Inquilab Logo

بابا رام دیو کی پزیرائی اور تجارتی پیش رفتوں کی حقیقت

Updated: April 15, 2024, 12:56 PM IST | Ram Puniyani | Mumbai

’’پتانجلی‘‘ کے بلند بانگ دعوؤں اور اشتہارات جاری رکھنے کے عدالتی حکم کے باجوود اشتہارات کے جاری رہنے پر عدالت کی برہمی قابل ذکر ہے۔ اس سلسلے میں حتمی عدالتی فیصلے کا انتظار ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

گزشتہ چند دہائیوں کے دوران ہندوستان میں کئی باباؤں کا شہرہ ہوا ہے۔ اس کے پہلے بھی بابا ہوا کرتے تھے مگر ان دنوں باباؤں کا جتنا سیاسی اور سماجی دبدبہ ہے، اتنا پہلے شاید کبھی نہیں تھا۔ کئی بابا مختلف قسم کے سیاہ کارناموں میں ملوث بھی پائے گئے ہیں۔ اسی بناء پراُن کی ’’پُرتقدس شبیہ‘‘ کو اُن کے جرائم کی پردہ پوشی کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ کہاں کیا ہوا اور کس پر کس طرح کے الزامات عائد ہوئے اور پھر وہ قانون کے دائرہ میں لائے گئے، یہ ساری باتیں وقتاً فوقتاً عوام کے سامنے آتی رہی ہیں اس لئے، اس سلسلے کی مثالیں پیش کرنا طول کلامی کا باعث ہوگا تاہم دو بابا ایسے ہیں کہ جن کا تفصیلی تذکرہ ضروری ہے ان میں ایک ہیں شری شری روی شنکر جنہوں نے اپنے جشن کیلئے جمنا ندی کے ساتھ بُرا سلوک کیا۔ وہ مبینہ طور پر انا ہزارے کے آر ایس ایس کی حمایت یافتہ آندولن کا بھی حصہ تھے۔ اُن کے علاوہ بابا رام دیو ہیں جنہوں نے اپنے کریئر کی ابتداء یوگا سکھانے اور یوگا کو عام کرنے والے گرو کی حیثیت سے کی تھی۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا مگر بعدازیں اُنہوں نے ’’پتانجلی‘‘ برانڈقائم کیا اور بڑے پیمانے پر کاروبار شروع کیا۔ آیورویدک مصنوعات بنانے اور بیچنے والی اس کمپنی نے بابا رام دیو کو ارب پتیوں کی فہرست میں شامل کردیا۔ بابا اور اُن کے رفیق کار اچاریہ بال کرشن نے اتنی بڑی تجارتی سلطنت قائم کرلی کہ اُنہیں چنوتی دینے والاکوئی نہیں ہے یا کم از کم اب تک تو نہیں ہے۔ اُن کی آیورویدک اشیاء کا اتنا شہرہ ہوا اور میڈیا کا بڑا طبقہ اُن کی پزیرائی پر اس طرح مامورہوا کہ ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ 
بابا اور اچاریہ کی تعلیمی لیاقت کے بارے میں ہم بہت کچھ نہیں جانتے۔ اس وقت ملک میں کئی آیورویدک کالج ہیں مگر ان دونوں کے پاس شاید آیوروید کی کوئی ڈگری نہیں ہے۔ جانچ سے بچنے کیلئے بابا رام دیو نے دیش بھکتی کا لبادہ اوڑھ لیا اور یہ کہتے رہے کہ وہ کثیر ملکی کمپنیوں سے مقابلہ کررہے ہیں۔ اصل کھیل شروع ہوا کووڈکی وباء کے دوران۔ ایک طرف حکومت نے پونے کی بھارت بایوٹیک کو ٹیکہ بنانے اور بڑی تعداد میں اس کی پیداوار کیلئے زر کثیر فراہم کیا وہیں بابا رام دیو نے یہ دعویٰ کیا کہ اُن کی کمپنی نے کووڈکے علاج کیلئے اور اس سے بچاؤ کیلئے ایک دوا تیار کی ہے جس کا نام ہے کورونِل۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ کورونل کو عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کی تائید حاصل ہے۔ جب آیوش کی وزارت نے اس دعوے کی حقیقت پر سوال اُٹھائے تو پتانجلی نے کہا کہ کورونل ’’ڈبلیو ایچ او کی رہنمائی کے مطابق ہے۔ ‘‘ آیوش کی وزارت نے کورونل کے بارے میں دعوؤں کی حقیقت کو منظور کرنے سے انکارکردیا۔ اس کے بعد بھی کورونل کا ’’کامبوپیک‘‘ بڑی دھوم دھام سے دو مرکزی وزراء (ڈاکٹرہرش وردھن اور نتن گڈکری) کی موجودگی میں جاری کیا گیا۔ یہاں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہرش وردھن خود ایلوپیتھک ڈاکٹر ہیں۔ 
بابا رام دیو نے دعویٰ کیا تھا کہ کورونل کا تجربہ معمولی سے لے کر درمیانے درجے کے کووڈمریضوں پر کیا گیا تو اس کا استعمال کرنے والے کچھ ہی دنوں میں کووڈ نگیٹیو آگئے۔ قارئین جانتے ہیں کہ جدید طبی سائنس میں کسی بھی نئی دوا کو بازار میں لانے سے پہلے کئی سطحوں پر اس کا تجربہ کیا جاتا ہے اور جس پر تجربہ کیا گیا اُس پر اُس کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں حیوانوں پر کیا جانے والا تجربہ بھی شامل ہے۔ کورونل کے معاملے میں ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ باباکی خود اعتمادی اُنہیں حاصل سیاسی پشت پناہی کے نتیجے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتی۔ اپنی روزافزوں کامیابی سے فخرو انبساط میں ڈوبےبابا رام دیو یہیں پرنہیں رُکے بلکہ ایلوپیتھی کو ایک احمقانہ سائنس قرار دیا جس سے پوری دُنیا میں کروڑوں لوگ مختلف امراض سے راحت یا نجات حاصل کرتے ہیں۔ ایلوپیتھی کو احمقانہ کہہ کر بابا رام دیو بُری طرح پھنس گئے، وہ اس طرح کہ انڈین میڈیکل اسوسی ایشن نے اس کا بہت بُرا مانا اور اس پر سخت اعتراض کیا حتیٰ کہ مقدمہ دائر کردیا جس کی سماعت کی تفصیل آپ پڑھ چکے ہوں گے۔ بابا رام دیو نے جدید میڈیکل سائنس کی تحقیر کیلئے معافی مانگی۔ یہاں قارئین کو یاد دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جب انا ہزارے نے بھوک ہڑتال شروع کی تھی تب اُنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ یوگا کی وجہ سے اُن کا جسم اتنا مضبوط ہے کہ طویل عرصہ تک کچھ کھائے بغیر رہ سکتے ہیں مگر برت شروع کرنے کے چند روز بعد ہی اُن کی حالت غیر ہوگئی اور اُنہیں ایلوپیتھک اسپتال میں بھرتی کیا گیا۔ اسی طرح جب چند سال پہلے اچاریہ بال کرشن کی طبیعت خراب ہوئی تو اُنہیں بھی ایلوپیتھی اسپتال کے آئی سی یو میں داخل کیا گیا تھا۔ 
اس دوران، عدالتی انتباہات کے باوجود بابا رام دیو کی کمپنی گمراہ کن اشتہارات جاری کرتی رہی۔ عدالت نے اُنہیں بلایا اور بابا نے گڑگڑاتے ہوئے معافی مانگی مگر عدالت نے اُنکی معافی کو شرف قبولیت نہیں بخشا۔ اب عدالت کیا رُخ اختیار کرتی ہے اور اس کا حتمی فیصلہ کیا ہوتا ہے یہ عنقریب معلوم ہوجائیگا مگر اس سے قبل جو سوال پیدا ہورہا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص یا ادارہ قدیم طرز علاج کو فوقیت دینے کیلئے جدید طریقہ ٔ علاج کا مذاق کیسے اُڑا سکتا ہے؟ اس میں شک نہیں کہ قدیم طبی نسخے کل بھی کارآمد تھے اور آج بھی ہیں مگر ان کی ترویج و ترقی و تشہیر کیلئے جدید میڈیکل سائنس کے نظریات اور مصنوعات کی نہ تو تحقیر کی جاسکتی ہے نہ ہی کسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ کڑی محنت اور مسلسل آزمائش سے گزرنے والی جدید طبی مصنوعات کو یکسر مسترد کردے۔ اس کے ایک ایک پروڈکٹ کو بے شمار تنقیدوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر متعلقہ دوا بازار میں لائی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف بابا رام دیو جیسے لوگ اپنی مذہبی شناخت اور شبیہ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ فی زمانہ اُنہیں کوئی روکتا نہیں ہے۔ رام دیو تویہ تک کہہ گئے کہ اُن کی دواؤں سے کینسر ٹھیک ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ سب اسلئے تھا کہ اُنہیں اب تک اقتدار کی سرپرستی اور پشت پناہی حاصل تھی۔ 
ایک سوال یہ بھی ہے کہ بابا لوگ اتنے مزے میں کیوں ہیں ؟ اس کا سبب یہ ہے کہ پچھلے چند برسوں میں مذہب کے نام پر سیاست کا بول بالا ہوا اَور قدیم سائنس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ یہاں تک کہ تعلیمی اداروں میں بھی آستھا پر مبنی علم اور درس و تدریس کو نافذ کیا جارہا ہے۔ بہرکیف، سپریم کورٹ نے باباؤں کی من مانی روکنے کیلئے اب تک جو کچھ کیا وہ قابل ستائش ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK