Inquilab Logo

غیر قانونی گرفتاری اور ۷؍ ماہ کی غیر قانونی قید، جوابدہی کس کی؟

Updated: May 20, 2024, 4:37 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

نیوز کلک کے بانی ایڈیٹرپربیرپرکائست کی رہائی کےسپریم کورٹ کےفیصلے کا جہاںخیر مقدم ہونا چاہئے وہیں کچھ سوالات ہیں جن کے جواب بھی تلاش کئے جانےچاہئیں۔

75-year-old Parbir Prakaist, editor and founder of News Click, on his way home after his release. Photo: INN
نیوز کلک کے ایڈیٹر اور بانی ۷۵؍ سالہ پربیر پرکائست اپنی رہائی کے بعد گھر جاتے ہوئے۔ تصویر : آئی این این

۷؍ ماہ کی طویل قید کے بعد نیوز کلک کے ایڈیٹر اور بانی ۷۵؍ سالہ پربیر پرکائست کی رہائی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا جہاں خیر مقدم کیا جانا چاہئے وہیں  اس فیصلے کے بعد اٹھنے والے سوالات کے جواب بھی تلاش کئے جانے چاہئیں۔ یہ سوالات شخصی آزادی کے لحاظ سے کلید ی اہمیت کے حامل ہیں۔ 
  گزشتہ سال اکتوبر میں  گرفتار ہونے والے پربیر پرکائست روز ِ اول سے اپنی گرفتاری کے خلاف لڑائی لڑ رہے تھے۔ وہ ایک طرف جہاں  گرفتاری کو ہی چیلنج کر رہے تھے وہیں  مختلف عدالتوں  میں  ضمانتوں  کی درخواستیں بھی  داخل کررہے تھے کہ کسی طرح رہائی نصیب ہو۔ اس میں  کامیابی ملنے میں  انہیں  ۷؍ ماہ کا طویل عرصہ لگ گیا۔ ان کی رہائی اس بنیاد پر ہوئی کہ گرفتاری غیر قانونی تھی۔ انہیں   پولیس نے ۳؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو نہ گرفتار کرتے وقت یہ بتایا کہ کن بنیادوں  پر گرفتارکیا جارہاہے اور نہ ہی ۴؍  اکتوبر کو علی الصباح ۶؍ بجے عدالت میں  پیش کرنے سے قبل ریمانڈ کی درخواست کی نقل فراہم کی گئی تاکہ وہ عدالت میں  اپنے دفاع کی حکمت عملی تیار کر پاتے۔ انہیں  کس بنیاد پر گرفتار کیاگیا یہ اس وقت معلوم ہوا جب ہائی کورٹ کے حکم پر ۵؍ اکتوبر کو انہیں  ایف آئی آر کی نقل فراہم کی گئی۔ کسی بھی شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ گرفتاری سے قبل اسے یہ بتایا جائے کہ کس بنیاد پر حراست میں  لیا جا رہا ہے۔ آئین ہند کا آرٹیکل ۲۲(۱) اس کی ضمانت دیتا ہے۔ پربیر پرکائست کے پاس وسائل تھے اور وہ خوش قسمت بھی تھے کہ انہوں   نے کپل سبل جیسے وکیل کی خدمات حاصل کرکے سپریم کورٹ کو اطمینان دلانے میں    کامیابی حاصل کی کہ دہلی پولیس نے انہیں  گرفتار کرتے وقت مذکورہ بالا بنیادی شرط کو پورا نہیں  کیا۔ اسی بنیاد پر جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سندیپ مہتا کی بنچ نےگرفتاری ا ور ریمانڈ کو غیر قانونی قراردیتے ہوئے انہیں  فوری طور پر رہا کرنے کا حکم سنایا۔ بہت ممکن ہے کہ اب دہلی پولیس ’’ضوابط کی پاسداری ‘‘کرتے ہوئے انہیں  دوبارہ گرفتار کرلے مگر سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں   کے اس من مانے پن اور غیر قانونی گرفتاری کا شکار ہونے وا لے شہریوں کو ہرجانہ کون ادا کرےگا؟ قانون نافذ کرنے والوں  کے ذریعہ قانون کے نام پر کی جارہی ان غیر قانونی حرکتوں  کی جوابدہی کیسے طے ہوگی؟ کسے جوابدہ بنایا جائےگا اور کون بنائےگا؟

یہ بھی پڑھئے: وزیراعظم مودی کی زبان، ہریانہ کا بحران اور الیکشن کمیشن کا طرزعمل

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی شخص کی گرفتاری کے بعد ۲۴؍ گھنٹے کے اندر اندر کورٹ میں  پیش کرکے مزید تحویل کیلئے عدالت کی اجازت کو آئین نے لازمی کیوں  قراردیا ہے؟ اسی لئے نا کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں  من مانی نہ کرسکیں، کسی بھی شہری کو گرفتار کرکے اسے آزادی کے بنیادی حق سے محروم نہ کرسکیں اور اگر وہ ایسا کررہی ہوں تو عدالت اس کا نوٹس لے سکے۔ ایسا کیوں  نہیں  ہوا کہ مجسٹریٹ کورٹ دہلی پولیس کی ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ سنانے سے قبل ملزم بنائے گئے شخص کو اپنے دفاع کا موقع فراہم کرتا اور اگر ملزم اپنی گرفتاری کو چیلنج نہیں  کر پارہاتھا تو اس کی وجہ معلوم کر کے اُس وجہ کو دور کرنے کی کوشش کرتا۔ اس صورت میں  پربیر پرکائست کو اس بڑھاپے میں  شاید ۷؍ ماہ کا طویل عرصہ جیل میں  نہ گزارنا پڑتا۔ ایسا کیوں  ہے کہ گرفتاری کے ۲۴؍ گھنٹوں  کے اندر عدالت میں  پیش کرکے پولیس ملزم کا ریمانڈ حاصل کرنے یا عدالتی تحویل میں  بھجوانے میں  کامیابی حاصل کرلیتی ہے۔ کیا ۲۴؍ گھنٹے کے اندر اندر عدالت میں  پیشی کی شرط اس لئے ہے کہ گرفتاری پر عدالت کی مہر لگ جائے؟ قانون کے ماہرین یقیناً بتائیں گے کہ ایسا نہیں   ہے مگر وہ یہ بھی تسلیم کریں گے کہ زمینی سطح پر ہو یہی رہاہے۔ ذیلی عدالت میں  پیشی کے موقع پر شاذ ونادر ہی ایسا ہوتا ہےکہ عدالت پولیس کے رویے کو مشکوک اور اس کے دعوؤں  کو تنقیدی نگاہوں سے دیکھتی ہو۔ کیا وجہ ہے کہ گرفتاری کے فوراً بعد عدالت میں  پیشی کی صورت میں   ریمانڈ یا پھر عدالتی تحویل کا ہی فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ملک کا ہر شہری پربیر پرکائست کی طرح  وسائل نہیں  رکھتا کہ انصاف کی لڑائی لڑتے لڑتے سپریم کورٹ تک پہنچ جائے۔ 
   پربیر پرکائست اس بنیاد پر تو رہا ہوگئے کہ ان کی گرفتاری غیر قانوی تھی مگر اس سے قبل کسی عدالت نے انہیں  ضمانت نہیں  دی کیوں  کہ گرفتاری’یو اے پی اے‘ جیسے ظالمانہ قانون کے تحت ہوئی تھی۔ یہ ملک کے ان چند قوانین میں  سے ایک ہے جن میں   عدالتی نظام کے بنیادی اصولوں  کو ہی پلٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ نظام انصاف کا بنیادی اصول ’’جب تک ثابت نہ ہوجائے قانون کی نظر میں  بے قصور‘‘ ہونے کا ہے۔ شخصی آزادی کو ملحوظ رکھتے ہوئے عدالتوں کیلئے دوسرا اصول ’’ضمانت معمول اور جیل استثنیٰ‘‘ کا ہے مگر یو اے پی اے اور پی ایم ایل اے جیسے قوانین پر یہ دونوں  اصول صادق نہیں  آتے کیوں  کہ دونوں  ہی قوانین میں تفتیش کاروں  کو غیر معمولی اختیارات سونپ دیئے گئے ہیں۔ وہ کسی بھی شخص پران قوانین کے تحت الزام عائد کر دیں  تو ان الزامات کو غلط اور خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی ذمہ داری اُس شخص کی ہوتی ہے جسے ماخوذ کیاگیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ قوانین میں  ضمانت پر رہائی کی گنجائش تقریباً ختم کردی گئی ہے۔ عمر خالد، گلفشاں  فاطمہ، میراں   حیدر، شرجیل امام اور خالد سیفی جیسے رضا کاروں  اور حقوق انسانی کے علمبرداروں  کو اسی قانون کا سہارالے کر سالہاسال سے پابند سلاسل رکھا گیاہے۔ اب تک ان کے مقدموں کی سماعت بھی شروع نہیں  ہوئی مگر عدالتوں سے ضمانت بھی نہیں  مل رہی کیوں  کہ جس قانون کے تحت انہیں   گرفتار کیاگیاہے، اس میں  ضمانت کی گنجائش ہی تقریباً ختم کر دی گئی ہے۔ دوسری طرف اگر مذکورہ قوانین کے تعلق سے خود حکومت ہند کے ذریعہ راجیہ سبھا میں  پیش کئے گئے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو اس تاثر کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ بے گناہی ثابت کرنے کاعمل ہی کسی سزا سے کم نہیں ہے۔ ’دی وائر ‘کی ایک رپورٹ مطابق راجیہ سبھامیں سی پی ایم کے رکن اے اے رحیم کے ایک سوال کے تحریری جواب میں حکومت ہند نے اعتراف کیا کہ۲۰۱۶ء سے ۲۰۲۰ء کے درمیان ملک کے مختلف حصوں  میں یو اے پی اے کے تحت ۵؍ ہزار ۲۷؍ مقدمات درج کرکے ۲۴؍ ہزار ۱۳۴؍ افراد کو ملزم بنایا گیا۔ وزارت داخلہ کے مطابق اِن ۲۴؍ ہزار افراد میں سے ۲۱۲؍افراد پر ہی جرم ثابت ہوسکا، ۳۸۶؍ بے قصور ثابت ہوئے اور بقیہ یعنی ۹۷ء۵؍ فیصد سالہاسال سے جیلوں   میں  اپنے مقدمات پر شنوائی کے آغاز کے منتظر ہیں۔ 
  یہ اعدادوشمار ۲۰۲۲ء میں   وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے راجیہ سبھا میں  پیش کئے جن کےمطابق یو اے پی اے کے تحت ماخوذ کئے گئے ۲۴؍ ہزار ۱۳۴؍ افراد کے مقدمات ۲۰۲۰ء تک زیر التوا ہیں۔ یو اے پی اے کے تحت گرفتاریوں پر نظر ڈالیں  تو ۲۰۱۶ء سے ۲۰۲۰ء تک اس میں  اضافے کا رجحان صاف نظر آتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں  ۳؍ہزار ۴۷، ۲۰۱۷ء میں  ۴؍ ہزار ۹۸، ۲۰۱۸ء میں  ۴۸۶۲، ۲۰۱۹ء میں  ۵؍ ہزار ۶۴۵؍ اور ۲۰۲۰ء میں  ۶؍ ہزار ۴۸۲؍افراد گرفتار کئے گئے۔ گلفشاں فاطمہ ہوں کہ شرجیل امام یاپھر عمرخالد یا خالد سیفی ان اعدادوشمار میں وہ بھی محض ایک نمبر ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں شہریوں  کے آزاد رہنے کے حق کے تحفظ کے معاملے میں    عدالتوں  کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK