اسلام نے انسان کو زندگی گزارنے کے جو اصول عطا کئے ہیں وہ نہایت عملی، جامع اور متوازن ہیں جن کو عمل میں لا کر سکون، خوشی اور کامیابی حاصل ہوتی ہے اور جب انہیں نظرانداز کرکے من مانا طریقہ اپنایا جائے تو ہر قدم پر مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
EPAPER
Updated: October 02, 2025, 4:42 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
اسلام نے انسان کو زندگی گزارنے کے جو اصول عطا کئے ہیں وہ نہایت عملی، جامع اور متوازن ہیں جن کو عمل میں لا کر سکون، خوشی اور کامیابی حاصل ہوتی ہے اور جب انہیں نظرانداز کرکے من مانا طریقہ اپنایا جائے تو ہر قدم پر مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
اسلام کے اصول اعتدال، توازن اور حقیقت پسندی پر مبنی ہیں، اس لئے ان پر قائم رہنے والی امت کو قرآن مجید نے ’’اُمت ِ وَسط‘‘ قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں، قرآن مجید میں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اسی طرح ہم نے تم کو اُمت وسط بنایا۔ ‘‘ (البقرہ: ۱۴۳) ’’وسط‘‘ کا مطلب ہے درمیانی راستہ اختیار کرنے والی امت جو نہ کسی انتہا پسندی میں مبتلا ہو اور نہ ہی غفلت و لاپروائی کا شکار ہو۔ اس امت کا توازن اس بات میں ہے کہ اس کے نظریات اور اعمال میں افراط و تفریط نہیں بلکہ اعتدال اور توازن ہے؛ اسی وجہ سے وہ دنیا کی دوسری قوموں کے درمیان ایک نمونہ اور معیار کی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا اسلام کے ماننے والے اگر اپنے دین پر صحیح طور پر عمل کریں تو وہ اعتدال و توازن کی عملی تصویر بنتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کی اصل کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھے، حدودِ الٰہی کی پاسداری کرے اور ہر موقع پر ایسا طرزِ عمل اختیار کرے جس سے معاشرے میں خیر اور بھلائی کے اسباب پیدا ہوں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اعتدال کے بجائے بے اعتدالی کو اپنی پہچان بنالیا ہے۔ گویا جس امت کو دنیا کے لئے توازن اور سکون کا سرچشمہ ہونا چاہئے تھا، وہ خود بے ترتیبی اور افراط و تفریط میں الجھ کر دوسروں کے لئے باعث ِ عبرت بن گئی۔ اس کی ایک واضح مثال فضول خرچی ہے جس سے اسلام نے سختی کے ساتھ منع کیا ہے، کیونکہ یہ عمل معاشی بدحالی اور اخلاقی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ مگر افسوس کہ آج اکثر مسلمانوں کی زندگی میں فضول خرچی ایک مستحکم رجحان کے طور پر ہے، حالانکہ قرآن نے اسے شیطان کا عمل قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور فضول خرچی نہ کرو۔ بے شک فضول خرچ لوگ شیطانوں کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ ‘‘( بنی اسرائیل:۲۷) یہ رویہ دراصل امت کے زوال اور مشکلات کی بنیادی جڑ ہے، اور جب تک مسلمان دوبارہ راہِ اعتدال کی طرف رجوع نہیں کرتے وہ نہ اپنی حالت بدل سکیں گے اور نہ ہی دوسروں کیلئے حقیقی نمونہ بن سکیں گے۔
مسلمانوں کی موجودہ زندگی کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اسلامی طرزِ حیات اور اس کے سنہری اصولوں کو ترک کرنے کی اصل وجہ صرف جہالت نہیں ہے بلکہ زیادہ بڑی وجہ غفلت اور غیر اسلامی تہذیب سے مرعوبیت ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مسلمان اسلام کی سادگی اور فطری طرزِ زندگی کو اس خوف سے چھوڑ دیتے ہیں کہ کہیں دنیا والے ہمیں قدامت پسند نہ کہیں یا یہ نہ سمجھیں کہ ہم زمانے کے ساتھ چلنے والے نہیں ہیں۔ یہی مرعوبیت انسان کو اپنے دین کی اصل روح سے دور کر دیتی ہے اور دوسروں کے معیار پر اپنی زندگی کو ڈھالنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
یہ رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ مسلمان اپنے معیار کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے بجائے لوگوں کی رائے کے تابع کر چکے ہیں۔ جب کہ قرآن نے بار بار یہ تعلیم دی ہے کہ اصل کامیابی اللہ کی رضا میں ہے، نہ کہ لوگوں کی خوشنودی میں۔
ایک افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ اس کہاوت کی عملی تصویر بن چکا ہے کہ ’’کوا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا۔ ‘‘ یہ طبقہ دوسروں کی تہذیب اور طرزِ زندگی کی اندھی تقلید میں عملاً اسلامی طرز زندگی سے کوسوں دور ہوچکا ہے۔ یہی رویہ دراصل امت کے بحران کی علامت ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کی نقالی سے کبھی کوئی قوم ترقی نہیں کرتی۔ قوموں کی اصل طاقت ان کی اپنی فکری بنیاد اور تہذیبی خود اعتمادی میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ اسی پس منظر میں قرآن اہل ایمان کو متنبہ کرتے ہوئے ان سے تصحیح اور تجدید ایمان کا مطالبہ کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے۔ ‘‘ (النساء:۱۳۶)
اس آیت میں ایمان والوں سے ایمان لانے کا مطالبہ یہ واضح کرتا ہے کہ ایمان محض ایک دعویٰ نہیں، بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے جسے وقتاً فوقتاً تازہ کرنے اور عملاً مضبوط بنانے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ یہی مسلمانوں کی انفرادیت، بقا اور کامیابی کی ضمانت ہے۔
مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اسلام کی بعض تعلیمات پر عمل پیرا ہے، مگر بعض کو یکسر نظر انداز کر بیٹھا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کیلئے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ ‘‘ (البقرہ:۲۰۸) یہ آیت واضح اعلان ہے کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کو غالب کرے۔ عبادات ہوں یا معاملات، معیشت ہو یا معاشرت، تہذیب ہو یا سیاست، ہر جگہ اسلامی اصولوں کو اپنانا ہی حقیقی مسلم شناخت ہے۔ جو لوگ دین کے چند حصوں کو اختیار کر کے باقی کو نظرانداز کر دیتے ہیں، وہ دراصل ایمان کی اصل روح کو کھو بیٹھتے ہیں اور شیطانی وسوسوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
مسلمانوں میں دیندار کہلانے والوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ جب خود عمل کی باری آتی ہے تو انتہائی کمزور اور غافل دکھائی دیتا ہے، لیکن جب دوسروں کو نصیحت کرنے کا موقع ملتا ہے تو وعظ و نصیحت کی پوری کتاب ان کی زبان پر آ جاتی ہے۔ یہ رویہ دراصل قول و فعل کے تضاد کی بدترین شکل ہے جس کی قرآن نے سخت مذمت کی ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو خود نہیں کرتے؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناراضگی کا سبب ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے۔ ‘‘ (الصف:۲)
یہ آیت اہل ایمان کو متنبہ کرتی ہے کہ نصیحت کرنے سے پہلے اپنے آپ کو عمل کا پیکر بنائیں۔ کیونکہ قول و فعل کا تضاد نہ صرف اللہ کے غضب کا باعث بنتا ہے بلکہ دین کی دعوت کو بھی کمزور کر دیتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کی اصل روح اعتدال، سادگی اور مکمل اطاعت میں ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ مسلمان اس طرز زندگی کو اپنا کر نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگی کے لئے بھی آسانی اور سکون کی راہ ہموار کریں۔