Inquilab Logo

افطار پارٹی ہو یا انفرادی، عبادت کا رنگ باقی رہنا چاہئے

Updated: March 22, 2024, 12:44 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

مسلمانوں میں دعوت افطار کا ایک عمومی ذوق پایا جاتا ہے اور لوگ اپنی استطاعت کے مطابق اس کا اہتمام بھی کرتے ہیں، اس سلسلہ میں چند باتیں قابل توجہ ہیں جن کی اس مضمون میں نشاندہی کی گئی ہے۔

Since breaking the fast is completed by breaking the fast, breaking the fast is also an act of worship. Photo: INN
چونکہ افطار ہی سے روزہ کی تکمیل ہوتی ہےاس لئے افطار بھی ایک عبادت ہے۔ تصویر : آئی این این

جن پانچ اعمال کو اسلام میں خصوصی اہمیت حاصل ہے، ان میں ایک روزہ بھی ہے، نماز اگر خدا کی خشیت کا مظہر ہے تو روزہ اس سے محبت کا اظہار ہے، روزہ کے ذریعہ ایک صاحب ایمان ظاہر کرتا ہے کہ خدا کی محبت اور اس کی خوشنودی کی طلب نے اسے کھانے پینے جیسی بنیادی ضروریات سے بھی بے گانہ کررکھا ہے۔ روزہ کی ابتداء طلوع صبح سے ہوتی ہے، اس سے پہلے سحری کھانا مسنون ہے تاکہ روزہ رکھنا آسان ہو۔ روزہ کی انتہاء سورج کے ڈوبنے پر ہوتی ہے؛ اس لئے سورج کے ڈوبتے ہی افطار کرنا واجب ہے۔ افطار میں تاخیر کرنا مکروہ ہے اور افطار نہ کرکے دن کے ساتھ ساتھ رات کا بھی روزہ رکھنا نا جائز اور گناہ ہے۔ اگر دن بھر بھوکا پیاسا رہنا خدا کی بندگی ہے تو افطار میں عجلت کرنا بھی بندگی ہی کا اظہار ہے، دن بھر بھوکا رہنا اگر خدا کی خوشنودی کے سامنے اپنی خواہشات کو قربان کرنے سے عبارت ہے تو افطار میں جلدی کرنا اپنے عجز و درماندگی اور اپنے پروردگار کے سامنے فقر و احتیاج کا اظہار ہے۔ گویا انسان اپنے پروردگار سے کہتا ہے کہ ہم آپ کے رزق سے بے نیاز نہیں ہوسکتے، ہم تو کھانے کے ایک ایک دانہ اورپانی کے ایک ایک قطرہ کے محتاج ہیں، جب تک آپ نے روکا، رک گئے، پھر جونہی اجازت ملی، آپ کے خوانِ نعمت پر ٹوٹ پڑے؛ چنانچہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ میرے بندوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ ہے، جو افطار میں جلدی کرتا ہو۔ ‘‘ (سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۷۰۰)
چونکہ افطار ہی سے روزہ کی تکمیل ہوتی ہے اس لئے افطار بھی ایک عبادت ہے، جیسے سلام سے نماز کے اور بال مونڈانے سے حج وعمرہ کے افعال مکمل ہوتے ہیں ؛ اس لئے سلام اور بال کا مونڈوانا یا کٹانا بھی عبادت ہے، اسی طرح افطار بھی روزہ جیسی عبادت کا حصہ ہے؛ اسی لئے رسولؐ اللہ نے افطار کا وقت متعین فرمایا، افطار کے آداب بتائے؛ کہ افطار سے پہلے یہ دُعاء پڑھی جائے :
’’بار الہا ! میں نے آپ ہی کے لئے روزہ رکھا اور آپ ہی کی عطاء فرمائے ہوئے رزق پر افطار کر رہاہوں۔ ‘‘ (سنن أبو داؤد، کتاب الصیام، باب القول عند الافطار، حدیث نمبر : ۲۳۵۸)

یہ بھی پڑھئے: دل میں صالح تبدیلی ہی کا نام تقویٰ ہے، ہر مسلمان کو اپنا جائزہ لینا چاہئے

افطار کن چیزوں سے ہوناچاہئے ؟ آپؐ نے اس کو بھی بیان فرمایا؛ چنانچہ ارشاد ہے کہ کھجورسے روزہ افطار کیا جائے، اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے افطار کرے کیوں کہ وہ پاک ہے۔ (أبو داؤد، عن سلمان بن عامرؓ، باب ما یفطر علیہ، حدیث نمبر : ۲۳۵۵ )
آپؐ نے خود بھی اس پر عمل فرمایا؛ چنانچہ معمول مبارک تھا کہ اگر تازہ کھجوریں ہوتیں تو ان سے افطارکرتے، ورنہ خشک کھجور (خرما ) سے اور یہ بھی نہ ہوتا تو چند گھونٹ پانی نوش فرمالیتے۔ (أبوداؤد، باب ما یفطر علیہ، حدیث نمبر : ۶۵۳۲)
چوں کہ عبادت میں معاون و مدد گار بننا کارِ ثواب ہے اور مسلمانوں سے یہ مطلوب ہے؛ اس لئے آپؐ نے افطار کرانے کی بھی فضیلت بیان فرمائی۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ جو کسی روزہ دار کو افطار کرائے، اس روزہ دار کے اجر میں کمی کے بغیر افطار کرانے والے کو بھی روزہ رکھنے والے کے برابر اجر حاصل ہوگا۔ (سنن أبو داؤد، کتاب الصیام، باب ما جاء فی فضل من فطر صائماً، حدیث نمبر : ۸۰۷)۔ اس لئے بحمدللہ مسلمانوں میں دعوت افطار کا ایک عمومی ذوق پایا جاتا ہے اور لوگ اپنی اپنی صلاحیت اور استطاعت کے مطابق اس کا اہتمام بھی کرتے ہیں، مگر اس سلسلہ میں چند باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں :
پہلی بات یہ ہے کہ دعوت افطار اصل میں مسلمانوں کے لئے ہے؛ کیوں کہ افطار روزہ کا اختتام ہے اور روزہ مسلمان رکھتے ہیں، نیز افطار ایک عبادت ہے جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ سے تعلق اور رسولؐ اللہ کے اتباع پر ہے، اورظاہر ہے کہ اللہ سے صحیح تعلق اور سنت کے اتباع کا اسلام کے بغیر تصور نہیں کیا جاسکتا لہٰذا دعوت افطار کے مدعوئین بھی اصل میں مسلمان ہونے چاہئیں، ہاں، اگر غیر مسلم بھائیوں کو بھی افطاری کھانے پر مدعو کرلیا جائے تو اس میں حرج نہیں ؛ کیوں کہ غیرمسلموں کو دعوت دینا اور ان کی مہمان نوازی کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب اور لائق اجر و ثواب ہے، خاص کر اگر انہیں دعوتی مقصد کے تحت مدعو کیا جائے۔ اس موقع پر ان کے سامنے اسلام کا تعارف کرایا جائے، اسلامی تعلیمات پیش کی جائیں، روزہ کی حقیقت ان پر واضح کی جائے اور اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں دُور کی جائیں تو ان شاء اللہ اس میں دُہرا ثواب ہے۔ 
 دُہرا ثواب یعنی انفاق کا بھی (ثواب) اوردعوت دین کا بھی۔ رسولؐ اللہ کو ابتدائی مرحلہ میں جب اپنے خاندان کے سامنے دعوت اسلام پیش کرنے کا حکم دیا گیا تو رسول مقبول اور حضور پُرنورؐ نے دوبار بنی ہاشم کے لئے کھانے کا اہتمام فرمایا اور کھانا کھلانے کے بعد ان کے سامنے دین کی دعوت رکھی، پس دعوتی مقصد کے لئے کھانے پر مدعو کرنا عین سنت رسول ہے۔ 
مگر، افسوس کہ آج کل اکثر افطار پارٹیاں عبادت کی روح سے خالی ہوتی جارہی ہیں، خاص کر مسلمان اور غیر مسلم وزراء اور قائدین کی طرف سے دعوتوں کا جو اہتمام ہوتا ہے، ان کی نوعیت بھی سیاسی ہوتی جارہی ہے۔ ہر شخص کی توجہ تقریب کے مہمانان خصوصی کی طرف ہوتی ہے، بڑی تعداد ان کے حاشیہ برداروں کی ہوتی ہے، جن کی حرکتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی خوشنودی کے بجائے کچھ شخصیتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے مقصد سے یہاں پہنچے ہیں، نہ ذکر، نہ استغفار، نہ دعاء، نہ اللہ کی طرف انابت، نہ اخلاص، نہ خشیت، سب سے مضحکہ خیز کیفیت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو کیمرہ کی قید میں آنے اور اخبار کی سرخی بننے کو بے قرار ہوتے ہیں۔ کاش، وہ دنیا میں میڈیا میں جگہ پانے کے بجائے اللہ کے رجسٹر میں اپنا نام لکھالیں، لوگوں کو خوش کرنے کے بجائے اللہ کی خوشنودی کے لئے دعوت افطار کا اہتمام کریں اور کم سے کم روزہ جیسی عبادت کو دنیا طلبی اور غیر اللہ کی رضا جوئی کے ناپاک جذبہ سے آلودہ نہ ہونے دیں۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ اس دعوت میں غریب مسلمان نظر انداز نہ ہوجائیں۔ شریعت کا مزاج یہ ہے کہ ایسے مواقع پر غرباء و مساکین کو فراموش نہ کیا جائے؛ اسی لئے اسلام میں عیدالفطر کے ساتھ صدقۃ الفطر رکھا گیا؛ تاکہ خوشی کے اس موقع پر سماج کے غریب و نادار افراد کے گھروں میں بھی خوشی کے چراغ جل سکیں۔ عید الاضحی میں قربانی واجب قرار دی گئی اور قربانی کے تین حصوں میں سے ایک غرباء کے لئے مخصوص کیا گیا اور ایک رشتہ داروں کے لئے رکھا گیا، جن میں غرباء و محتاج رشتہ دار بھی شامل ہیں، نیز ولیمہ میں غریبوں کو شریک رکھنے کی تلقین کی گئی اور جس میں غرباء کی شرکت نہ ہو، رسولؐ اللہ نے اسے بدترین ولیمہ قرار دیا۔ (صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب من ترک الدعوۃ فقد عصی اللہ و رسولہ، حدیث نمبر : ۵۱۷۷، سنن الدارمی، کتاب الأطعمۃ، باب ما جاء فی الولیمۃ، حدیث نمبر : ۲۰۶۶)
عقیقہ بھی قربانی ہی کی ایک قسم ہے، یہ گویا اس بات کا اشارہ ہے کہ عقیقہ کے گوشت کی تقسیم یا دعوت میں بھی یہی تناسب ملحوظ ہونا چاہئے۔ افطار پارٹیوں میں اس وقت ایک رجحان صرف اہل ثروت اور سماج کے مشاہیر کو بلانے کا پیدا ہورہا ہے، ایسے حضرات کو بلانا یقیناً ناجائز یا مکروہ نہیں ہے؛ لیکن صرف انہی پر اکتفا کرلینا اور سماج کے محتاج و نادار حضرات کو نظر انداز کردینا یقیناً اسلام کی بنیادی فکر کے مغائر ہے اور ایسی تقریبات دین کی روح کے خلاف ہیں ؛ بلکہ قربانی کے گوشت کے سلسلہ میں رسولؐ اللہ کی ہدایت سے استفادہ کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ایسی تقریبات کے کم سے کم ایک تہائی مدعوئین فقراء میں سے ہونے چاہئیں۔ 
تیسری اور سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ دعوت افطار میں بہر حال عبادت کا رنگ باقی رہنا چاہئے، افطار سے کچھ پہلے انفرادی طور پر لوگ ذکر و تسبیح میں مشغول رہیں، درود شریف پڑھنے کا اہتمام کریں، قرآن مجید کی تلاوت کریں یا دینی باتوں کا مذاکرہ ہو، خاص کر دُعا ہو کیونکہ یہ دُعاء کی مقبولیت کے اوقات میں سے ہے۔ دُعاء کے ساتھ افطار کیا جائے، توجہ اللہ کی طرف ہو نہ کہ خلق اللہ کی طرف، توجہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پھیرنے والا ماحول نہ بننے دیا جائے۔ یہ احتیاط برتی گئی تو افطار پارٹیوں میں کوئی حرج نہیں۔ رب العالمین ہمیں توفیق نصیب فرمائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK