Inquilab Logo

فوڈ منسٹررفیع احمد قدوائی نے ممبئی میں راشن کارڈ متعارف کرایا تھا

Updated: January 30, 2023, 4:08 PM IST | Saadat Khan | MUMBAI

مدنپورہ کے ۸۰؍سالہ محمد ہارون رشید انصاری زیادہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے لیکن ان کے تجربات اور مشاہدات کافی ہیں، اس عمر میں بھی فعال ہیں

Photo: INN
تصویر:آئی این این

محمد ہارون انصاری نے زیادہ پڑھائی تو نہیں کی مگر انہیں کھیل کود کا بہت شوق تھا۔ اسی وجہ سے ان کے تعلقات ان کھلاڑیو ںسے زیادہ تھے جو مدنپورہ اور اطراف کے علاقوںمیں فٹ بال اور کرکٹ وغیرہ کھیلتےتھے۔ کھیل سے یہاں کے متعدد نوجوانوں نے کامیابی حاصل کی اور سرکاری محکموں میں ملازمتیں بھی حاصل کیں۔اسی تعلق سے محمد ہارون بتاتے ہیںکہ ہمارے دور میں مدنپو رہ اور مومن پورہ میں فٹ بال کا بڑا زور تھا۔ ہر گھر کا کم ازکم ایک لڑکا فٹ بال کھیلتاتھا۔ اس دور کے مشہور فٹ کھلاڑیوں میں مستری چال مدنپو رہ کے یعقوب پیان ، عزیز الرحمان،خادم اور عقیل انصاری وغیرہ بہت اچھا فٹ بال کھیلتے تھے ۔ جس کی وجہ سے ان کھلاڑیوں کا ممبئی میں نا م تھا۔ یعقوب پیان لحیم شحیم اور انتہائی خوبصورت تھے۔ وہ گول کیپر تھے،جب میدان میں اُترتے تو ان کی شخصیت ہی الگ دکھائی دیتی تھی ۔ کھیلتے وقت وہ اپنے موزے میں ایک کنگھی ہمیشہ رکھتے تھے۔کھیل کے دوران جیسے ہی موقع ملتا کنگھی نکال کر بال سنوارنا ان کی عادت تھی۔ ایک مرتبہ وہ مجھے اور مدنپورہ کے دیگر ۲۰؍نوجوانوںکو اپنی طرف سے آگرہ ، دہلی ، کشمیر اور دیگر شہروں کےٹور پر لے گئےتھے۔بڑا لطف آتا تھا ، اس دور میں میچ دیکھنے اور تفریح کرنےکا۔ ‘‘
پہلے راشن کیلئے کوپن ملتا تھا
    محمد ہارون نے بتایاکہ’’ رفیع احمد قدوائی جب فوڈ منسٹر بنائے گئے تھے ، اس دور میں ممبئی میں راشن کارڈ متعارف کروایاگیاتھا۔ اس سے قبل کوپن کے ذریعے راشن اور کھانے پینےکی دیگر اشیاء عوام کو دی جاتی تھیں۔ فانوس والا بلڈ نگ ،شیخ حفیظ الدین مارگ ، سانکلی اسٹریٹ پر کانگریس پارٹی کی مقامی آفس تھی ۔یہاں سے عوام کو دودھ اور گھی کی پیکٹ تقسیم کی جاتی تھی۔ اس وقت گھی کی بڑی اہمیت تھی۔ مذکورہ آفس سے کچھ دوری پر ہوٹل والے کھڑے رہتے تھے۔ جیسے ہی لوگ دودھ اور گھی کی پیکٹ لے کر جاتے، ہوٹل والے ان پیکٹ کو لوگو ں سے خرید لیاکرتے تھے۔ غریب لوگوںکو کچھ پیسے مل جاتے تھے۔ یہ بھی ا پنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔  راشن کارڈ بنانےکیلئے چنچپوکلی پر واقع ایس بریج اسکول میں آفس بنائی گئی تھی۔ راشن کارڈ بنانےکیلئے لوگ لمبی قطاریں لگاتےتھے۔ راشن کارڈ بننے کےبعد اناج آسانی سے ملتا تھا۔‘‘  
شاہ سعود ممبئی آئے تو پورے علاقے کو سجایا گیا تھا
 ایک واقعہ کا ذکر کرتےہوئے انہوں نے کہاکہ ’’ایک مرتبہ سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سعود ممبئی آئے تھے۔ایئر پورٹ سے ان کا قافلہ مسلم علاقوں سے گزرنے والاتھا۔ شہر کے تمام مسلم علاقوںکو شاہ سعود کے استقبال کیلئے سجایاگیاتھا۔ پورے مدنپورہ کو دلہن کی طرح سجایاگیاتھا۔ ان کے خیرمقدم کیلئے جگہ جگہ بینر اور بورڈ آویزاں کئے گئے تھے۔ میں نے گوشت بازار کی منصور بلڈنگ کی گیلری سے انہیں دیکھا تھا۔کھلی جیپ میں پولیس کے سخت بندوبست میں ان کا کارواں گزررہاتھا۔ وہ ہاتھ دکھاکر لوگوںکا شکریہ اداکررہےتھے۔‘‘
میرے نانا اسمبلی الیکشن میں امیدوار تھے
  انہوںنے یہ بھی بتایاکہ ’’ مدنپورہ میںکانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کا دبدبہ تھا۔ یہ ۱۹۵۲ء کی بات ہے۔ میرے نانامجید سیٹھ لال بووٹااسمبلی اور کامریڈ ڈانگے پارلیمانی الیکشن کے اُمیدوار تھے۔  ناناکےمراسم معروف شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی سے تھے۔ ناناکے الیکشن مہم میں حصہ لینے کیلئے کیفی اعظمی صاحب متواتر نانا کے ساتھ رہتے۔ گھرگھر جاکر ووٹرس سے انہیں ووٹ دینےکی اپیل کرتے ۔ اس دور میں خواتین لاریو ں پر سوارہوکر الیکشن مہم میں حصہ لیاکرتی تھیں۔لیکن میرے نانا کانگریس پارٹی کے اُمیدوار سے ہار گئے تھے۔ ہارنے کےباوجود نانانے ووٹرس کیلئے عشائیہ رکھاتھا۔ ‘‘
گروہ بندی اور محلوں کی لڑائیاں
 ہارون انصاری کےمطابق جب میں ڈونگری میں کام سیکھنے جاتاتھا ، شام کو گھر لوٹتے وقت کریم لالہ کے گروہ پر نظر پڑتی تھی۔  ڈونگری جیل کی دیوار سے چارپائیوں کا ایک سلسلہ لگتاتھا۔ کریم لالہ یہیں آکر بیٹھتے تھے۔ لوگوں کی بھیڑ ہوتی تھی۔ کریم لالہ لوگوںکے مسائل حل کرتےتھے۔ اس دور میں اکثر گلی محلوں کے بدمعاشوںمیں لڑائیاں ہواکرتی تھیں مگر اب ایسانہیں ہے۔ 
فوجیوں کا تمام شہری استقبال کرتے تھے
 چین اور ہندوستان کے مابین  ۱۹۶۲ءمیں ہونےوالی جنگ کے بارےمیں بتاتے ہوئے  انہوں نےکہاکہ ’’ پورے ممبئی میں دن کے وقت اندھیرا ہوجاتاتھا۔ اس جنگ کےدوران چین نے ہندوستان کےکئی علاقوں پر قبضہ کرلیاتھا۔جنگ میں حصہ لینے کیلئے ممبئی سینٹرل اسٹیشن سے فوجیوں کا قافلہ ٹرین سے سرحدی علاقوںکیلئے روانہ ہوتاتھا۔ فوجیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے ممبئی سینٹر اسٹیشن پر عوام کی بھیڑ اُمڈ آتی تھی ۔ لوگ فوجیوں کیلئے ناشتہ اور تحائف لاتےتھے۔ میں بھی ایک دن یہ منظر دیکھنے ممبئی سینٹرل اسٹیشن گیاتھا۔ وہاں کا منظر انتہائی جذباتی ہوتا تھا۔
مولانا شوکت علی روڈ پر افطار پارٹی ہوتی تھی
  ہارون انصاری کے بقول ’’مولاناشوکت علی روڈ پر واقع اکبر پیر بھائی کالج کے سامنے جہاں آج گارڈن ہے کسی زمانےمیں رمضان المبار ک میں یہاں افطاری تاسحری تک پٹھانوںکی بھیڑ جمع ہواکرتی تھی۔ چونکہ اس علاقےمیں پٹھانوںکی اکثریت تھی۔ وہ افطاری کےبعد یہاں جمع ہوتےاور سحری تک مختلف قسم کے دینی پروگرام منعقد کئےجاتے۔ گارڈن بننے کےبعد چھوٹا سونا پور قبرستان کی جگہ پرپٹھانوں کا گروپ جمع ہواکرتاتھا۔ ‘‘
رفیع صاحب بند مٹھی سےلوگوں کی مدد کرتے تھے
 ہارون انصاری کےبقول’’ تاردیوپر فلم اسٹوڈیو تھا۔ یہاں گانوںکی ریکارڈنگ ہواکرتی تھی۔ یہاں سے محمد رفیع  صاحب کو ریکارڈنگ کرکے میں نے نکلتےدیکھا ہے۔اسٹوڈیوکے باہر کھڑے ضرورتمندوںکو  وہ بند مٹھی سے پیسے دیتے ہوئے چلے جاتےتھے۔ رفیع صاحب کی اس خوبی سے میں بہت متاثر تھا۔ ‘‘
موم بتی چال کا سانحہ آج بھی بھلا نہیں پارہا ہوں
  محمدعمر رجب روڈ پر واقع موم بتی چال کی عمارت کے منہدم ہونےکا واقعہ بیان کرتے ہوئے  انہوںنےبتایاکہ علی الصباح ۴؍بجے ز وردار دھماکے کی آواز سنائی دی۔معلوم ہواکہ مذکورہ بلڈنگ گر گئی اور سیکڑوں لوگ ملبےمیں پھنس گئے ہیں۔بلڈنگ کے قریب افراتفری کا ماحول تھا۔ آہ وبکا ، چیخ وپکار سے پورا علاقہ گونج رہاتھا۔ حادثے میں تقریباً ۵۰؍افراد جاں بحق ہوئے تھے۔   وہ واقعہ میں آج بھی بھلا نہیں پارہا ہوں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK