Inquilab Logo

انسان کی حقیقت، باغ کا قصہ، قیامت کی منظرکشی، جِنوں کا قبولِ اسلام اور سورہ مدثر کا نزول

Updated: April 07, 2024, 4:26 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

۲۹؍ ویں پارے کی پہلی سورہ الملک ہے۔ اس کی ابتدائی آیات میں کائنات کے نظام کے متعلق بتلایا گیا ہے کہ یہ انتہائی محکم نظام ہے، اس میں نہ کسی طرح کا کوئی عیب ہے اور نہ کوئی نقص، اس نظام کا ہر عنصر اپنی جگہ مکمل اور مستحکم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پورا نظام خدا ہی کا پیدا کردہ ہے اور وہی اس کا مدبر اور نگراں ہے۔

In Surah Muzamil, it is ordered to worship at night and to recite the Holy Quran during worship. Photo: INN
سورۂ مزمل میں راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنے اور دورانِ عبادت قرآن کریم کی تلاوت کا حکم دیا گیا ہے۔ تصویر : آئی این این

آج :اٹھائیسویں تراویح ۲۹؍واں پارہ : تَبَارَكَ ٱلَّذِى 
۲۹؍ ویں پارے کی پہلی سورہ الملک ہے۔ اس کی ابتدائی آیات میں کائنات کے نظام کے متعلق بتلایا گیا ہے کہ یہ انتہائی محکم نظام ہے، اس میں نہ کسی طرح کا کوئی عیب ہے اور نہ کوئی نقص، اس نظام کا ہر عنصر اپنی جگہ مکمل اور مستحکم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پورا نظام خدا ہی کا پیدا کردہ ہے اور وہی اس کا مدبر اور نگراں ہے۔ اس کائنات میں انسان کو بلامقصد پیدا نہیں کیا گیا، یہ اس کیلئے دارالامتحان ہے، حسن عمل ہی سے وہ اس امتحان میں کامیاب ہوسکتا ہے، اس کے باوجود اگر انسان کفر پر آمادہ ہے تو وہ خود آخرت میں اس کے ہولناک نتائج کا مشاہدہ کرلے گا۔ یہ مضمون تقریباً گیارہ آیات تک پھیلا ہوا ہے۔ اگلی تین آیتوں میں انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے کہ خدا سے تمہاری کوئی چھپی یا کھلی بات پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ تمہارے دل کے خیالات سے بھی آگاہ ہے، اس لئے انسان کا فرض ہے کہ وہ اس باخبر اور علیم ہستی سے ڈرے۔ پھر کائنات کے بعض ایسے حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے جو آنکھوں کے سامنے ہیں، لیکن دلوں پر غفلت کا پردہ پڑا ہوا ہے، اس لئے ہم ان حقائق کا صحیح ادراک نہیں کر پاتے، مثال کے طور پر یہ زمین ہی ہے، اس پر ہم اطمینان کے ساتھ چل پھر بھی رہے ہیں اور اس میں سے اپنا رزق بھی حاصل کررہے ہیں۔ یہ زمین ہمارے تابع فرمان ہے، کس کے حکم سے؟ خدا کے حکم سے، ورنہ اسے کوئی زلزلہ تباہ وبرباد بھی کرسکتا ہے اور کوئی طوفان تہس نہس بھی کرسکتا ہے۔ یہ حقائق تمہارے لئے ہیں، لیکن تم ان کو جانوروں کی طرح دیکھتے ہو جو حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کے بعد چند آیات میں یہ بتلایا گیا ہے کہ بالآخر تمہیں اللہ کے دربار میں حاضر ہونا ہے، نبی کا کام یہ نہیں کہ تمہیں دن اور تاریخ بتلائیں، ان کا کام تمہیں آنے والے خطرہ سے آگاہ کرنا ہے۔ آخر میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ ان ریگزاروں میں اور پہاڑی علاقوں میں تمہاری زندگی کا انحصار پانی پر ہے جو کسی جگہ سے نکل آتا ہے، اگر یہ پانی زمین میں اتر جائے تو تمہیں یہ آب ِحیات دینے والا اللہ کے سوا کون ہے۔ 
 اگلی سورۂ القلم کے تین بنیادی موضوع ہیں، مخالفین کے اعتراضات کا جواب، ان کو پند و نصیحت اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کرنے اور ثابت قدم رہنے کی تلقین۔ سورہ کا آغاز اس مضمون سے ہوتا ہے کہ یہ لوگ آپ کو دیوانہ کہتے ہیں حالانکہ جو کتاب عظیم آپ ان لوگوں کے سامنے پیش کررہے ہیں اور آپ کی زندگی کا ہر پہلو جس خلق عظیم کا نمونہ ہے وہ خود ان کی تردید کے لئے کافی ہے۔ عنقریب یہ فیصلہ ہوجائیگا کہ دیوانہ کون ہے اور عقل مند کون۔ اس سورہ میں ایک باغ کی بھی مثال پیش کی گئی ہے، باغ والوں نے اللہ کی عطا کردہ نعمت کی ناقدری کی اور یہ سمجھے کہ یہ سب کچھ ان کی محنت کا ثمرہ ہے۔ ایک رات انہوں نے قسم کھائی کہ ہم صبح کو باغ کے پھل توڑیں گے، لیکن رات کو جب وہ سوئے تو آپ کے رب کی طرف سے ایک بلا باغ پر آئی اور اسے ویران کرگئی اور اس کا حال ایسا ہوگیا جیسی کٹی ہوئی فصل ہو۔ صبح سویرے جب وہ باغ کی طرف گئے تو وہاں کچھ بھی نہ تھا، آپس میں کہنے لگے شاید ہم راستہ بھول گئے ہیں۔ ان میں سے ایک نیک شخص نے کہا میں نے پہلے ہی تم سے کہا تھا کہ ہم اللہ کی تسبیح نہیں کرتے، تب جاکر وہ توبہ استغفار کرنے لگے اور ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔ عذاب اور آخرت کا عذاب اس سے بھی بڑا ہے، کاش وہ اس بات کو سمجھتے۔ اگلے رکوع میں براہ راست خطاب اہل مکہ سے ہے کہ آخرت کی بھلائی لازمی طور پر ان لوگوں کیلئے ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا۔ آخر میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نصیحت فرمائی گئی کہ صبر سے کام لیجئے، اس راہ میں جو سختی پیش آئے اس کو برداشت کیجئے اور اس بے صبری میں نہ پڑیں جس کی وجہ سے حضرت یونس علیہ السلام آزمائش میں مبتلا ہوگئے تھے۔ 
 سورۂ الحاقہ کے پہلے رکوع میں بتلایا گیا ہے کہ قیامت ایک ایسی حقیقت ہے جو سامنے ضرور آئے گی، قوم ثمود اور قوم عاد نے اس کو جھٹلایا تو قوم ثمود ایک سخت حادثے میں ہلاک کردی گئی اور قوم عاد طوفانی آندھی میں برباد ہوگئی۔ دوسری قوموں پر آنے والے عذاب کا بھی ذکر ہے۔ پھر قیامت کے بیان کی طرف واپسی ہے اور بتلایا گیا ہے کہ قیامت کس طرح واقع ہوگی، اور اخروی زندگی کا آغاز کس طرح ہوگا۔ فرمایا کہ اس روز تم سب اللہ کی عدالت میں پیش کئے جاؤ گے، اور تمہارا کوئی راز ایسا نہ ہوگا جو چھپا ہوا ہو، جن کے دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال ہوگا وہ جنت میں دائمی راحت پائینگے، اور جس کے بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال ہوگا وہ پچھتائے گا اور کہے گا کاش میرا نامہ ٔ اعمال میرے ہاتھ میں نہ دیا گیا ہوتا۔ 
 سورہ کے آخر میں اللہ رب العزت نے قسم کھا کر کہا کہ یہ قرآن نہ تو کسی شاعر کا قول ہے اور نہ ہی کسی کاہن کا۔ یہ تمام جہانوں کے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے-
 اگلی سورہ المعارج ہے جس کا موضوع بھی ملتا جلتا یعنی قیامت، آخرت، جنت اور دوزخ ہی ہے۔ سورہ کے آغاز میں فرمایا کہ مانگنے والے نے (بطور چیلنج) عذاب مانگا ہے جو ضرور واقع ہونے والا ہے اور یہ عذاب کافروں کیلئے ہے، اسے کوئی دفع کرنے والا نہیں ہے، آپ صبر جمیل سے کام لیں۔ جس عذاب کو یہ بہت دور سمجھ رہے ہیں ہم اسے بہت قریب دیکھ رہے ہیں، وہ دن جلد آنے والا ہے، جس روز آسمان پگھلی ہوئی چاندی جیسا ہوجائے گا۔ آگے قیامت کی منظر کشی کی گئی ہے اور بتلایاگیا ہے کہ قیامت کے عذاب اور جہنم کی آگ کے مستحق وہ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں حق سے گریز یا اعراض کیا لیکن جن لوگوں کے دلوں میں خوف ِ خدا تھا، جو آخرت کو مانتے تھے، نماز پڑھتے تھے، اپنے مال میں سے بندگان ِخدا کا حق نکالتے تھے، بدکاریوں سے دور تھے، امانت میں خیانت نہیں کرتے تھے، قول و قرار کے پابند تھے اور سچی گواہی دیتے تھے وہ جنت میں باعزت زندگی گزاریں گے۔ اگلے رکوع میں ان کفار مکہ کو تنبیہ کی گئی ہے جو آپؐ کا مذاق اڑاتے تھے اور آپ ؐ کو بھی تلقین کی گئی کہ مذاق اڑانے والوں کی پروا نہ کریں۔ 
  سورۂ نوح میں حضرت نوح ؑ کا قصہ تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ مقصد کفار مکہ کو یہ بتلانا ہے کہ باز آجاؤ ورنہ تمہارا حشربھی حضرت نوحؑ کی قوم جیسا ہوجائے گا۔ یہ قصہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ اس سورہ کا اختتام حضرت نوح ؑکی ایک پر اثر دُعا پر ہوتا ہے کہ اے میرے رب ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ، اگر آپ نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ آپ کے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل میں جو بھی پیدا ہوگا وہ بدکار اور انتہائی کافر ہی ہوگا، اے میرے رب مجھے اور میرے والدین کو اور اس شخص کو جو میرے گھر میں بحیثیت مومن داخل ہوا ہے اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دیجئے۔ 
  اگلی سورہ، سورۂ جن ہے جس میں ایک خاص واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ ایک مرتبہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بازار عکاظ تشریف لے جارہے تھے، راستے میں نخلہ کے مقام پر آپؐ نے صبح کی نماز پڑھائی، کچھ جنات اُدھر سے گزر رہے تھے۔ وہ تلاوت کی آواز سن کر رُک گئے اور غور سے سننے لگے۔ واپسی پر انہوں نے اپنی قوم سے اس واقعے کا ذکر کیا اور کہا کہ ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سنا ہے جو راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اسلئے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ 
 سورۂ مزمل کے پہلے رکوع میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین باتیں کہی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ آپ رات میں اٹھ کر اللہ کی عبادت کیا کریں، دوسری بات یہ کہی گئی کہ دوران ِ عبادت قرآن کریم کی تلاوت کیا کریں اور تیسری بات یہ کہی گئی کہ کفار کی اذیتوں پر صبر سے کام لیا کریں۔ دوسرے رکوع میں فرمایا گیا کہ آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ کبھی دو تہائی رات کے قریب، کبھی آدھی رات کے وقت اور کبھی ایک تہائی رات کے وقت عبادت میں کھڑے رہتے ہیں اور آپ کے رفیقوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے، اللہ ہی رات دن کا حساب رکھتا ہے، اسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا صحیح حساب نہیں رکھ سکتے، لہٰذا اللہ نے تم پر مہربانی فرمائی، اب تم جتنا قرآن آسانی کے ساتھ پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو، اللہ کو معلوم ہے کہ تم میں کچھ بیمار بھی ہوں گے، کچھ تلاش معاش ا ور راہ خدا میں جنگ کیلئے سفر پر بھی ہونگے، بہر حال جتنا آسانی کے ساتھ پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ کو قرض حسنہ دیا کرو۔ 
 سورۂ مدثر کی ابتدائی آیات اچانک اس وقت نازل ہوئیں جب سرکارؐ دو عالم پر نزول وحی کا سلسلہ مدت دراز تک رُکا ہوا تھا۔ اس وقفے کو فترۃ الوحی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں آپؐ پر وحی نہ آنے کی وجہ سے غم واندوہ کی شدید کیفیت طاری رہا کرتی تھی۔ ایک دن آپؐ راستے سے گزر رہے تھے کہ اچانک آسمان سے آوازآئی، سر اٹھایا تو دیکھا کہ غار حرا والا فرشتہ آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ آپؐ یہ منظر دیکھ کر ڈر گئے اور گھر پہنچ کر گھر والوں سے کہا کہ مجھے اوڑھادو، گھر والوں نے کمبل اوڑھا دیا، اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں کہ اے اوڑھ کر لیٹنے والے اٹھو اور خبر دار کرو اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو، اپنے کپڑے صاف رکھو اور گندگی سے دور رہو اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کیلئے، اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔ 
 اس کی بعد قیامت و آخرت کا بیان ہے اور کفار مکہ کو نصیحت اور تنبیہ ہے۔ 
 سورۂ مدثر کے بعد کلام اللہ کے آخر تک تقریباً تمام سورتیں پے در پے نازل ہوئی ہیں اور ان تمام سورتوں میں نہایت مؤثر اور بلیغ انداز میں توحید، رسالت، عقیدۂ آخرت اور بعث بعد الموت جیسے بنیادی اسلامی عقائد پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور اسلام کی اخلاقی تعلیمات پیش کی گئی ہیں۔ اس سورہ میں ان لوگوں سے خطاب ہے جو آخرت کے منکر تھے اور ان کے ذہنوں میں یا زبانوں پر جو شبہات تھے ان کا جواب دیا گیا ہے۔ 
 اگلی سورہ الدھر کا موضوع انسان کو دنیا میں اس کی حیثیت بتلانا ہے کہ پہلے وہ کچھ نہ تھا، پھر ایک بوند پانی سے اس کی تخلیق ہوئی، پھر اسے یہ بتلایا گیاکہ تو دنیا میں آزمائش اور امتحان کیلئے رکھا گیا ہے، اسی لئے تجھے دوسری مخلوقات کے برعکس عقل وخرد اور ہوش گوش والا بنایا گیا ہے اور تیرے سامنے کفر وشکر کے دونوں راستے کھول کر رکھ دیئے گئے ہیں۔ 
۲۹؍ویں پارہ کی آخری سورہ المرسلات ہے جس کا موضوع بھی قیامت اور آخرت ہے، ابتدائی آیات میں تو بتلایا گیا ہے کہ محمدؐ جس قیامت کی خبر دے رہے ہیں وہ آکر رہے گی، اسی طرح آخرت بھی ضرور ہوگی، ہم نے یہ کار خانۂ ہستی فضول نہیں بنایا ہے، اگرآخرت نہ ہو تو یہ کائنات بے مقصد دکھائی دے گی۔ ایسے دلائل سے منکرین آخرت کو سمجھایا گیا ہے۔ 
سورہ کا اختتام اس آیت پر کیا گیا ہے کہ اب اس (قرآن) کے بعد کون سا کلام ہے جس پر وہ ایمان لائیں گے؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK