• Fri, 14 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

قرآن کریم کی تلاوت مستقل فضیلت کا باعث اور اجرو ثواب کا ذریعہ ہے

Updated: November 14, 2025, 4:48 PM IST | Maulana Zainul Abedin Qasmi | Mumbai

کلامِ الٰہی سے دوری ہمارا معاشرے میں بڑھتی جارہی ہے، پہلے صبح صبح گھروں سے تلاوت کی آواز آتی تھی، اب خاموشی رہتی ہے۔ بہت سے لوگ یہ تاویل دینے لگے ہیں کہ اسے سمجھ کر پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور ہم سمجھ نہیں سکتے… یہ رویہ ٹھیک نہیں، تلاوت کیجئے اور اسے سمجھنے کی توفیق اللہ سے مانگئے۔

It is the right of the Holy Quran that we should try to understand it and try to absorb its facts and knowledge into our hearts. Photo: INN
یہ قرآن مجید کا حق ہے کہ اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اس کے حقائق ومعارف کو اپنے د ل میں اتارنے کی سعی پیہم ہو۔ تصویر: آئی این این
دنیا میں جو بھی شے وجود میں آتی ہے، اس کے کچھ نہ کچھ اصول وضوابط ہوتے ہیں، اگر ان اصولوں اورضابطوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو وہ شے اصلی روپ میں لوگوں کے سامنے آتی ہے اور لوگ اس سے وافر مقدار میں حقیقی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
انسانی دلوں کا راہ نما
قرآن کریم ربّ کائنات کی جانب سے نازل کردہ کتاب ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے ۔ یہ حقیقت میں عالم ِ انسانیت کے لئے خیر وبرکت کا بحر بے کراں ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کا وہ فائدہ، جو انسانی قلوب واذہان کو منور کر دے، اسی وقت حاصل ہوسکتاہے جب اس کے اصولوں اور ضابطوں کا پورا پورا لحاظ اور حقوق کی رعایت کی جائے۔ اس کی طرف الله رب العزت نے خود توجہ دلائی ہے، ارشاد ربانی ہے : ” (ایسے لوگ بھی ہیں) جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسے پڑھنے کا حق ہے، وہی لوگ اس (کتاب) پر ایمان رکھتے ہیں۔“ (البقرہ: ۱۲۱) یعنی جن لوگوں کو ہم نے کتاب ( قرآن کریم) عطا فرمائی ہے وہ لوگ اس کی تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں، وہی لوگ درحقیقت اس کتاب پر ایمان لانے والے ہیں۔ لہٰذا صرف زبانی طور پر کتاب پر ایمان لانا کافی نہیں ہو سکتا، جبکہ اس کے حقوق کی ادائیگی نہ ہو۔ اس آیت کریمہ کے ذریعے الله تعالیٰ نے اس طرف متوجہ فرمایا کہ زبان سے تو ہر شخص کہہ دیتا ہے کہ میں الله کی کتاب پر ایمان لاتا ہوں  لیکن جب تک وہ اس کی تلاوت کا حق ادا نہ کرے تو وہ اپنے دعویٔ ایمان میںسچا نہیں ہے۔
حقوق قرآنی
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قرآن کریم کے کچھ حقوق ہیں، جو الله رب العزت کی طرف سے اس کے پڑھنے والوں کے  اوپر مقرر فرمائے گئے ہیں ، وہ تین  حقوق یہ ہیں:
lاول یہ کہ قرآن کریم کی تلاوت اس اسلوب پر کی جائے جس اسلوب پر وہ نازل ہوا اور جس طریقے پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس کی تلاوت فرمائی۔
lدوسرا حق یہ ہے کہ قرآن  مجید کو سمجھنے کی کوشش کی جائے او راس کے حقائق ومعارف کو اپنے د ل میں اتارنے کی سعی پیہم ہو۔
lتیسرا حق یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات اور ہدایات پر عمل کرنے کی نیت ہو۔
 اگر قرآن کریم کے یہ تینوں حقوق کوئی شخص ادا کرے تو یہ کہا جائے گا کہ اس نے قرآن کریم کا حق ادا کر دیا، لیکن اگر ان تینوں میں سے کسی ایک حق سے غافل رہا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے قرآن کی تلاوت کا حق ادا نہیں کیا۔
ہمارا طرزِ عمل
آج ہمارا معاشرہ عجیب طرز فکر اختیار کئے ہوئے ہے، وہ یہ کہ امت مسلمہ کی ہر محفل ومجلس کا آغاز قرآن کی تلاوت سے ہوتا ہے، لیکن یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جس وقت کلام پاک پڑھا جارہا ہوتا ہے اس وقت تک تو اس کے احترام اور تعظیم کا خیال ذہن میں رہتا ہے، لیکن تلاوت ختم ہونے کے بعد قرآن کی تعلیمات اور احکام یاد نہیں رہتے۔ یہ ذ ہنی فساد اور خرابی کہاں سے در آئی؟ اس کی بنیاد قرآن کے حقوق وآداب کی عدم رعایت اور حد درجہ لاپروائی نیز تغافل کی وجہ سے آئی۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کی تلاوت ایسی بے وقعت چیز نہیں ہے کہ جس طرح چاہا تلاوت کر لی، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کو باقاعدہ تلاوت کرنے کا طریقہ سکھایا اور اس کی تعلیم دی کہ کس لفظ کو کس طرح ادا کرنا ہے، کس طرح زبان سے نکالنا ہے، اس کے لئے کچھ علوم وضع کیے گئے، جن کی نظیر دنیا کی کسی قوم میں نہیں ملتی، اس لئے ان علوم کی رعایت کرتے ہوئے صحیح طریقے پر قرآن کریم کی تلاوت کی فکر کرنی چاہئے۔
آج کل لوگوں میں یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ قرآن کریم کو طوطا مینا کی طرح رٹنے رٹانے سے کیا فائدہ جب تک کہ انسان اس کے معنی و مطلب نہ سمجھے او رجب تک اس کے مفہوم کا اس کو ادراک نہ ہو، اس طریقے پر بچوں کو قرآن کریم رٹانے سے کیا حاصل ہے؟ (العیاذ بالله)
دو الگ الگ چیزیں
حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کو جن مقاصدکے لئے دنیا میں بھیجا گیا ان میں سے ایک اہم مقصد تلاوت کتاب بھی ہے۔ آپؐ اس لئے تشریف لائے تاکہ کتاب الله کی آیات لوگوں کے سامنے تلاوت کریں اور لوگوں کو تلاوت کرنے کی ترغیب دیں۔ معلوم ہوا کہ تلاوت کرنا ایک مستقل مقصد، مستقل نیکی او راجر کا کام ہے، چاہے سمجھ کر تلاوت کرے یا  صرف تلاوت کرے، یہ عمل ہر حال میں اجروثواب ہے اور یہ تلاوت حضو راکرمؐ کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک  ہے۔
یاد رکھئے! جب تک کسی کو قرآن کریم سمجھے بغیر پڑھنا نہ آیا تو وہ شخص دوسری منزل پہ قدم کیسے رکھے گا؟ قرآن کریم کو صرف پڑھنا یعنی صرف تلاوت کرنا پہلی منزل ہے۔ اس کے بعد دوسری منزل ( سمجھ کر پڑھنے) کا نمبر آتا ہے۔ خوانخواستہ کوئی شخص پہلی منزل پار نہ کر سکا تو دوسری منزل کیسے پار کرے گا؟ اور بغیرسمجھے پڑھنے پر بھی انسان اجروثواب کا مستحق ہوتا ہے، چنانچہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شخص قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے تو ہر حرف کی ادائیگی پر الله تعالیٰ کی طرف سے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور پھر  آپؐ  نے اس کی تشریح کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ”الم“ ایک حرف ہے، بلکہ ’الف“ ایک حرف ہے، ”لام“ ایک حرف ہے اور ”میم“  ایک حرف ہے۔ (ترمذی)
آج ہمارے دلوں میں نیکیوں کی فضیلت اور اس کی اہمیت موجود نہیں ہے، لیکن یاد رکھئے! جب آخرت کا نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو گا اور عالم برزخ کے دل دوز مناظر ہم دیکھ رہے ہوں گے تو اس وقت وہاں صرف یہ سوال ہو گا کہ کتنی نیکیاں اپنے نامہ اعمال میں لے کر آئے ہیں؟ اس وقت ان نیکیوں کی قدر وقیمت معلوم ہوگی۔
الغرض قرآن کریم کی تلاوت مستقل فضیلت کا باعث اور اجرو ثواب کا ذریعہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک امت مسلمہ کا معمول رہا ہے کہ صبح سویرے جب تک قرآن کریم کی تھوڑی بہت تلاوت نہ کر لیتے اس وقت تک دنیا کے دوسرے کاموں میں مشغول نہ ہوتے۔ صبح کے وقت اگر مسلمانوں کے محلے سے گزر ہو جائے تو گھرگھرسے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز آتی تھی۔ تلاوت کی آواز کا آنا یہ مسلمانوں کے محلے کی نشانی ہوا کرتی تھی۔
قرآن سے بے زاری کا نتیجہ
تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جب تک مسلمان قرآن مجید پر عمل کرتے رہے تب تک  الله تعالیٰ کا انعام آتا رہا۔ اللہ رب العزت نے ایران و روم جیسی سلطنت ان کے قدموں میں ڈال دی اور جب انہوں نے قرآن مقدس کی تعلیمات کو نظر انداز کیا تو الله رب العزت نے بھی ان کو نظر انداز کر دیا، جس کی تائید ایک مشہور حدیث رسول ؐ سے ہوتی ہے۔
حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا:
”اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ بے شک ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله تبارک و تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے کسی قوم کو عزت اور شرف کا بلند مقام عطا فرماتا ہے اور اس کتاب کے ذریعے کسی قوم کو ذلت ورسوائی سے ہم کنار کر دیتا ہے۔“ (مشکوٰۃ)
قرآن کی قدر کرنے والوں کا مقام
مذکورہ حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ دنیا میں الله تبارک وتعالیٰ قرآن کریم کی تعلیمات سے کماحقہ واقفیت حاصل کرنے والوں، اُن پر عمل کرنے والوں، اصول و ضابطے کے ساتھ تلاوت کرنے والوں اوراس کے جملہ حقوق کی رعایت کرنے والوں کوہدایت کی دولت سے نوازتا ہے، اگرچہ وہ حسب ونسب او رمال و زر کے اعتبار سے دنیا  والوں کی نظر میں بلند مقام نہ رکھتے ہوں ، مگر الله تعالیٰ کی نگاہ میں ان کا مرتبہ بلند وبالا ہوتا ہے اور ایسے بوریا نشینوں کا امیر و کبیر،  ادنیٰ واعلیٰ سب ہی لوگ احترام کرتے ہیں ۔ اس طرح  دنیا میں انہیں یہ شرف وعزت کا مقام حاصل ہوا اور آخرت میں بھی وہ اعلیٰ مقام پر فائز ہوں گے۔ ( ان شاء الله)
ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
لہٰذا ہمیں اپنی اس کج روی کو بدلنا چاہئے، الله اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات اور قرآن کریم کے احکام وپیغام کو عملی جامہ پہنا کر تلاوت کلام پاک سے اپنے شب وروز منور کرنے چاہئیں۔ یہی وہ نسخہ کیمیا ہے کہ جسے عمل میں لانے کے بعد ہم اپنی عظمت رفتہ کو بھی حاصل کرسکیں گے،  دنیا میں بھی ہم کامیاب وکامراں ہوں گے اور آخرت میں بھی سرخرو ہوں گے۔ ان شاء اللہ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK