیدائش، ان دونوں کو جنت کے ممنوعہ درخت تک نہ جانے کی ہدایت، شیطان کا حسد اور حضرت آدم اور حضرت حواء علیہما السلام کو اس درخت کے قریب جانے اور پھل کھانے کا مشورہ اور اس کے نتیجے میں ان دونوں کو اور ان کی آنے والی نسل کو بہشت سے زمین پر جاکر رہنے کاحکم یہ مکمل واقعہ یہاں مذکور ہے۔ 
اس کے بعد بنی اسرائیل کو بطور خاص خطاب کیا گیا ہے اور ان نعمتوں کا حوالہ دیا گیا ہے جو ان پر نسل در نسل نازل ہوتی رہی ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے پاس ہزاروں انبیاء ؑبھیجے گئے، تورات وغیرہ کتابیں نازل کی گئیں، فرعون سے نجات دے کر ان کو شام میں بسایا گیا، ان پر منّ وسَلویٰ نازل کیا گیا، ان کے لئے ایک پتھر سے بارہ چشمےنکالے گئے، مگرا ن کی سرکشی دیکھئے کہ وہ حق پر قائم نہ رہے، انہوں نے پیغمبروں کی اطاعت نہ کی بلکہ بعض پیغمبروں کو قتل تک کرڈالا، تورات کی آیتوں میں تحریف کی، اس کے نتیجے میں ان کے لئے دائمی اور ابدی ذلت لکھ دی گئی اور ان پر ایسے ایسے عذاب مسلط کئے گئے کہ جن کو سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ شنبے کا دن خاص عبادت کے لئے مقر ر ہے، اس دن مچھلی کا شکار مت کرنا، مگر انہوں نے حکم عدولی کی تو اللہ نے ان کی صورتیں مسخ کرکے ان کو بندر بنا دیا۔ یہودیوں کے بارے میں قرآن کریم کا دو ٹوک فیصلہ یہ ہے کہ ان کے دل پتھروں سے زیادہ سخت ہیں، بعض پتھروں سے بڑا نفع پہنچتا ہے مگر ان سے تو کسی طرح کوئی نفع ہی نہیں ہے اور نہ ان سے خیر کی کوئی امید ہے، انہوں نے مال ودولت کے لالچ میں توراۃ میں لفظی اور معنوی تحریف بھی کرڈالی۔ 
 لگ بھگ ۷۷؍آیات تک اس قوم کی بد اعمالیوں، بد عہدیوں اور ان پر نازل ہونے والے مختلف عذابوں کا عبرت ناک تذکرہ ہے، کیوں کہ بنی اسرائیل کے واقعات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر بھی آیا ہے اس لئے بنی اسرائیل کا بیان ختم کرکے اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اور ان کے ذریعے بنائے گئے کعبۃ اللہ کا بہ طور خاص ذکر کیا گیا ہے، سب سے پہلے تو یہ بیان کیا گیا کہ بیت اللہ مقام امن ہے اور ہر سال لوگ وہاں حج کے لئے جمع ہوتے ہیں، مقام ابراہیم کا ذکر بھی اسی آیت میں ہے، یہ وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانۂ کعبہ تعمیر کیا تھا اور وہ دعا بھی مذکور ہے جو بہ وقت بنائِ کعبہ انہوں نے کی تھی کہ اے اللہ اس جگہ کو شہر امن بنا، اس کے رہنے والوں کو میوے عطا کر اور ہماری اولاد میں ایک فرماں بردار جماعت پیدا فرمادے اور ان میں ایک رسول ان ہی میں کا بھیج دے تاکہ وہ انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے، تیری کتاب کی اور حکمت کی باتوں کی تعلیم دے اور ان کی اصلاح کرے۔ بلاشبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں قبول ہوئی۔ 
یہاں سے قرآن کریم کا دوسرا پارہ شروع ہوتا ہے، اس کا آغاز تحویل قبلہ کے معاملے سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد بتلایا کہ اے مسلمانو!جس طرح تمہارا قبلہ تمام قبلوں سے افضل ہے ایسے ہی ہم نے تم کو تمام امتوں سے افضل اور تمہارے پیغمبر کو تمام پیغمبروں سے کامل اور برگزیدہ بنایا ہے۔ اس کے بعد اہل ایمان کو کچھ نصیحتیں ہیں مثلاً یہ کہ وہ صبر اور نماز کا دامن تھامے رکھیں اللہ کی راہ میں شہید ہونے والے کو مردہ نہ کہیں، آزمائشوں سے نہ گھبرائیں بلکہ ایسے حالات میں إنا للّٰہ پڑھا کریں۔ اس کے بعد حج کا اور صفا ومروہ کا بیان ہے، زمین وآسمان، رات اور دن سمندروں میں چلنے والی کشتیاں، ہوائیں، بادل وغیرہ سب اللہ کے حکم کے تابع ہیں اور ان میں غور فکر کے لئے بہت کچھ ہے، آخری رکوع میں لوگوں کو حلال وپاکیزہ رزق کھانے کی، بُرے کاموں اور بے حیائی کے افعال سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے اور بتلایا گیا ہے کہ تمہارے لئے مردار، خون اور خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا جانور حرام ہے۔ 
دوسری تراویح: سَیَقُوْل کے ربع سے تِلْکَ الرُّسْلُ کے نصف تک
 دوسری تراویح کا آغاز تحویلِ قبلہ کے معاملے میں معترضین کے خیال کی تردید سے ہوتا ہے جو قبلہ رخ ہونے ہی کو نیکی سمجھتے تھے، فرمایا نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ بندہ اللہ پر، قیامت کے دن پر، ملائکہ پر آسمانی کتابوں پر اور تمام انبیاء پر ایمان لائے، اپنے مال سے محبت کے باوجود (علاوہ زکوٰۃ کے ) اسے رشتہ داروں، یتیموں، غریبوں، مسافروں، ضرورت مند سائلوں اور قید میں گرفتار مسلمانوں پر خرچ کرے، نماز پڑھے، زکوٰۃ دے، اپنا وعدہ پورا کرے، فقر وفاقہ، بیماری اور تنگی کی حالت میں صبر سے رہے۔ اس کے بعد شریعت کے کچھ اہم احکام شروع ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے قصاص کا حکم ہے۔ دوسرا حکم وصیت کے متعلق ہے کہ اگر تمہارے پاس مال ہو تو تم کو والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے لئے انصاف کے ساتھ وصیت کرنی چاہئے۔ یہ وصیت آیت ِ میراث سے پہلے فرض تھی، اب فرض تو نہیں رہی کیوں کہ آیت میراث میں ترکے کے ورثاء متعین ہوچکے ہیں، البتہ اگر کسی پر قرض وغیرہ ہو، یا کسی کے پاس امانتیں رکھی ہوئی ہوں تو مرنے سے پہلے وصیت لکھنا ضروری ہے۔ تیسرا حکم روزے کی فرضیت کا ہے۔ 
اس کے بعد اللہ تعالیٰ ماہِ رمضان المبارک کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ اس مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا ہے جو لوگوں کے لئے سراپا ہدایت ہے اور جس میں ہدایت پانے کی واضح دلیلیں موجود ہیں اور جو حق وباطل کے درمیان حد فاصل قائم کرنے والی ہے۔ اس کے بعد روزے کے کچھ احکام بیان کئے گئے ہیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ایک ہی آیت میں نزول قرآن اور روزے کی فرضیت کا ذکر کیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن اوررمضان میں گہری مناسبت ہے، اسی لئے اس مہینے میں تراویح کی نماز رکھی گئی ہے تاکہ قرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنے کا اور تلاوت سننے کا اہتمام ہو۔ 
آگے حج کا بیان ہے۔ لوگ، حضورِ پاکؐ سے چاند کے متعلق سوال کرتے تھے کہ یہ کیوں گھٹتا بڑھتا ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ چاند کا اس طرح نکلنا اس لئے ہے تاکہ لوگوں کو عبادات؛ نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور معاملات؛ عدت رضاعت وغیرہ میں ماہ و سال کی تعیین میں سہولت ہو، حج کے ایام بھی چاند کے گھٹنے بڑھنے ہی سے معلوم ہوتے ہیں۔ درمیان میں کچھ احکامِ جہاد کا اور اشہر حُرم کا ذکر ہوا ہے، پھر متعدد آیات میں حج کے احکام بیان کئے گئے ہیں۔ آخر میں فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، یعنی ظاہر وباطن اور عقیدہ وعمل ہر معاملے میں اسلام کی اتباع کرو۔ 
اس پارے کے آٹھویں رکوع سے پھر بنی اسرائیل کا ذکر ہے، اس سے پہلے یہ فرمادیا گیا تھا کہ اللہ رب العزت کے واضح اور صریح حکم کے بعد اس کی مخالفت کرنا عذاب کا باعث ہے۔ اسی کی تائید میں فرمایا کہ بنی اسرائیل ہی سے پوچھ لو کہ ہم نے ان کے اوپر کتنی کھلی اور واضح آیات نازل کیں مگر انہوں نے انحراف کیا تو مبتلائے عذاب ہوئے۔ اسی رکوع میں یہ بھی فرمایا گیا کہ حضرت آدم ؑ کے زمانے سے ایک ہی دین تھا اور سب لوگ اسی کی پیروی کرتے تھے، اس کے بعد لوگوں نے دین کے معاملے میں اختلاف شروع کردیا تب ہم نے صحیح دین بتلانے اور سمجھانے کے لئے انبیاء اور رُسل بھیجے۔ یہاں لوگوں کے ایک اور سوال کا ذکر بھی ہے کہ وہ آپؐ سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا چیز خرچ کریں، آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ تم خرچ کروگے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں، محتاجوں اور مسکینوں پر وہ سب خدا کے لئے ہے۔ اسی پارے میں آیت جہاد بھی ہے۔ 
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ اس سورہ میں متعدد احکام شریعت بیان کئے گئے ہیں۔ لوگوں نے حضور پاکؐ سے پوچھا تھا کہ شراب اور جوے کے بارے میں کیا حکم ہے، اللہ کی طرف سے حکم نازل ہوا کہ آپ ان کو بتلا دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں، مگر ان کا گناہ ان کے فائدوں سے بڑھ کر ہے۔ یتیموں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ یتیموں کے کام سنوارنا بہتر ہے۔ نکاح کے احکام اور حیض کے متعلق سوال کا ذکر ہے۔ 
قسموں کے سلسلے میں فرمایا کہ اللہ تمہاری بے ہودہ قسموں پر گرفت نہیں کرتا لیکن جو قسمیں تم دل کے ارادے سے کھاتے ہو ان پر تمہارا مواخذہ ضرور ہوگا۔ قسم کے ہی ضمن میں ایلاء کا بیان ہے، یعنی اگر کوئی شخص یہ قسم کھالے کہ میں چار مہینے تک اپنی بیوی کے پاس نہ جاؤں گا تو اگر وہ چار ماہ سے پہلے پہلے بیوی کے پاس چلا گیا تو قسم کا کفارہ دے گا اور اگر اس مدت کے اندر نہیں گیا تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس کے بعد مطلقہ عورتوں کی عدت کا ذکر ہے کہ وہ تین حیض تک انتظار کریں اور اگر حمل سے ہیں تو وضع حمل ہوجانے تک رکی رہیں۔ اس کے بعد طلاق اور خلع کا بیان ہے اس سورہ میں مدت رضاعت کا بھی ذکر ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو مکمل دو سال تک دودھ پلاسکتی ہیں۔ جن عورتوں کے شوہر فوت ہوجائیں وہ چار مہینے دس دن تک عدت پوری کریں گی۔ اس کے بعد کچھ مہر کے احکام ہیں اس پارے کے آخر میں طالوت بادشاہ کا قصہ بھی مذکور ہے۔ 
 تیسرے پارے کے آغاز میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان ہے۔ اسی میں آیۃ الکرسی بھی ہے جس کی بڑی فضیلت ہے۔ اس میں اللہ کی توحید، اس کا تقدس وجلال اور عظمت پوری وضاحت کے ساتھ مذکور ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا مکالمہ اور حضرت عزیر علیہ السلام کا عجیب وغریب واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اطمینان قلب کے لئے حق تعالیٰ سے یہ درخواست کی تھی کہ اے میرے رب مجھے یہ دکھلا دے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا۔ اس کا جواب اس طرح دیا گیا کہ تم چار پرندے پکڑو، پھر ان کے بدن کے مختلف اجزاء مختلف پہاڑیوں پر رکھ دو، پھر اپنی طرف بلاؤ وہ تمہاری طرف دوڑے چلے آئیں گے، اس طرح یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معجزہ بھی ہوا اور مردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت بھی سامنے آگئی۔ 
 اس ضمنی تذکرے کے بعد پھر انفاق فی سبیل اللہ کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ اسی سورہ میں سود کا بیان بھی ہے کہ اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ وخیرات کو بڑھاتا ہے، اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود باقی رہ گیا ہے اسے بھی چھوڑ دو۔ قرض کے لین دین کے احکام ایک طویل آیت میں مذکور ہیں کہ قرض کے معاملات گواہوں کی گواہی کے ساتھ لکھ لیا کرو۔ سورہ بقرہ بعض اہم ترین دعاؤں پر ختم ہوتی ہے۔ پھرآل عمران کا آغاز ہوتا ہے، اس میں پہلے اللہ کی حمد وثنا ہے، کچھ دعائیں ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اوربنی اسرائیل وغیرہ کا ذکر ہے۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK