Inquilab Logo

یہ کوئی عام الیکشن نہیں، اپنے لیڈروں کو پرکھنے کی ایک کسوٹی بھی ہے

Updated: May 20, 2024, 4:20 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

بعض حلقوں میں امیدواروں سے نااتفاقی ہوسکتی ہے، ان کے سابقہ کردار سے بھی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن یہ وقت اُن کے احتساب کا نہیں بلکہ ان لیڈروں کے کردار کی جانچ کا ہے جو اُن سے ناراضگی کا بہانا بنا کر زعفرانی حکومت کا راستہ ہموار کرنے کی سازش کررہے ہیں، ایسے لوگوں کو بتادینا ہے کہ آئندہ کبھی ہمارے ووٹوں پر اپنا حق جتانے کی جرأت نہیں کرنا

Today the political situation of the country is very bad, but we can change it by voting 100%. Photo: INN
آج ملک کے سیاسی حالات کافی خراب ہیں ،اس کے باوجود صد فیصد ووٹنگ کرکے ہم اسے تبدیل کرسکتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

اِکا دُکا جگہوں کو چھوڑ کرآ ج کی تاریخ میں ملک کاانتخابی منظر نامہ پوری طرح صاف ہے۔ اس میں ہم اِدھر ہوسکتے ہیں یا اُدھر ہوسکتے ہیں۔ درمیان کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ بیچ کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہمیں یہ واضح کرنا ہوگاکہ ہم ’انڈیا‘ کے ساتھ ہیں یا پھر ’این ڈی اے‘ کے ساتھ ہیں۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ کھرگے اور راہل گاندھی کے ہاتھوں کو مضبوط کرنا ہے یا مودی اور امیت شاہ کو اختیارات دینے ہیں۔ ہمیں یہ بتانا ہوگا کہ ہم سیکولرزم اور جمہوریت بچانے والوں کےساتھ ہیں یا فرقہ پرستی اور آمریت کو فروغ دینے والوں میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔ آج مقابلہ امیدواروں کے درمیان نہیں، پارٹیوں کے درمیان ہے بلکہ پارٹیوں کے درمیان بھی نہیں، دو واضح نظریات کے درمیان ہے۔ 
 یہ کوئی عام الیکشن نہیں ہے۔ یہ ایک طرح کا ریفرنڈم ہے۔ ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ اس میں غفلت ہوئی تو اس کا پچھتاوا برسوں نہیں، صدیوں کا بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پچھتانے کا بھی موقع نہ ملے۔ آج ہمیں اس بات کا اختیار ہے کہ ملک کے سیاہ وسپید کا اختیار کسے سونپنا ہے۔ ہمارے سامنے دو راستے ہیں، جن میں سے ہمیں ایک کاانتخاب کرنا ہے۔ ہمیں بتانا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں ؟ ملک میں ہم کیسی حکومت چاہتے ہیں ؟ حکومت چاہتے بھی ہیں یا آمریت کے طرفدار ہیں ؟ 
 گزشتہ ۱۰؍ سال سے ہم صرف شکایتیں کررہے ہیں لیکن جب ان شکایتوں کے ازالے کا موقع آتا ہے، ہم ہاتھ پر دھرے بیٹھے رہتے ہیں یا پھر اپنے مفاد کی خاطر اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی الگ الگ مساجد بناتے ہیں اور اس کی حفاظت کرنے لگ جاتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ الیکشن کے دن اپنے گھروں میں بیٹھے رہ جانے، کہیں اور ’مصروف‘ رہنے یا غلط امیدوار کو ووٹ دینے کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں ؟ 

یہ بھی پڑھئے: ایک ایک ووٹ بہت قیمتی ہے،اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کابہترین استعمال کریں

آئیے ایک سرسری جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا الیکشن کے وقت مہاراشٹر میں کل رائے دہندگان کی تعداد ۸؍ کروڑ ۷؍ لاکھ تھی جن میں سے۴؍ کروڑ ۸۷؍ لاکھ ووٹرس نے حق رائے دہی کااستعمال کیاتھا یعنی ۶۰؍ فیصد پولنگ ہوئی تھی۔ ریاست میں مسلمانوں کا تناسب۱۲؍ فیصد ہے۔ اگر ہم مان کر چلیں کہ مسلمانوں نے بھی اسی تناسب میں ووٹنگ میں حصہ لیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ۳۸؍ لاکھ۷۴؍ ہزار سے زائد مسلم ووٹرس نے حکومت کے انتخاب میں اپنے اختیار کااستعمال ہی نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ ریاست کی ۴۸؍ میں سے۱۳؍ سیٹیں ایسی تھیں جہاں ڈیڑھ لاکھ سے کم فرق سے سیکولر امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اُن حالات میں ہوا تھا جبکہ بڑے پیمانے پر سیکولر ووٹوں کا بکھراؤ بھی ہوا تھا۔ اُس وقت یعنی ۲۰۱۴ء میں ۴؍ کروڑ ۸۷؍ لاکھ میں سے زعفرانی محاذ کو ۲؍ کروڑ ۴۸؍ لاکھ اور سیکولر محاذ کو ایک کروڑ ۶۷؍ لاکھ ووٹ ملے تھے جبکہ ۷۲؍ لاکھ ووٹ ان امیدواروں کو ملے تھے جن میں سے اکثریت کا مقصد ووٹ کاٹنا اور سیکولر طاقتوں کو کمزور کرنا تھا۔ 
 اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رائے گڑھ میں محض ۲؍ ہزار ووٹوں کے فرق سے سیکولر امیدوار کی شکست ہوگئی تھی۔ اسی طرح ایوت محل میں ۹۳؍ ہزار، نندور بار میں ایک لاکھ ۶؍ ہزار، بھیونڈی میں ایک لاکھ ۹؍ ہزار، پربھنی میں ایک لاکھ ۲۷؍ ہزار اور جنوبی ممبئی میں ایک لاکھ ۲۸؍ ہزار ووٹوں کے فرق سے زعفرانی امیدوار جیت گئے تھے۔ 
 ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۹ء آگیا اور ہم نے کبھی اپنا احتساب نہیں کیا۔ شکایتیں ضرور کیں لیکن اپنی کوتاہیوں کاجائزہ نہیں لیا۔ اگر ہم نے اپنا جائزہ لیا ہوتا تو ۲۰۱۹ء کی صورتحال کچھ مختلف ہوتی۔ اُس الیکشن میں ۱۵؍ سے زیادہ انتخابی حلقوں میں سیکولرامیدواروں کی ڈیڑھ لاکھ سے کم ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی تھی جبکہ۳۵؍ لاکھ۴۴؍ ہزار سے زائدمسلم ووٹرس نے ووٹ ہی نہیں دیا تھا۔ اگر مسلمانوں نے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا ہوتا اور اپنی ووٹنگ کی شرح بڑھائی ہوتی تو مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والی نونیت رانا کو امراوتی میں محض ۳۶؍ ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیابی نہیں مل پاتی۔ اسی طرح نندروبار میں حناگاوت ۹۵؍ہزار، گڈچرولی میں اشوک نیتے ۷۷؍ ہزار، ناندیڑ میں پرتاپ راؤ چکھ لیکر ۴۰؍ ہزار، پربھنی میں سنجے ہری بھاؤ ۴۲؍ ہزار، پال گھر سے راجندر گاؤت ۸۸؍ ہزار، جنوبی ممبئی سے اروند ساونت ایک لاکھ، مادھا سے رنجیت نائیک ۸۵؍ ہزار اور بھیونڈی سے کپل پاٹل بھی تقریباً ڈیڑھ لاکھ ووٹوں کے فرق سے جیت گئے تھے۔ 
  یہ ایک سرسری جائزہ ہے۔ تفصیلی جائزہ لیں گے تو مزید خامیوں کا پتہ چلے گا لیکن اس کیلئے یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ فی الحال ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ اس بار وہ غلطی نہ ہو، جو ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں ہوچکی ہے۔ الیکشن کے دن ہمیں گھروں میں نہیں بیٹھے رہنا ہے اور اُس دن کسی بھی دوسری مصروفیت میں خود کو نہیں الجھانا ہے۔ سو فیصد ووٹنگ کو یقینی بنانا ہے۔ اس کیلئے انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی کوششیں ہونی چاہئیں۔ ہم میں سے ہر ایک کوشش ہونی چاہئے کہ وہ پہلے اپنا ووٹ دے، اپنے گھر والوں کو پولنگ بوتھ تک پہنچائے، اپنے متعلقین کو گھروں سے نکلنے پر آمادہ کرے، اپنی بلڈنگ کے مکینوں کو یاد دلائے اور اپنے محلے میں بیداری کی مہم چلائے۔ 
 اسی کے ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ ہمارے ووٹ ضائع نہ ہوں۔ آج کی تاریخ میں پورے ملک کا منظر نامہ واضح ہے۔ ایک دو انتخابی حلقوں کو چھوڑ کر ہر جگہ مقابلہ۲؍ رُخی ہی ہے کیونکہ یہ امیدواروں کے درمیان نہیں بلکہ دو واضح نظریات کے درمیان کی جنگ ہے۔ ایسے میں ان لوگوں کی شناخت بھی نہایت آسانی سے ہوسکتی ہے جو کھل کر یا در پردہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم چاہتے ہیں۔ یہ کوئی عام الیکشن نہیں ہے بلکہ اپنے لیڈروں کو پرکھنے کی ایک کسوٹی بھی ہے۔ اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں امیدواروں سے نااتفاقی ہوسکتی ہے۔ ان کے سابقہ کردار سے بھی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن یہ وقت اُن کے احتساب کا نہیں بلکہ ان لیڈروں کے کردار کی جانچ کا ہے جو مرکز میں زعفرانی حکومت کا راستہ ہموار کرنے کی سازش کررہے ہیں۔ ایسے وہ تمام لیڈر جو اپنی فعالیت سے یا غیر فعال رہ کر زعفرانی حکومت کا راستہ ہموار کرتے ہوئے نظر آئیں، ان تک یہ پیغام پہنچادیا جانا چاہئے کہ آئندہ کبھی ہمارے ووٹوں پر اپنا حق جتانے کی جرأت نہیں کرنا۔ اگر مستقبل کے انتخابات میں انہیں ہمارے ووٹوں کی ضرورت پڑسکتی ہے تو اُن تمام کو غیر مشروط طورپر اُس امیدوار کا ساتھ دینے کیلئے آگے آناچاہئے جو آئین بچانے والوں کے ساتھ ہیں۔ 
  یہ وقت پورے ملک پر بھاری ہے۔ اس بار کاالیکشن ان تمام لوگوں کیلئے آر پار کا الیکشن ہے جو ملک میں امن و امان چاہتے ہیں، جو روزگار اور کاروبار کا فروغ چاہتے ہیں، جوملک میں ترقی کی رفتار چاہتے ہیں اور جو آئین اور سیکولرزم کے کردار کوبحال رکھنا چاہتے ہیں .... اور مسلمانوں کیلئے تو یہ الیکشن اور بھی زیادہ خاص ہے۔ اس کے نتائج ثابت کریں گے کہ ملک میں آئندہ ان کی کیا حیثیت ہوگی اور وہ یہاں کس طرح رہیں گے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان اس موقع کا فائدہ کس طرح اٹھاتے ہیں؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK