• Wed, 16 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

انسان کی سرشت، اللہ کے احسانات، لڑکا یا لڑکی کی پیدائش، کائنات کی نشانیاں اور نزولِ قرآن

Updated: April 03, 2024, 12:31 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سورہ حم السجدہ ہی چل رہی ہے۔ ۲۵؍ویں پارے کا آغاز اس مضمون سے ہوا کہ ’’قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹتا ہے اور وہی ان تمام پھلوں کو جانتا ہے جو اپنے شگوفوں سے نکلتے ہیں اور اسی کو معلوم ہے کون سی مادہ حمل سے ہے اور وہ کیا جننے والی ہے۔

In the Holy Qur`an, Allah Ta`ala has clearly said that He gives a son or a daughter or both to whomever He wills. Photo: INN
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمادیا ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے بیٹا یا بیٹی یا دونوں عطا کرتا ہے۔ تصویر : آئی این این

آج :چوبیسویں تراویح ۲۵؍واں پارہ : إِلَيْهِ يُرَدُّ
سورہ حم السجدہ ہی چل رہی ہے۔ ۲۵؍ویں پارے کا آغاز اس مضمون سے ہوا کہ ’’قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹتا ہے اور وہی ان تمام پھلوں کو جانتا ہے جو اپنے شگوفوں سے نکلتے ہیں اور اسی کو معلوم ہے کون سی مادہ حمل سے ہے اور وہ کیا جننے والی ہے۔ ‘ ‘انسان کی نفسیاتی کیفیت کے ایک پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ انسان خیر کی دُعا مانگتے نہیں تھکتا لیکن جب اس پر کوئی پریشانی آجاتی ہے تو مایوس اور افسردہ ہوکر بیٹھ جاتا ہے، اور جب سخت حالات کے بعد راحت کی لذت سے ہمکنار ہوتا ہے تو وہ یہ کہتا ہے کہ در حقیقت میں اسی کا مستحق تھا، اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت برپا ہوگی لیکن اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹا یا گیا تو وہاں بھی اسکے پاس میرے لئے خیر ہی خیر ہوگی، حالانکہ ہم کفر کرنے والوں کو یہ بتلادیں گے کہ وہ کیا عمل کرکے آئے ہیں۔ 
سورۂ شوریٰ کا آغاز اس طرح کیا گیا ہے کہ خدائے برتر ودانا کی طرف سے یہ وحی آپ کی طرف اور آپ سے پہلے (انبیاء ورسل) کی طرف بھیجی جاتی رہی ہے۔ آگے فرمایا اسی طرح ہم نے یہ عربی قرآن آپ کی طرف وحی کیا ہے تاکہ آپ بستیوں کی ماں (مکہ مکرمہ) اور اس کے آس پاس رہنے والوں کو خبر دار کردیں اور جمع ہونے والے دن سے ڈرائیں جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے۔ (اس دن) ایک گروہ کو جنت میں جانا ہے اور دوسرے گروہ کو دوزخ کا ایندھن بننا ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو وہ تمام (لوگوں ) کو ایک امت بنا دیتا مگر وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے آگے اللہ تعالیٰ کی تخلیقی اور تکوینی حکمتوں کا ذکر ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے، جس نے تمہارے لئے تمہاری جانوں سے جوڑے پیدا کئے اور جانوروں میں بھی جوڑے بنائے، اس طرح وہ تمہاری نسلوں کی افزائش کرتا ہے۔ 
 کچھ آیات کے بعد ارشاد فرمایا کہ جو آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کردیں گے اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے ہم دنیا میں سے عطا کردیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، اس کے بعد بندوں پر اپنے احسانات وانعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اللہ اپنے تمام بندوں کے رزق میں کشادگی پیدا فرمادیتا تو وہ زمین کو سرکشی اور بغاوت سے بھر دیتے، لیکن وہ ایک حساب سے جتنا چاہتا ہے نازل کرتا ہے، بلاشبہ وہ اپنے تمام بندوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ اللہ ہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہوجانے کے بعد بارش برساتا ہے، وہ لائق تعریف ولی ہے، اس کی نشانیوں میں سے آسمان اور زمین کی تخلیق اور ان میں جانداروں کا وجود بھی ہے۔ اس کی نشانیوں میں سے یہ کشتیاں ہیں جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح نظر آتی ہیں، اللہ جب چاہے ہوا کو روک دے اور یہ کشتیاں سطح سمندر پر ساکت وصامت کھڑے رہ جائیں۔ اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، یا لڑکے اور لڑکیاں دونوں ملا کر دے دیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے۔ 
سورۂ زخرف کا بھی تقریباً یہی موضوع ہے جو سابقہ سورتوں کا تھا، اس میں قریش کے ان جاہلانہ عقائد پر تنقید کی گئی ہے جن کو وہ کسی حالت میں چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھے، انہیں بتلایا گیا کہ تمہارے یہ عقیدے جہالت پر مبنی ہیں، ان سے توبہ کرلو اور ایمان کے سائے میں آجاؤ۔ سورہ کے آغاز میں قرآن کریم کا ذکر ہے اور اہل عرب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ کیا ہم اس کتاب کو محض اس لئے بھیجنا بند کردیں کہ تم حد سے گزری ہوئی قوم ہو، اس سے پہلے بھی کتنے ہی نبی ہم نے بھیجے ہیں، اور جب بھی ان کے پاس کوئی نبی آتا تو وہ اس کا مذاق ضرور اڑاتے، تب ہم نے ان لوگوں کو جو ان سے بہ درجہا طاقتور تھے ہلاک کر ڈالا، پچھلی قوموں کی مثالیں گزر چکی ہیں۔ اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو گہوارہ بنایا، اللہ وہی ہے جس نے خاص مقدار میں آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے مردہ زمین کو زر خیز بنادیا۔ اللہ وہی ہے جس نے تمام جوڑے بنائے اور تمہارے لئے کشتیاں، جانور اور (دوسری) سواریاں بنائیں تاکہ تم ان (سواریوں ) کی پیٹھ پر سیدھے بیٹھ سکو اور جب ان پر بیٹھو تو اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو اور یہ کہو پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے یہ سواری مسخر کردی ہے، ورنہ ہم اس کو قابو میں کرنے والے نہیں تھے اور یقیناً ہمیں اپنے رب کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے، چند آیات کے بعد فرمایا کہ جب حق (قرآن) ان کے پاس آیا تو کہنے لگے کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اس کا انکار کرتے ہیں، کہنے لگے کہ یہ قرآن دونوں شہروں (مکہ، طائف) کے کسی عظیم انسان پر کیوں نہ اتارا گیا۔ کیا یہ لوگ آپ کے رب کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں ؟ 
 آگے حضرت موسیٰ اور فرعون کا واقعہ مختصر طور پرمذکور ہے اور اس کا مقصد کفار مکہ کی تردید ہے اور ان کے اس شبہے کا جواب ہے کہ قرآن اگر نازل ہی کرنا تھا تو مکہ اور طائف کے کسی دولت مند اور عظیم انسان کے اوپر نازل کرتے، حضرت موسیٰ اور فرعون کے قصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے واضح کردیا کہ فرعون کو بھی یہی خیال تھا کہ موسیٰ جیسے غریب انسان کو رسول کیوں بنایا گیا، میں مصر کا مختار کل ہوں، یہ منصب مجھے ملنا چاہئے تھا، مگر انجام کیا ہوا، بہ زعم خود حاکم مطلق ہونے کے باوجود غرق دریا ہوگیا اور حضرت موسیٰ کا کچھ بھی نہ بگڑا، جب کفار مکہ سے کہا جاتا تھا کہ جن بتوں کو تم پوجتے ہو ان میں کوئی خیر نہیں ہے، اس پر وہ یہ جواب دیتے تھے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ کو خدا مانتے ہیں کیا عیسیٰ میں بھی کوئی خیر نہیں ہے۔ اگلی آیات میں ان کے اسی اعتراض کا جواب دیا گیا کہ وہ (عیسیٰ ابن مریم) ایک بندے تھے جن پر ہم نے انعام کیا اور بنی اسرائیل کے لئے ایک نمونہ بنادیا۔ آگے فرمایا کہ جب عیسیٰ ان کے پاس معجزات لے کر آئے تو انہوں نے (اپنی قوم سے ) کہا کہ میں تمہارے پاس حکمت (کی باتیں ) لے کر آیا ہوں اور اس لئے آیا ہوں تاکہ تمہارے سامنے وہ حقیقت کھول دوں جس میں تم اختلاف کرتے ہو، سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت قبو ل کرو (وہ حقیقت یہ ہے) کہ اللہ ہی میرا اور تمہارا رب ہے تم اسی کی عبادت کرو، اور یہی سیدھا راستہ ہے۔ 
سو رۂ دخان میں قریش مکہ کے اس خیال پر ضرب لگائی گئی کہ قرآن انسانی خیالات کا مجموعہ ہے۔ ان کو بتلایا گیا کہ جس قرآن کو تم انسان کی تصنیف سمجھ رہے ہو یہ خود اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ یہ کسی انسان کی نہیں بلکہ خالق کائنات کی کتاب ہے، تم اس کتاب کی قدر وقیمت سے واقف نہیں ہو۔ اللہ نے محض اپنی رحمت سے تمہارے پاس اپنے رسول بھیجے اور اپنی کتاب نازل کی۔ یہ غلط فہمی بھی اپنے دلوں سے نکال دینی چاہئے کہ تم اللہ کے رسول او ر اللہ کی کتاب کے مقابلے میں فتح حاصل کرلوگے، رسول کی بعثت اور کتاب کا نزول دونوں اللہ کے فیصلے ہیں، جو سمیع بھی ہے اور علیم وحکیم بھی ہے، اس کے فیصلے اٹل اور پختہ ہوتے ہیں اور ان سے مقابلہ کرنا کھیل نہیں ہے، معلوم نہیں اللہ پر ایمان لانے میں تمہیں کیا پریشانی لاحق ہے جب کہ تم خود بھی یہ حقیقت تسلیم کرتے ہو کہ آسمان وزمین اور کائنات کی ہر چیز کا مالک اللہ ہے، اس کے باوجود تم دوسروں کو معبود بناتے ہو۔ ٹھیک ہے تمہارے آباءواجداد اس غلط فہمی کا شکار تھے مگر کیا ضروری ہے کہ جو بے وقوفی وہ کرچکے ہیں تم بھی وہی حماقت کرو۔ ان کا رب بھی تنہا خدا تھا اور وہی تمہارا بھی رب ہے، ان کو بھی اسی کی عبادت کرنی چاہئے تھی اور تمہیں بھی اسی کی عبادت کرنی چاہئے، اللہ کی شانِ ربوبیت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ تمہارے جسموں کی نشو ونما کے لئے رزق فراہم کرے بلکہ اس کی ربوبیت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ تمہاری رہ نمائی بھی کرے، اسی رہ نمائی کے لئے رسول بھیجے گئے اور کتاب نازل کی گئی۔ اس سورہ میں اس قحط کا ذکر بھی ہے جو کفار مکہ پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی درخواست پر آیاتھا اور مقصد یہ تھا کہ اس قحط میں مبتلا ہوکر شاید یہ لوگ ایمان قبول کرلیں، قحط میں مبتلا ہونے کے بعد بڑے بڑے کفار ڈھیلے پڑ گئے اور کہنے لگے کہ اے پروردگار ہم پر سے عذاب ہٹا دیجئے ہم ایمان لے آئیں گے، فرمایا کہ ان پر نصیحت کب مؤثر ہوگی ان کا حال تو یہ ہے کہ ان کے پاس کھلی شان والے پیغمبر آچکے ہیں، اس کے باوجود انہوں نے ان سے روگردانی کی اور انہیں سکھلایا ہوا دیوانہ بتلایا (اچھا) ہم عذاب ہٹا دیتے ہیں، تم پھر اپنی پہلی ہی حالت پر آجاؤ گے۔ سورہ کے آغاز میں قرآن کریم کے متعلق فرمایا گیا کہ ہم نے اسے ایک مبارک رات (شب قدر) میں اتارا ہے۔ آگے قیامت کا اور اس کے درد ناک عذاب کا ذکر ہے کہ جس دن کوئی رفیق کسی رفیق کے کام نہ آئے گا اور نہ ان کی (کسی طرح کی کوئی) مدد کی جائے گی، مگر جس پر اللہ کی رحمت ہوگی، بلاشبہ وہ زبردست رحم والا ہے۔ زقوم (ایک کانٹوں بھرا درخت) کا درخت یقیناً گنہ گاروں کا کھانا ہوگا تیل کی تلچھٹ جیسا، پیٹ میں ایسے اُبلے گا جیسے کھولتا ہوا پانی ابلتا ہے (اور کہا جائے گا) پکڑو اسے اور لے جاؤ جہنم کے بیچوں بیچ، اور اس کے اوپر کھولتے ہوئے پانی کا عذاب انڈیل دو۔ اس کے بعد اہل جنت کے سکون کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ 
سورۂ جاثیہ اگلی سورہ ہے، اس کا موضوع بھی توحید وآخرت ہے، کلام کا آغاز توحید کے دلائل سے کیا گیا ہے، انسان کے وجود سے لے کر زمین وآسمان اور پوری کائنات میں ہر طرف بے شمار نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں، جن کی طرف اشارہ کرکے بتلایا گیا ہے کہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ توحید باری تعالیٰ کی گواہی دے رہا ہے، طرح طرح کے جانور، رات دن کی گردشیں، آسمان سے برسنے والی بارشیں، زمین سے اُگنے والے درخت اور سبزے، ہوائیں، انسان کی پیدائش، کیا ان سے ثابت نہیں ہوتا کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے، نہ بہت سے خداؤں سے یہ کائنات چل سکتی ہے صرف ایک خدا ہے جس نے اس کائنات کو بنایا ہے اور وہی اس کا حاکم اور منتظم اورنگراں ہے، یہ سورہ اس آیت پر ختم ہوتی ہے کہ تمام خوبیاں اللہ ہی کے لیے ہیں جو آسمانوں اور زمین کا مالک اور سارے جہاں کا پروردگار ہے، آسمانوں اور زمین میں ساری بڑائی اسی کے لئے ہے وہی زبردست ہے اور حکمت والا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK