انسان کو اپنی حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ وہ خون کے ایک لوتھڑے سے پیدا کیا گیا ہے، اس کے اندر بذات خود کوئی قابلیت نہیں تھی، یہ ہم ہی ہیں جس نے اس کو علم عطا فرمایا۔
EPAPER
Updated: March 30, 2025, 11:42 AM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
انسان کو اپنی حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ وہ خون کے ایک لوتھڑے سے پیدا کیا گیا ہے، اس کے اندر بذات خود کوئی قابلیت نہیں تھی، یہ ہم ہی ہیں جس نے اس کو علم عطا فرمایا۔
۳۰؍واں پارہ : عَمَّ
(گزشتہ سے پیوستہ) سورۂ الشمس میں نیکی اور بدی کا فرق سمجھا یا گیا ہے کہ جس طرح سورج، چاند، دن رات، زمین آسمان ایک دوسرے سے مختلف ہیں، ان کے اثرات اور تقاضے الگ الگ ہیں، اسی طرح نیکی اور بدی بھی دو متضاد چیزوں کا نام ہے۔
سورۂ اللیل کا موضوع بھی تقریباً وہی ہے جو پچھلی سورہ کا ہے، اس میں بھی زندگی کے دو مختلف راستوں کے فرق پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ان پر چلنے والوں کے انجام کا بیان کیا گیاہے۔
سورۂ الضحیٰ میں سرکارؐ دو عالم کی محبوبیت کا بیان ہے کہ جن کی اتباع کا حکم دیا جارہا ہے وہ غیر معمولی شخصیت ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور توجہ ہے۔ آپؐ کو یقین دلایا جارہا ہے کہ آپ کو وہ سب کچھ دیا جائیگا جس سے آپ راضی ہوجائینگے۔ اسی مناسبت سے کچھ ہدایات بھی ہیں کہ آپ یتیموں اور بے کسوں کے محافظ بنیں اور اللہ کی نعمتوں کا اعتراف و اظہار کرتے رہیں۔
سورۂ الانشراح میں اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ آپ ﷺ کے نام نامی اسم گرامی کو بلند کیا جائے گا، آپ اپنا کام اطمینان کے ساتھ جاری رکھیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہیں۔
سورۂ التین میں فرمایا گیا کہ لوگ دو ہی طرح کے ہوسکتے ہیں ایک وہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور عمل صالح کریں، دوسرے وہ جو ان کی تکذیب کریں۔
اس کے بعد کی سورۂ العلق میں کہا گیا ہے کہ انسان کو اپنی حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ وہ خون کے ایک لوتھڑے سے پیدا کیا گیا ہے، اس کے اندر بذات خود کوئی قابلیت نہیں تھی، یہ ہم ہی ہیں جس نے اس کو علم عطا فرمایا جس سے وہ نابلد تھا، حصول علم اور اس کی ترویج کیلئے ہم نے قلم عطا فرمایا، انسان کو چاہئے کہ وہ نعمت علم حاصل کرکے اللہ کو یاد رکھے۔
سورۂ القدر میں فرمایا گیا کہ یہ قرآن (جس کا بار بار ذکر کیا جارہا ہے کوئی معمولی چیز نہیں ہے) ہم نے اسے قدر ومنزلت والی رات (شب قدر) میں اتارا ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے۔
سورۂ البینہ میں فرمایا گیا کہ کفار اہل کتاب اور مشرکین ثبوت کے باوجود اللہ کے وجود اور اس کی ہدایت کے منکر ہیں، اللہ کے رسول نے مفید اور قیمتی باتوں والی سورتوں پر مشتمل کتاب ان کو پڑھ کر سنادی ہے، ان میں ان کو یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایک اللہ کی عبادت یکسوئی کے ساتھ کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔
سورۂ الزلزال میں فرمایا جارہا ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب زمین کو خوب جھٹکے دیئے جائیں گے اور زمین اپنا سب کچھ اگل دے گی، لوگوں کے کچے چٹھے بھی زمین باہر نکال کر رکھ دے گی، جس شخص نے ذرہ برابر بھی اچھا عمل کیا ہوگا وہ اس کی جزا پائے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برا عمل کیا ہوگا اسے اس کی سزا ملے گی۔
سورۂ العادیات میں گھوڑوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مالک کے ادنیٰ اشارے پر خطرناک سے خطرناک جگہوں پر سر پٹ دوڑے چلے جاتے ہیں اور ایک انسان ہے جو اپنے رب کی سرکشی کرتا ہے، اسے بس مال و دولت کی ہوس ہے، اس کو احساس ہی نہیں کہ قبروں سے بھی اٹھنا ہوگا، اور دلوں کے راز بھی باہر آجائیں گے۔
سورۂ القارعہ میں بھی گزشتہ مضمون کی تائید کی گئی ہے کہ وہ دن نہایت ہولناک ہوگا، ہر چیز دہل جائے گی، لوگ پروانوں کی طرح منتشر ہوں گے، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے۔ نیک اعمال کرنے والے اور غفلت میں پڑے رہنے والوں کے مقامات کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔
سورۂ التکاثر میں ان اسباب کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی وجہ سے لوگ غفلت کا شکار ہیں، فرمایا گیا کہ تم کو کثرتِ مال کی طلب میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش نے آخرت سے غفلت میں مبتلا کردیا ہے۔ انسان ضرور اُس روز (قیامت) اِن نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔
سورۂ والعصر میں اس غفلت کا علاج تجویز کیا گیا ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ اور صبرو حق کی تلقین کا سلسلہ جاری رکھو۔
سورۂ الہُمَزَۃ میں ان لوگوں کو لعن طعن کیاگیا ہے جو مال کی محبت میں گرفتار ہیں، اسے جمع کرتے ہیں اور گن گن کر رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ مال ہمیشہ رہنے والی چیز ہے۔ ہرگز نہیں، وہ شخص تو چکنا چور کر دینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا۔ یہ جگہ کون سی ہے اس کا ذکر کیا گیا ہے۔
سورۂ الفیل میں ایک واقعے کا ذکر ہے، خانۂ کعبہ کو ڈھانے کے ناپاک ارادے سے یمن کا حاکم ابرہہ اپنے لاؤ ولشکر کے ساتھ جس میں نو ہاتھی بھی تھے مکہ مکرمہ پہنچا۔ قدرت خداوندی حرکت میں آئی اور ابابیل نامی چھوٹے سے پرندوں نے طاقتور لشکر کو دُم دباکر بھاگنے پر مجبور کردیا اور اُن کا یہ حال کر دیا جیسے جانوروں کا کھایا ہوا بھوسا۔
ابرہہ کو عبرت ناک عذاب سے دو چار کیا گیا اور قریش کو امن و امان عطا کیا گیا، سورۂ القریش میں قریش مکہ کو یہ احسان یاد دلاکر فرمایا گیا کہ وہ اس گھر کے مالک کی عبادت کریں جس کے صدقے میں تمہیں بیٹھے بٹھائے یہ عظیم فتح نصیب ہوئی ہے۔
سورۂ الماعون میں دین کی تکذیب کرنے والوں کی شقاوت قلبی بیان کی جارہی ہے کہ یہ لوگ یتیموں کو بے آسرا چھوڑ دیتے ہیں، ان لوگوں کی اخلاقی گراوٹ کا حال یہ ہے کہ وہ غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے تک کے روا دار نہیں ہیں، نماز سے غافل ہیں، ریا کار ہیں اور معمولی چیزیں بھی لوگوں کو دینے سے گریز کرتے ہیں۔
سورۂ الکوثر میں اس اعتراض کے جواب میں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی اولاد نرینہ تو ہے ہی نہیں، فرمایا گیا کہ ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا، آپ ان کی گستاخیوں پر آزردہ نہ ہوں، اپنے رب کے یہاں اپنے مقام و مرتبے کی بلندی پر نظر رکھیں، اپنے رب کیلئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں، آپ کا دشمن تو جڑکٹا ہے۔
سورۂ الکافرون میں سرکار دو عالم ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ان سے صاف صاف فرمادیں کہ ہمارا تمہارا عقیدہ الگ الگ ہے، تمہارے ساتھ مشارکت اور موافقت کی کوئی صورت ہی نہیں ہے، تمہیں تمہارا دین مبارک ہو، ہمیں ہمارا دین عزیز اور محبوب ہے۔
سورۂ النصر میں فرمایا گیا کہ اللہ کی مدد کا اثر تم کو اب بھی نظر نہیں آرہا ہے حالانکہ اب اکا دکا کے بجائے لوگ فوج در فوج اس دین (اسلام) میں داخل ہورہے ہیں۔ تو آپ (تشکراً) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح فرمائیں۔
سورۂ لہب میں ابولہب کے گستاخانہ کلام کے جواب میں فرمایا گیا کہ اے ابولہب تیرے ہاتھ ٹوٹیں اب تجھے بُرے انجام سے کوئی نہ بچا سکے گا، لگائی بجھائی کرنے والی اس کی بیوی کے گلے میں رسی کا پھندہ پڑے گا۔
سورۂ الاخلاص میں فرمایا گیا کہ اے پیغمبر آپ توحید کا اعلان کرتے رہیں، حقیقتاً اللہ ایک ہے، یکتا ہے، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، اور نہ اس کا کوئی شریک وسہیم ہے۔
سورہ الفلق میں فرمایا گیا کہ آپ عرض کیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے انتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وجود میں لانے والے رب کی پناہ مانگتا ہوں، ہر اس چیز کے شر (اور نقصان) سے جو اس نے پیدا فرمائی ہے، اور (بالخصوص) اندھیری رات کے شر سے جب (اس کی) ظلمت چھا جائے، اور گرہوں میں پھونک مارنے والی جادوگرنیوں (اور جادوگروں ) کے شر سے، اور ہر حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔
اسی طرح کی دعا سورہ الناس میں بھی سکھائی گئی: آپ عرض کیجئے کہ میں (سب) انسانوں کے رب کی پناہ مانگتا ہوں، جو (سب) لوگوں کا بادشاہ ہے، جو (ساری) نسلِ انسانی کا معبود ہے، وسوسہ انداز (شیطان) کے شر سے جو (اﷲ کے ذکر کے اثر سے) پیچھے ہٹ کر چھپ جانے والا ہے، جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔
سورۂ الفلق اور سورۂ الناس دونوں سورتوں میں اللہ کی پناہ حاصل کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ ان د ونوں سورتوں کو قرآن کریم کے آخر میں لانے کی ایک حکمت یہ ہے کہ اس کتاب ہدایت کو سمجھنے اور عمل کرنے کا جب کوئی انسان ارادہ کرے گا تو شیطان اس سے استفادہ کرنے کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔
مؤمن قاری کو چاہئے کہ جب وہ قرآن کے ختم پر پہنچے تو یہ دعا کرے کہ اے اللہ! قرآن سے استفادہ کی راہ کو شیطانی طاقتوں کے شر سے محفوظ فرما دیجئے اورمجھے اپنی پناہ میں لے لیجئے تاکہ میں برائیوں سے بچا رہوں اور اس کتاب ہدایت سے پورا پورا فائدہ اٹھا سکوں۔
(یکم مارچ ۲۰۲۵ء سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج یہاں تمام ہوتا ہے)