Inquilab Logo

دینی مدارس اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال:امکانات وتوقعات

Updated: February 03, 2023, 12:56 PM IST | tariq asad | Mumbai

ایسے دَور میں جب ٹیکنالوجی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہو، جدید آلات سے کسی کو مفر نہیں اور ان سے دامن بچانا کوئی دانشمندی بھی نہیں ، البتہ یہ ضروری ہے کہ بالخصوص دینی مدارس میں اس کے استعمال سے قبل جہاں اساتذہ کو تربیت دی جائے ، وہیں طلبہ کے لئے بھی اس کے استعمال میں کچھ پابندیوں اور اصولوں کو نافذ کرنا چاہئے

Madrasas Islamia must advance in the direction of using modern equipment and be armed with modern technology to keep pace with the times.
مدارس اسلامیہ کو جدید آلات سے استفادہ کی سمت میں پیش قدمی کرنی ہوگی اور ماڈرن ٹیکنالوجی سے مسلح ہوکر زمانے کے قدم سے قدم ملا کر چلنا ہو گا


اکیسویں صدی اپنے جلو میں ایسی حیرت انگیز ایجادات لئے نمودار ہوئی جس نے پوری روئے زمین کا ضابطہ حیات ہی بدل دیا۔ ہفتوں، مہینوں اور برسوں میں پایہ ٔ تکمیل کو پہنچنے والے امور سیکنڈوں اور منٹوں میں ہونے لگے، دنیا سمٹ سمٹا کر مٹھی میں بند ہو گئی، ایک شہر سے دوسرے شہر اور دوسرے ملک میں پیغام رسانی کے لئے جہاں مہینے لگ جاتے تھے وہیں ہاتھ کی ایک جنبش سے  ایک سیکنڈ سے کم وقفے میں وہی پیغام دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتا ہے۔ ہر شخص یہ تسلیم کرتا ہے کہ انٹرنیٹ کی آمد اور اس تک آسان رسائی نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں بےانتہا سہولتیں اور آسانیاں  مہیا کر دی ہیں۔
 ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہر فرد خواہ امیر ہو یاغریب، جاہل ہو یا عالم، بچہ ہو یاجوان یا بزرگ، مرد ہو یاعورت غرضیکہ ہر کوئی اس کا حصہ بنا ہوا ہے اور کسی نہ کسی طرح اس سے استفادہ کر رہا ہے۔ جدید آلات سے کسی کو مفر نہیں اور ان سے دامن بچانا کوئی دانشمندی بھی نہیں کہ ایک زمانہ اس سے مستفید ہو رہا ہو اور کسی معقول یا جائز سبب کے بغیر اس سے بے اعتنائی برتنا درست نہیں۔
 مدارس اسلامیہ پر عموماً یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہاں پر جدت پسندی اورتبدیلی کواچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ، اصلاح کی کوششوںکو بلا سبب ردکر دیاجاتا ہے، ہر نئی چیز کو کڑی تنقیدی نظر سے دیکھا جاتا ہے اوربالعموم تجدید واحیا کی تحریکوں سے تجاہل عارفانہ برتا جاتا ہے۔مگر یہ حقیقت ہے کہ بہت سارے مدارس نے اصلاح کی مثبت کوششوں کا تہہ دل سے خیر مقدم کیا ہے اور درست رائے اور مبنی بر اخلاص مشوروں کوعملی جامہ بھی پہنایا ہے ، نیزعصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں نظام تعلیم، نصاب تعلیم، رہن سہن، وغیرہ میں انقلابی تبدیلیاں بھی کی ہیں تاکہ مدارس بھی زمانے کے شانہ بشانہ چلیں اوردینی تعلیم اور عصری امور کی رعایت کرتے ہوئے پیش آمدہ مسائل کا تحلیل و تجزیہ کریں۔
 کورونا اور لاک ڈائون کے سبب تعلیمی و تدریسی نظام میں انقلابی تبدیلی رونما ہوئیں، پہلی مرتبہ پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں اتنے بڑے پیمانے پر آن لائن تعلیم وتدریس کا سلسلہ شروع ہوا جو کچھ تلخ وشیریں تجربات کے ساتھ اب بھی جاری  ہے، بہت سارے مدارس نے آن لائن تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ ہرچند کہ اس کے لئے اساتذہ کی خاص ٹریننگ کی ضرورت تھی نیز دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سست رفتاری کے مسائل  تھے، اس کے باوجود یہ تجربہ کسی حد تک کامیاب رہا۔ تاہم اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے اور بہت سارے طلبہ کما حقہ اس سے استفادہ نہیں کر سکے۔ مدارس کو چاہئے کہ اس پہلو پر از سر نو غور کریں اور جائزہ لیں کہ کہاں پر خلل ہے؟
 ایک سروے (جو ضلع مئو کے ثانوی سطح کے اسکول ومدارس میں کیا گیا )کے مطابق ۸۶؍ فیصد اساتذہ مدارس آن لائن ایجوکیشن فراہم کرنے میں آن لائن سسٹم کو استعمال کرنے کیلئے مہارت کی کمی کی وجہ سے رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہیں، ۷۹؍ فیصد معلمین تکنیکی آلات سے ناواقف ہیں،  ۷۷؍ فیصد اساتذہ کے پاس ادارے کی طرف سے ہدایات کی کمی کی وجہ سے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ۸۶؍ فی صد اساتذہ کو درس گاہ میں معاشرتی تعامل کے فقدان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
(Barriers on Providing Online Eduction by Madrasa and School Teachers, by Shahbaz Ahamd 57, 58)
 یہ بھی واضح رہے کہ آن لائن تعلیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دروس ریکارڈ کر کے بھیج دیئے جائیں یا ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کر دیئے جائیں اور طلبہ انہیں ڈاؤن لوڈ کر کے سن لیں، بلکہ آن لائن تعلیم میں لائیو ٹیلی کاسٹ کا بطور خاص اہتمام ہونا چاہئے بایں طور کہ استاد درس دے اور تمام طلبہ براہ راست اس لیکچر کو سنیں ، جو سوالات ان کے ذہن میں ہوں وہ پوچھیں اور استاد ڈائرکٹ سوالوں کا جواب دے، یعنی کہ بالکل ویسی ہی فضا ہو جیسے درس گاہ میں بالمشافہ تدریس کا ماحول ہوتا ہے۔ آن لائن کلاسیز کے لئے بہت سارے فری ایپ بھی دستیاب ہیں۔علاوہ ازیں ایک مخصوص قیمت دے کر پیڈ ایپس بھی خریدے جاسکتے ہیں۔
  میرے خیال سے آن لائن تعلیم کا یہی درست طریقہ ہے۔ ہندوستان کی بہت ساری یونیورسیٹیاں اسی طریق پر کاربند رہی ہیں، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کا طرز تدریس یہی رہا ہے۔ مدارس کھلنے کے بعد اگر چہ آن لائن تعلیم کا سلسلہ موقوف ہو چکا ہے لیکن ارباب مدارس چاہیں تو اس پلیٹ فارم سے استفادہ کا سلسلہ منقطع نہیں ہو گا، ملک اور بیرون ملک سے علما، ماہرین تعلیم اور دیگر جامعات ویونیورسٹیز کے قابل اساتذہ کے آن لائن دروس ولیکچرزکے ذریعہ طلبہ واساتذہ کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
 کورونا اور لاک ڈاؤن سے قبل مدارس میں طلبہ کے لئے موبائل فون کا استعمال ممنوع تھا اور بڑی سختی سے اس پر عمل درآمد بھی ہوتا تھا، نہیں معلوم کہ مابعد کورونا، مدارس میں یہ پابندی برقرار ہے یا نہیں، اگر اب بھی طلبہ کے لئے اسمارٹ فون کی اجازت ہے تو انتظامیہ کو اس تعلق سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ عوام بالعموم اور طلبہ بالخصوص اسمارٹ فون کے استعمال میں بے حد لاپروا ہوتے ہیں، گھنٹوں سوشل میڈیا پر مغز ماری کرتے ہیں، فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، وہاٹس ایپ ، اسنیپ چیٹ اور ٹیلی گرام سمیت متعدد ایپس پر اپنا قیمتی وقت  برباد کرتے ہیںاور فضول اور لایعنی کنٹینٹ (مواد) کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وقت گزاری کے لئے مختلف گیمز کا بھی سہارا لیتے ہیں۔
 حالاںکہ اگر دیکھا جائے تو اسی اسمارٹ فون کے مثبت استعمال کے بیسیوں ذرائع موجود ہیں بلکہ اس وقت پوری دنیا الیکٹرانک ڈیوائسیز کو اپنے تعلیمی اور تدریسی امور کے لئے استعمال کررہی ہے اور اس سے خوب خوب استفادہ کررہی ہے۔ عربی،انگریزی، اردو، ہندی سمیت دنیا کی تمام زبانوں میں مواد موجود ہے۔  ای بک، ڈیجیٹل لائبریری ، پی ڈی ایف، ورڈ، صوتی کتب، آن لائن دروس ولیکچرز اور تعلیم وتدریس کے حوالے سے لاکھوں ویب سائٹز، غرض یہ کہ معلومات کا ایک بحربے کراں ہے جو انٹرنیٹ پر سیلاب کی صورت میں امڈا پڑا  ہے، مگر افسوس کا مقام ہے کہ طلبۂ مدارس بلکہ مسلم نوجوان اس سیلاب سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے خشکی کی طرف پناہ لیتے ہیں۔  اللہ کی اس عظیم الشان نعمت سے استفادہ کے بجائے لایعنی بلکہ فحش امور کے مشاہدے میں وقت برباد کرتے ہیں۔
 مدارس اسلامیہ کو جدید آلات سے استفادہ کی سمت میں پیش قدمی کرنی ہوگی اور ماڈرن ٹیکنالوجی سے مسلح ہوکر زمانے کے قدم سے قدم ملا کر چلنا ہو گا، اس کے لئے جن وسائل کی ضرورت ہو اسے مہیا کرنا ارباب مدارس کی ذمہ داری ہے، لیپ ٹاپ، پروجیکٹر، کمپیوٹر، ڈیجیٹل لائبریری سمیت بہتیرے آلات سے مدرسہ کو مزین کرنا اور طالبان علوم نبوت کیلئے ان سے استفادہ آسان کرنا وقت کی اہم  ضرورت ہے۔n
(مضمون نگار جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں
ریسرچ اسکالر ہیں)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK