Inquilab Logo

’’رنج ہم کو بھی بہت ہے مگر آرام کے ساتھ‘‘

Updated: April 06, 2024, 1:39 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

یہ مضمون نہیں اہل غزہ کے نام کھلا خط ہے۔ جس میں مصیبت زدگان ِ غزہ کے ساتھ اظہار ِ یک جہتی و غمگساری ہی نہیں کیا گیا،اُنہیں اپنے حالات سے باخبر کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ ملاحظہ کیجئے:

Photo: INN
تصویر : آئی این این

معاف کیجئے گا اہل غزہ، ہم آپ کے ہمدرد ہیں، شریک ِ درد نہیں ہیں۔ ہم اعلیٰ سے اعلیٰ افطاریوں میں شریک ہیں، خریداریوں میں شریک ہیں اور اب عید کی تیاریوں میں شریک ہیں۔ آپ کا حق اس طرح ادا کررہے ہیں کہ غزہ کے بارے میں سوشل میڈیا پر جو بھی پوسٹ آتی ہے، اسے بصد اخلاص کئی گروپس میں فارورڈ کردیتے ہیں، نماز کے بعد امام صاحب آپ کے جان و مال کی حفاظت،آپ کے جذبۂ استقامت میں اضافہ اور اسرائیل کے نیست و نابود ہونے کی دُعا کرتے ہیں تو ہم بڑے اہتمام سے ثم آمین کہتے ہیں۔ یقین جانئے ہم آپ کیلئے کچھ نہ کرتے ہوئے بھی بہت کچھ کرتے ہیں مثلاً رمضان کی مبارک راتوں میں چائے خانوں کی ہماری محفل آپ کے ذکر سے خالی نہیں رہتی۔ بعض اوقات ہم ان محفلوں میں اس قدر جذباتی ہوجاتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے ابھی محفل برخاست کرکے اٹھیں گے اور تہجد کی نیت سے چار رکعت نماز ادا کرکے رب العالمین کے حضور رو رو کر دُعا کرینگے کہ باری تعالیٰ اہل فلسطین کی غیب سے مدد فرما دے کہ اب وقت آچکا ہے۔ مگر، تھوڑی ہی دیر میں جذبات کا طوفان گزر جاتا ہے اور بحث کسی اور جانب مڑ جاتی ہے۔
  عزیزان غزہ، کاش آپ ہمارے دلوں میں جھانک کر دیکھتے کہ آپ کے حالات کا کتنا غم ہے ہمیں مگر یہ تو دانشمندی نہیں ہے نا کہ ہم اسی میں غارت و غلطاں رہیں اور اپنے لئے کچھ نہ کریں، اپنی صحت اور اپنےروزہ و افطار کا خیال نہ رکھیں؟ یہی وجہ ہے کہ کسی دن افطار کے دسترخوان کا کوئی گوشہ خالی رہ جاتا ہے، انواع و اقسام کی اشیائے خوردنی میں کچھ کمی بیشی ہوجاتی ہے تو ہمارا پارہ چڑھ جاتا ہے اور ہم بھول جاتے ہیں کہ آپ کو کھجور بھی میسر نہیں آتی اور پانی بھی آسانی سے نہیں ملتا۔ لبالب بھرے ہوئے دسترخوان کے سامنے  بیٹھے ہوئے جب ہم افطار سے قبل دُعا مانگ رہے ہوتے ہیں تو آپ کا خیال آتا ہے اور دل میں ٹیس اُٹھتی ہے کہ خدایا یہ ہمارے بھائی  اپنے مکانوں کے ملبے پر بیٹھ کر روزہ کھول رہے ہیں! ان کی تعداد کم ہے شاید اس لئے کہ خاندان کے خاندان ملک عدم پہنچ چکے ہیں۔
  ہم تک پہنچنے والی خبروں کا تجزیہ کرتے وقت محسوس ہوتا ہے کہ خدائے لم یزل نے آپ کو شجاعت و بہادری کا پیکر بنایا ہے۔ اتنے ظلم و جور کے باوجود آپ ڈرے نہیں، آپ جھکے نہیں، نہ تو آپ کے پائے استقامت میں لرزش پیدا ہوئی نہ ہی آپ کی مزاحمت کمزور ہوئی،لاشوں کے ڈھیر لگتے رہے مگر آپ ٹوٹے نہیں، گڑگڑائے نہیں، بچوں کو مرتا دیکھا، بزرگوں کو دم توڑتا دیکھا، ہم سوچتے ہیں تو ذہن ماؤف ہوجاتا ہے کہ آپ دور تک پھیلی ہوئی تباہی و تاراجی کو کس دل سے دیکھ رہے ہونگے، آپ کی آہ و بکا سے ارض فلسطین کے شجر و حجر رو پڑے ہوں گے، زیتون کے درختوں نے آپ کے اعزہ کی تجہیز و تکفین کے وقت سر جھکا لیا ہوگا، اُنہیں غم ہوگا تو اس بات کا کہ قدرت نے اُنہیں ہاتھ پاؤں دیئے ہوتے تو وہ بھی آپ کیلئے لڑتے، آپ کیلئے اپنی جانیں نثار کردیتے۔ مشہور فلسطینی شاعر محمود درویش نے کہا تھا: ’’اگر زیتون کے درخت جانتے کہ اُنہیں کس نے بویا تھا تو اُن کا تیل آنسو بن جاتا!‘‘ یاد آیا،  رب العالمین نے اپنے پاک کلام میں زیتون کی قسم کھائی ہے، ہم ان درختوں کو بہ نگاہ ِ عقیدت دیکھتے ہیں، ممکن تھا کہ جس طرح اُن درختو ں کی شاخوں نے اپنے محافظوں کو مرتا دیکھ سر جھکایا ہوگا، سامنے رہتے تو ہم بھی سر جھکا دیتے، آپ کے اعزہ کے جنازوں کو کندھا دیتے، اُنہیں سلیقے سے سپرد خاک کرتے مگر افسوس ہم وہاں نہیں تھے!
  رمضان سے پہلے آپ فاقوں پر مجبور تھے، اب تو خیر سے  روزہ رکھ رہے ہونگے، کاش ہم اپنے سجے سجائے افطار کے دسترخوان آپ کی نذر کرپاتے۔ یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ ہمارے اختیار میں عید کی تیاری ہے سو ہم مصروف ہیں، شاپنگ زوروں پر ہے، آپ کا غم بھی ہے اور شاپنگ بھی ہے، معذرت کہ عید ہی کا تو ایک موقع ہوتا ہے، ویسے زمانہ بدل گیا ہے اور اب کافی مواقع میسر آنے لگے ہیں، مثلاً گھر کی شادی، اس کیلئے مہینہ بھر شاپنگ چلتی ہے، شاید اس سے بھی زیادہ، مگر جانے دیجئے یہ موقع ان باتوں کا نہیں ہے۔ ویسے عید بعد یہاں شادیوں کا سیزن ہو گا اور اہل غزہ کے غم میں کوئی شادی نہایت سادگی سے ہوئی تو ہم آپ کو ضرور مطلع کرینگے مگر اس کا امکان کم ہے کیونکہ ہمیں اسی سماج میں رہنا ہے جس میں شادی شادی جیسی ہوتی ہے، جتنا خرچ کیجئے کم ہے، سادگی سے ہونے والی شادیوں کو یہاں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ 
  بات زیتون کی نکل آئی تھی، ہمیں یہ جان کر افسوس ہوا کہ گھروں میں گیس نہیں تھا تو آپ کو زیتون کے درختوں کی لکڑی کاٹنی پڑی تاکہ چولہا جل سکے۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ سے معلوم ہوا کہ جب بنی سہیلہ کے لوگوں کی جان پر بن آئی اور اُنہیں اپنے علاقوں سے ہجرت کرنی پڑی تو پریشانی اور حواس باختگی کے باوجود اُنہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، چولہا جلانے کیلئے وہ اپنے کھیتوں کے نصف سے زائد درختوں کی لکڑیاں کاٹ چکے تھے۔ یہ درخت اُن کی معاشی زندگی کی شہ رگ ہیں،اور صرف زیتون کے نہیں ، امرود، لیموں اور نارنگی کے درخت بھی کاٹے گئے۔ الجزیرہ نے ایک باشندہ کا بیان نقل کیا کہ ’’یہ درخت میری زندگی کے ساتھی ہیں، اُنہوں نے میرا غم میری خوشی دیکھی، وہ میرے رازدار رہے، جب بھی غمزدہ یا فکرمند ہوتا، اُن سے باتیں کرتا تھا، ظالموں نے غزہ کے شہریوں پر بمباری نہیں کی، اِن بے زبان درختوں کا بھی قتل عام کیا ہے۔‘‘
  ہائے کتنا درد ہے ان جملوںمیں۔ جب بھی ایسی رپورٹیں زیر مطالعہ آتی ہیں، جی اُلٹنے لگتا ہے، عالمی طاقتوں کیلئے دل سے بددُعا نکلتی ہے مگر ہم دُعا کرتے ہیں کہ خدا اُنہیں عقل سلیم دے، اُن کا رب ہمارے آپ کے رب سے جدا نہیں، وہ تو آسمانو ں اور زمین کا رب ہے، وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے، وہ ضرورآپ کی فریاد سنے گا، یہی سوچ کر ہم خود کو تسلی دیتے ہیں۔ ایک بات بتانی بھول گئے، آپ کے غم میں یہاں افطار پارٹیاں نہیں ہورہی ہیں مگر ’’افطار پارٹی‘‘ اور ’’ہر افطار میں پارٹی‘‘ میں فرق ہے۔ ایک سلسلہ بند ہے تو دوسرا جاری، بازاروں میں غضب کی بھیڑ ہے، دکانیں اُبل رہی ہیں، ہوٹل رات رات بھر کھلے رہتے ہیں مگر عزیزان و برادران غزہ، ہم آپ کے غم میں شریک ہیں، اپنے پورے وجود کے ساتھ شریک ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK