Inquilab Logo

جب صور پھونکا جائیگا، نامہ ٔاعمال رکھ دیا جائیگا، پیغمبراور گواہ حاضر کئے جائیں گے اورعدل ہوگا

Updated: April 02, 2024, 12:47 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سورۂ زمر چل رہی ہے۔ ۲۴؍ویں پارے کا آغاز اس سوال سے ہوتا ہے کہ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرے (یعنی یہ کہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے بھی شریک ہیں ) اور سچی بات (قرآن) کا جب کہ وہ اس کے پاس (رسول کے ذریعے) پہنچے انکار کرے، کیا کافروں کے لئےجہنم میں ٹھکانہ نہ ہوگا۔

There are many signs for the meditator in the creation of the earth, the mountains and the vastness of the sky. Photo: INN
زمین کی تخلیق، پہاڑوں اور آسمان کی وسعت میں غور کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ تصویر : آئی این این

آج :تیئیسویں تراویح ۲۴؍واں پارہ : فَمَنْ أَظْلَمُ
سورۂ زمر چل رہی ہے۔ ۲۴؍ویں پارے کا آغاز اس سوال سے ہوتا ہے کہ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرے (یعنی یہ کہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے بھی شریک ہیں ) اور سچی بات (قرآن) کا جب کہ وہ اس کے پاس (رسول کے ذریعے) پہنچے انکار کرے، کیا کافروں کے لئےجہنم میں ٹھکانہ نہ ہوگا۔ آگے کچھ اور حقائق توحید کے متعلق بیان کئے گئے ہیں، مثلاً یہ کہ بتوں کے مقابلے میں اللہ کافی ہے، ہدایت اور گمراہی اللہ ہی کی طرف سے ہے، زمین وآسمان اللہ نے پیدا کئے ہیں، اللہ کے نفع وضرر کو کوئی ٹال نہیں سکتا، اگر اللہ کسی کو تکلیف پہنچانا چاہے تو یہ پتھر کے بے جان بت سب مل کر بھی خدا کی دی ہوئی ادنیٰ سے ادنیٰ تکلیف کو دور نہیں کرسکتے اور اگر وہ راحت پہنچانا چاہے تب بھی ان کے بس میں اس راحت کو روکنا نہیں ہے۔ دو تین آیتوں کے بعد ارشاد فرمایا کہ اللہ ہی موت کے وقت روحوں کو قبض کرتا ہے اور جو ابھی مرا نہیں اس کی روح سونے کے وقت قبض کرتا ہے اور پھر وہ جس پر موت کا فیصلہ کرنا چاہے اسے روک لیتا ہے اور باقی روحوں کو ایک معینہ مدت کے لئےواپس بھیج دیتا ہے۔ ضروری ہے کہ انسان اس حقیقت کو اچھی طرح محسوس کرلے کہ زندگی اور موت دونوں اللہ کے اختیار میں ہیں، کوئی شخص بھی یقین کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ رات کو سو کر صبح کو زندہ سلامت اُٹھے گا، اسی طرح کوئی بھی شخص قطعی طور پر یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ اگلا لمحہ اس کی زندگی کا آخری لمحہ ہے یا نہیں۔ بہرحال یہ سورۃ اسی طرح کے مضامین پر مشتمل ہے جس میں ان لوگوں کو خدا کی قدرت واختیار سے تعلق رکھنے والی بےشمار حقیقتوں سے روشناس کرایا گیا ہے، یہ حقیقتیں بالکل بدیہی ہیں اور معمولی سی عقل رکھنے والا انسان بھی ان کو محسوس کرسکتا ہے، مگر مشرکین ہیں کہ بتوں ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ ان کی کم عقلی کا عالم یہ ہے کہ وہ بتوں کو یہ سمجھ کر پوجتے ہیں کہ یہ اللہ کے یہاں ان کے سفارشی ہیں، حالاں کہ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں اور نہ وہ کسی بات کی عقل رکھتے ہیں، آپ ان سے فرمادیجئے کہ شفاعت کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے دائرۂ اختیار میں ہے، وہی آسمانوں اور زمین کا مالک ہے اور اسی کی طرف واپس جانا ہے۔ 
چند آیات کے بعد ان لوگوں سے خطاب ہے جو ایمان قبول کرنے کے معاملے میں تذبذب کا شکار تھے، ان کا خیال تھا کہ ہم اتنے گناہ کرچکے ہیں کہ ایمان لانے سے وہ معاف ہونے والے نہیں ہیں، ایسے ہی لوگوں کے سلسلے میں ارشاد فرمایا کہ آپ (میری طرف سے) کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے اوپر (گناہ کرکے) ظلم کیا ہے وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف کردے گا، وہ بڑا مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے، (بس شرط یہ ہے کہ) تم اپنے رب کی طرف لوٹ آؤ اور اس کی اطاعت قبول کرلو اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آجائے، پھر تمہاری کوئی مدد نہ ہوسکے گی اور اپنے رب کی طرف سے نازل کردہ کتاب کے بہترین احکام کی اتباع کرو، اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں اس کا احساس بھی نہ ہو (کہ عذاب آنے والا ہے) اس وقت کوئی انسان یہ نہ کہے کہ ہائے افسوس! اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کی جناب میں کی ہے، واقعی میں مضحکہ اڑانے والوں میں سے تھا، یا کوئی شخص یہ کہے اگر اللہ مجھے ہدایت سے نوازدیتا تو میں بھی متقیوں میں سے ہوتا، یا کوئی شخص عذاب دیکھ کر یہ نہ کہے کہ اگر مجھے ایک موقع اور مل جائے تو میں بھی نیک عمل کرنے والوں میں سے ہوجاؤ ں۔ ایک دو آیتوں کے بعد فرمایا جن لوگوں نے اللہ کو جھٹلایا تھا آپ قیامت کے روز ان کے چہرے سیاہ دیکھیں گے۔ کیا متکبرین کیلئےجہنم میں ٹھکانہ نہیں ہے؟ اگلے رکوع میں قیامت کا ذکر ہے اور اس کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا گیا ہے کہ اس روز صور پھونکا جائے گا اور آسمان وزمین میں جو لوگ ہیں سب کے ہوش اڑ جائیں گے، مگر جس کو خدا (محفوظ رکھنا) چاہے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو دفعتاً سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی، نامۂ اعمال رکھ دیا جائے گا، پیغمبر اور گواہ حاضر کئے جائیں گے، لوگوں کے درمیان حق وانصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہ ہوگا اور ہر شخص کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ آگے یہ بتلایا گیا ہے کہ اہل کفر کو جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا اور مطیع وفرماں بردار بندوں کے لئےجنت کے دروازے کھول دئیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ تم پر سلام ہو، تم بہت اچھے رہے، اَب جنت میں داخل ہوجاؤ اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہو۔ 
اس کے بعد سورۂ مومن ( سورہ الغافر) ہے۔ اس سورہ میں توحید کا بیان بھی ہے۔ کہیں استدلال کے رنگ میں اورکہیں اس کی مذمت اور ممانعت کے طریقے پر، جو لوگ مجادلے پر آمادہ تھے ان کو خبردار بھی کیا گیا ہے کہ وہ اب بھی باز آجائیں موقع ہے ورنہ دنیوی عقوبت بھی برداشت کرنی ہوگی اور آخرت کا عذاب تو ملنا ہی ہے۔ سورہ کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی ان صفات سے ہوتی ہے کہ وہ زبردست ہے، سب کچھ جاننے والا ہے، گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا اور بڑے فضل وکرم والا ہے، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے اور اسی کے پاس واپس جانا ہے۔ 
 آگے ان لوگوں کا ذکر ہے جو قرآنی آ یات کا انکار کرتے ہیں اور اللہ کے منکر ہیں۔ یہ لوگ قوم نوح کی شکل میں پہلے بھی تھے اور بعد میں بھی بہت سے گروہ ان کے تابع ہوئے۔ ان کے مقابلے میں مؤمنین کی جماعت بھی موجود ہے اور عرش الٰہی کو اٹھانے والے فرشتے اور وہ فرشتے جو عرش کے ارد گرد رہتے ہیں، اپنے رب کی حمد وثنا (بھی) کرتے ہیں، اس پر ایمان بھی رکھتے ہیں اور اہل ایمان کیلئےمغفرت کی دعا بھی کرتے ہیں (اور کہتے ہیں ) اے ہمارے رب تیری رحمت اور تیرا علم ہر شے پر حاوی ہے، جنہوں نے توبہ کی ہے اور جو تیرے راستے پر ہیں ان کو معاف کردیجئے اور ان کو دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھئے۔ 
 آخرت کی ہولناکیوں کے بیان کے بعد اس عذاب کا ذکر ہے جو کفر کی پاداش میں مختلف قوموں کو دیا گیا، خاص طور پر حضرت موسیٰؑ اور فرعون کا قصہ بطور عبرت آیا ہے، ضمناً حضرت یوسف ؑ اور ان کی قوم کا بھی ذکر آیا ہے۔ اس کے بعد سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کیلئے ارشاد فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان لانے والوں کی مدد دنیوی زندگی میں بھی کرتے ہیں اور اس وقت بھی کریں گے جب گواہ (گواہی کیلئے) کھڑے ہونگے، اُس دن ظالموں کو ان کی معذرت سے کوئی نفع نہ ہوگا، ان پر لعنت کی جائے گی اور ان کیلئےبد ترین ٹھکانہ ہوگا۔ آگے فرمایا کہ آسمانوں اورزمین کی تخلیق انسانوں کی تخلیق سے بڑھ کر ہے، لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت سے) آشنا نہیں ہیں۔ (حقیقت یہ ہے کہ) اندھا اور بینا دونوں برابر نہیں ہوسکتے، اسی طرح بدکار و صالح بھی یکساں نہیں ہوسکتے مگر یہ حقیقت تم لوگ کم ہی جانتے ہو۔ 
 آگے اللہ تعالیٰ کی شان ربوبیت کا ذکر ہے، اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لئےرات بنائی تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن کیا حقیقت میں اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ 
اگلی سورۃ حم السجدہ(سورہ فصّلت)ہے، اس سورہ میں جو مضامین ہیں ان کو اجمال کے ساتھ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب اللہ ہی نے نازل کی ہے اور تمہاری زبان میں نازل کی ہے اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اگرچہ جاہل لوگ اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ پاتے مگر اہل عقل ودانش اس حقیقت کی روشنی کو آنکھوں سے بھی دیکھ رہے ہیں اور اس سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں، تم نے اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لئے ہیں اور اپنے کان بند کرلئے ہیں۔ پیغمبر کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ تمہیں زبردستی سنائیں، وہ تم جیسے ہی ایک انسان ہیں، ان کی طرف وحی نازل کی جاتی ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ نے زمین کی تخلیق کے سلسلے میں فرمایا کہ کیا تم اس خالق دو جہاں کا انکار کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا شریک وسہیم ٹھہراتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں بنا دیا، وہی تو تمام جہانوں کا رب ہے، اس نے زمین کے اوپر پہاڑ بنادئیے اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس میں رزق کا سامان رکھ دیا (اور یہ سب کام) چار دن میں ہوگئے، پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوئے جو اس وقت محض ایک دھواں تھا، اس نے آسمان و زمین سے کہا کہ تم وجود میں آجاؤ، زبردستی آؤ یا خوشی سے آؤ، دونوں نے عرض کیا کہ ہم خوشی سے حاضر ہیں، تب ہم نے سات آسمان دو دن میں بنا دیئے اور ہر آسمان کے سپر د اس کا معاملہ کردیا اور آسمانِ دنیا کو ہم نے ستاروں سے زینت دی اور یہ سب ایک ایسی ہستی کا فیصلہ ہے جو زبردست ہے اور انتہائی باخبر ہے۔ 
اگلی آیات میں قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر ہے، پھر اسی مضمون کی طرف واپسی ہے جو مشرکین کے عقائد کے سلسلے میں مسلسل چل رہا ہے، فرمایا !اس وقت کا تصور کیجئے جب اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف لے جاکر گھیر لئے جائیں گے (پھر ان کے اگلوں کو ان کے بعد والوں کے آنے تک روک لیا جائے گا) جب وہ پہنچ جائیں گے تو ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کے بدن کی کھالیں ان کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گی۔ وہ لوگ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ہے، وہ جواب دیں گی کہ ہمیں اس اللہ نے زبان دی ہے جس نے ہر چیز کو گویائی بخشی ہے، اسی نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے اور جب تم چھپ چھپ کر گناہ کرتے تھے (تمہیں یہ احساس بھی نہیں تھا) کہ کبھی تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں تمہارے خلاف گواہی دیں گی۔ 
یہاں قرآن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے، اس میں آپ سے کوئی بات ایسی نہیں کہی گئی ہے جو آپ سے پہلے انبیاء سے نہ کہہ دی گئی ہو، بلاشبہ آپ کا رب مغفرت کرنے والا ہے اور درد ناک عذاب والا ہے، اگر ہم اس قرآن کو عجمی زبان میں نازل کرتے تو یہ لوگ کہتے کہ کیوں نہ اس کی آیات کھول کھول کر بیان کردی گئیں، کیا قرآن عجمی ہے اور رسول عربی ہے، آپ فرمادیجئے کہ قرآن ایمان لانے والوں کیلئے ذریعہ ہدایت بھی ہے اور ذریعۂ شفا بھی ہے، مگر جو لوگ ایمان والے نہیں ہیں ان کے کانوں میں یہ ڈاٹ ہے اور ان کی آنکھوں پر پٹی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK