Inquilab Logo Happiest Places to Work

تلاوت ِ قرآن مجید اور اس کی تعلیم و تربیت کے فضائل

Updated: May 27, 2022, 1:31 PM IST | Muhammad bin Abdul Wahab | Mumbai

مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔ قرآن مجید اور احادیث میں قرآن اور حاملین قرآن کے بہت فضائل بیان کے گئے ہیں۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا۔‘‘ (المجادلہ:۱۱) ’’کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے ربانی بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو ۔‘‘ (آل عمران:۷۹)  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ماہر قرآن کو معزز و فرمانبردار فرشتوں کا ساتھ نصیب ہوگا اور جو شخص قرآن پڑھتے ہوئے لُکناتا ہے اور اُسے قرآن پڑھنے میں دشواری پیش آتی ہے اُسے دہرا اجر و ثواب نصیب ہوگا۔ یہ بخاری اور مسلم کی روایت ہے اور بخاری شریف میں یہ روایت بھی مذکور ہے: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں  سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھلائے۔‘‘ مسلم شریف میں روایت ہے، حضرت ابوامامہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’قرآن مجید پڑھو، وہ روز قیامت تلاوت کرنے والوں کا سفارشی بنے گا۔ سورہ بقرہ اور آل عمران پڑھو، یہ دونوں سورتیں قیامت کے دن بادل کی مانند سایہ فگن ہوں گی یا قطار اندر قطار کھڑے پرندوں کی مانند ہوں گی اور پڑھنے والوں کی طرف سے وکالت کریں گی ۔ سورہ بقرہ پڑھو، اس کا پڑھنا باعث برکت ہے اور چھوڑنا باعث ِ حسرت و پشیمانی  اور مذاق اڑانے والے تلاوت کی توفیق نہیں پاتے۔‘‘ نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت، کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے روز قرآن مجید اور اس پر عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا ۔ سب سے آگے سورہ بقرہ اور آل عمران ہوں گی۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں سورتوں کی تین مثالیں بیان فرمائیں جن کو میں نے یاد رکھا۔آپؐ نے فرمایا:
 (۱) یہ دونوں سورتیں بادل کے مانند ہوں گی۔ (۲)یا دو تاریک سایوں کے مانند ہوں گی جن کے درمیان ایک چمک کی لہر ہو۔ (۳) یا قطار در قطار کھڑے پرندوں کے دو گروہوں کے مانند ہوں گی جو تلاوت کرنے والوں کے حق میں وکالت کریں گی ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: جس نے قرآن مجید کا ایک حرف پڑھا اُسے دس نیکیاں نصیب ہوں گی ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الف لام میم  ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، لام دوسرا حرف اور میم تیسرا حرف ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپؐ نے ارشاد فرمایا: قرآن پڑھنے والوں سے کہا جائے گا پڑھو اور ترقی کی منازل طے کرتے چلو۔ اس طرح ترتیل  سے پڑھو جس طرح دنیا میں پڑھا کرتے تھے۔ تمہاری آخری منزل وہ ہوگی جہاں تم آیات کی تلاوت ختم کرو گے۔  مسند امام میں حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی اس سے ملتی جلتی ایک روایت منقول ہے لیکن اس میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: ’’وہ بڑھتا جائے گا اور ہر آیت کے بدلے ایک درجہ بلند ہوتا جائے گا یہاں تک کہ وہ آخری آیت پڑھے گا۔‘‘  امام احمدؒ حضرت بریدہؓ سے مرفوع روایت بیان کرتے ہیں:’’سورہ بقرہ کی تعلیم حاصل کرو۔‘‘ اور اس کے بعد انہی الفاظ کا تذکرہ ہے جو سورہ بقرہ اور آل عمران کی فضیلت میں بیان ہوچکے ہیں ۔ البتہ اس روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے:
 قرآن مجید قیامت کے دن قبر کھلنے کے وقت پڑھنے والے کو دبلے پتلے انسان کی صورت میں ملے گا اور کہے گا کہ کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟ وہ کہے گا میں تو نہیں پہچانتا۔ اس کی طرف سے جواب ملے گا : میں تو تیرا ساتھی قرآن ہوں جس نے تجھے گرمی میں پیاسا رکھا اور رات کو جگائے رکھا۔ ہر تاجر اپنے مال تجارت کے سات امیدیں وابستہ رکھتا ہے ، اور تو آج ہر نوعیت کے مالِ تجارت کے سایہ میں ہے۔ اسے دائیں ہاتھ میں بادشاہت دی جائے گی اور بائیں ہاتھ میں خلدبریں کا پروانہ تھمایا جائے گا اور اس کے سر پر عزت و وقار کا تاج رکھا جائے گا ۔ اس کے والدین کو دو ریشمی لباس پہنائے جائیں گے۔ دنیا والے تو اُنہیں کوئی مقام نہیں دیتے تھے ۔ وہ تعجب سے پوچھیں گے کہ کس عمل کی بناء پر یہ لباس ہمیں پہنایا گیا۔ اُن سے کہا جائے گا کہ تیرے بچے نے قرآن مجید کا علم حاصل کیا ۔ پھر اُس لڑکے سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتے جاؤ اور جنت کی منازل طے کرتے جاؤ، اور جب تک وہ پڑھتا جائے گا جنت کے درجات حاصل کرتا جائے گا۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ۚﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن مجید پر عمل کرنے والےاللہ کے ولی اور اُس کے مقرب ہیں۔‘‘
عاملین قرآن کی عظمت
 خلیفۂ دوم حضرت عمر ؓ کی خصوصی مجلس کے ارکان علماء ہی ہوا کرتے تھے خواہ وہ بوڑھے ہوتے یا جوان۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’امامت کے فرائض کتاب اللہ کا زیادہ علم رکھنے والا سرانجام دے۔ اگر سب اِس میں برابر ہوں تو پھر ان میں سے سنّت کا زیادہ علم رکھنے والا، اگر علم حدیث میں سب برابر ہوں تو پہلے ہجرت سے مشرف ہونے والا ، اگر سب ہجرت میں بھی برابر ہوں تو ان میں سے زیادہ عمررسیدہ امامت کے فرائض سرانجام دے۔‘‘
 بخاری شریف میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ شہدائے اُحد میں سے ہر دو ایک کپڑے میں کفن دیتے۔ پھر ارشاد فرماتے : ان میں سے قرآن مجید کا زیادہ علم رکھنے والا کون ہے؟ جب صحابۂ کرام ان میں سے ایک طرف اشارہ کرتے تو آپؐ اسے پہلے لحد میں اتارتے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے، رسولؐ اللہ  نے ارشاد فرمایا: بوڑھے مسلمان اور حاملِ قرآن کی عزت اللہ کی رضا کا باعث ہے بشرطیکہ حاملِ قرآن غلو کرنے والا اور قرآن سے بےوفائی کرنے والا نہ ہو۔
تعلیم و تدبر کی فرضیت اور 
تارکِ قرآن کو تنبیہ
  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اور ان کے دلوں پر ایسا غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سمجھتے، اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دیتے ہیں۔‘‘ (الاسراء:۴۶) ’یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ۔‘‘ (الانفال:۲۲)  ’’اور جو میرے ذِکر(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔‘‘ (طٰہٰ:۱۲۴) حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نبی کریمؐ سے روایت کرتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جو مجھے علم و ہدایت عنایت فرما کر بھیجا اُس کی مثال موسلادھار بارش کی سی ہے جو زمین پہ نازل ہوتی ہے۔ اگر زمین باصلاحیت ہو تو وہ کثرت سے فصل اور گھاس اگاتی ہے مگر نشیب و فراز والی بنجر زمینیں بھی ہوتی ہیں جن میں پانی جمع ہوجاتا ہے۔ اللہ پاک اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ لوگ اس میں سے پانی پیتے پلاتے ہیں اور کھیتی باڑی کرتے ہیں اور ایسی غیرہموار پہاڑی زمین بھی ہوتی ہے جو بارش کے پانی کو اپنے دامن میں نہیں روک سکتی اور نہ ہی اس میں فصل اگانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔  یہ مثال اُس شخص کی ہے جس نے دینِ الٰہی میں سمجھ حاصل کی اور اسے شریعت نے فائدہ دیا اُرس نے خود بھی علم حاصل کیا اور لوگوں کو بھی سکھلایا۔ اور اُس شخص کی بھی اِس میں تمثیل پائی جاتی ہے جس نے دین الٰہی کی طرف توجہ تک نہ کی اور اس ہدایت الٰہی کو قبول نہ کیا جس کا پیغامبر بنا کر مجھے دنیا کی طرف بھیجا گیا ۔ (بخاری، مسلم)
قرآن مجید نہ سمجھنے والے پر منافقت کا اندیشہ
 ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اِن میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں  یہاں تک کہ تمہارے پاس سے نکل کر چلے جاتے ہیں۔‘‘ (محمد:۱۶) ’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ہے ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ۔‘‘  (الاعراف:۱۷۹) حضرت اسماء ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: تمہیں قبروں میں فتنۂ دجال کے مانند آزمایا جائے گا۔ ہر ایک شخص سے پوچھا جائے گا کہ تم اِس انسان کے متعلق کیا جانتے ہو؟ یقین سے آشنا مومن پکار اٹھے گا کہ یہ محمد ﷺ اللہ کے رسولؐ ہیں ۔ ہمارے پاس واضح دلائل اور ہدایت لے کر آئے ۔ ہم نے آپؐ کی دعوت کو قبول کیا، آپؐ پر ایمان لائے اور آپؐ کی پیروی کی  ، تو اس سے کہا جائے گا آرام سے سوجاؤ،  ہمیں پتہ چل گیا کہ آپ مومن تھے۔ رہا شکی المزاج منافق کا معاملہ تو وہ کہے گا : میں تو ان کے متعلق چنداں معلومات نہیں رکھتا۔ لوگوں کو ان سےمتعلق جو کچھ کہتے سنا میں نے بھی کہہ دیا۔ (بخاری ، مسلم) حضرت براء بن عازبؓ کی روایت میں یہ الفاظ منقول ہیں:  ’’مومن کہے گا کہ یہ اللہ کے رسولؐ ہیں ، تو وہ دونوں فرشتے کہیں گے : تو نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لے آیا۔ بلاشبہ تو نے سچ کہا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK