Inquilab Logo Happiest Places to Work

یاد رہے، سوشل میڈیا کا ہر میسج ہمارے پاس امانت ہے

Updated: June 20, 2025, 4:24 PM IST | Dr. Mujahid Nadwi | Mumbai

ہمیں سوشل میڈیا کے پیغامات کو فارورڈکرنے کی اتنی عجلت رہتی ہے گویا وہ کوئی کارِ خیر ہو۔ اس عادت سے بچنا چاہئے۔ بغیر پڑھے اور جانچے فارورڈ کرنا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔

It is important to understand the nature of any message before forwarding it, whether jokingly or seriously. Photo: INN
کسی بھی میسج کو مذاقاً یا سنجیدگی میں آگے بھیجنے سے پہلے اس کی نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ تصویر: آئی این این

سوشل میڈیا آج ہماری زندگی کا ایک نیا میدان بن چکا ہے۔ ہم ایک حقیقی زندگی ( آف لائن) جیتے ہیں، لیکن اب ہماری ایک زندگی آن لائن بھی ہوچکی ہے۔ آج ایسی کون سی جگہ ہے جہاں ہم کو انسان اپنے اپنے موبائیل میں دھنسے ہوئے نظر نہیں آتے؟کئی کئی گھنٹوں تک سوشل میڈیا پر مشغول رہنا اب لوگوں کی عادت بن چکی ہے۔ جب سوشل میڈیاکا اس قدر استعمال بڑھے گاتو ظاہر سی بات ہے اس پر اَپ لوڈ ہونے والے مواد میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوگا۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سوشل میڈیا پر آنے والا ہر مواد اس لئے ہی ہوتا ہے کہ اس کو عام کیا جائے؟ اس لئے کہ یقیناً کچھ لوگ سوشل میڈیا پر جو مواد ڈالتے ہیں ان کا مقصد اس کو زیادہ سے زیادہ عام کرنا ہوتا ہے، لیکن کچھ لوگ جو خاص کر وہاٹس اپ جیسے ایپ پر مواد کسی کو ذاتی نمبر پر یا کسی مخصوص گروپ میں بھیجتے ہیں تو مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ان کا مقصداس کو ساری دنیا میں عام کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ کسی ایک فرد یا ایک گروپ تک محدود افراد کی حدتک اس کو عام کیا جائے تاکہ اس سے لوگ محظوظ ہوں، یا اس کا فائدہ پہنچے۔ اس میں خاص کر وہ پیغامات شامل ہوتے ہیں جن میں افراد اپنے خود کے متعلق کچھ پوسٹ کرتے ہیں۔ 
لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے پاس سوشل میڈیا پر اس طرح کے پیغامات کو جانچنے پرکھنے، ان کو روکنے یا ان کو آگے بھیجنے کے لئے کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ ہم کسی بھی میسج کو دیکھ کر فارورڈ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں اور اسی چکر میں بہت ساری مرتبہ ہم ایسے میسج بھی فارورڈ کردیتے ہیں جوبھیجنے والے کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ 
مثلاً کسی نے دوستوں کے گروپ میں غلطی سے اپنا بینک اکاؤنٹ ڈال دیا، کسی نے اپنی کوئی تصویر یا ویڈیو بھیج دی، کسی نے گھر کی تصویر یں ڈال دی، کسی نے اپنا درپیش سفر اور اس کی تفصیل عام کردیں، اب اس طرح کی معلومات کو سائبر کرائم والے افراد اور دیگر پیشہ ور مجرم غلط فائدہ اٹھانے کے لئے بہ آسانی استعمال کرسکتے ہیں۔ یا کسی نے اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ ہمیں بھیج دیا اب وہ نادانی میں کسی نے عام کردیا تو وہ شخص دعوت والے دن بن بلائے مہمانوں کی ٹولی کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔ 
اس لئے ہمیں سب سے پہلی تو یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ سوشل میڈیا کا ہر میسج ہمارے پاس امانت ہے۔ ہاں، جب صاحب پیغام ہی اس کو عام کرنے کا کہہ رہا ہو تو بات الگ ہے۔ اگر ہم بھیجنے والی کی جگ ہنسائی، یا رسوائی یا اس کو نقصان پہنچانے کے لئے اس کاپیغام عام کرتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کے رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’مجلسیں امانت ہیں مگر تین موقعوں پر، کسی کے ناحق قتل کی، یا آبروریزی کی یا کسی کا مال ناجائز طور پر لینے کی سازش۔ ‘‘ (سنن ابی داؤد) یعنی جو بھی بات مجلس میں کہی جارہی ہے وہ سننے والوں کے پاس ایک امانت کے طور پر رکھ دی گئی ہے، اب ان کو چاہئے کہ وہ رازداری برتیں، اور اس امانت کو اپنے سینے میں محفوظ رکھیں۔ لیکن سوشل میڈیا کے پہلے کے دورسے بھی ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی بھی راز عام کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی کو بتلایا جائے اور اس کو قسم دی جائے کہ تم کسی سے یہ راز بیان نہیں کروگے۔ تھوڑے ہی وقت میں وہ راز ہر خاص وعام کو معلوم ہوجاتا ہے۔ اسی انسانی فطرت کو توڑنے اور اس کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے لئے آپؐ نے راز افشائی سے منع فرمایا ہے۔ 
دراصل جس طرح کسی کا لا کر دیا ہوا سونا، چاندی، روپیہ پیسہ اپنے پاس بحفاظت رکھنا اور اس کا مالک جب کہے اس کو لوٹانا ضروری ہے، جس کو ہم امانتداری کہتے ہیں، اسی طرح کسی کے راز، کسی کی معلومات، کسی کے متعلق معلوم ہونے والی کوئی بات بھی عموماً امانت ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ڈالنے سے وہ کوئی بازار میں فروخت ہونے والی شے نہیں بن جاتی۔ اس لئے ان معلومات کو محفوظ رکھنا اور دوسروں تک اس کی افشائی نہ کرنا بھی امانت کے دائرے میں ہی آتا ہے۔ وہی امانت داری جس کے متعلق اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: ’’تو جو امین بنایا گیا ہے اس کو چاہئے کہ اپنی امانت ادکرے اور چاہئے کہ اپنے پروردگار اللہ سے ڈرے۔ ‘‘ (بقرہ: ۲۸۳) اسی طرح سنن بیہقی کی روایت میں ہے کہ آپؐ نےا رشاد فرمایا: ’’جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔ ‘‘ 
امانت کے اس تصور کو سمجھنے کے بعد اور اس کو اپنے احساس میں اچھی طرح جذب کرنے کے بعد ہر سوشل میڈیا استعمال کرنے والے شخص کو چاہئے کہ وہ کسی بھی میسج کو مذاقاً یا سنجیدگی میں آگے بھیجنے سے پہلے اس کی نوعیت کو سمجھ لے۔ اگر بھیجنے والے کا مقصد اس کو عام کرنا ہو اور اس سے کوئی مفید بات لوگوں تک پہنچتی ہو تو اس کو عام کرے اور اگر اس میں بھیجنے والے کی ذاتی معلومات ہوں جن کے عام ہونے کی صورت میں اس کو نقصان پہنچ سکتا ہے یا جن کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے تو رازداری اور امانتداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو اپنے پاس ہی روک لے۔ 
 اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ بھیجنے والے بھی ’’الحکمۃ ضالۃ المومن‘‘ (حکمت مومن کی متاعِ گم شدہ ہے) پر عمل کرتے ہوئے حکمت و دانشمندی، ہوشمندی، عقلمندی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سے جڑی ہر بات کو سوشل میڈیا پر وائرل نہ کریں۔ ابو الفضل المیدانی کی کتاب مجمع الامثال میں ایک مختصر واقعہ لکھا ہے کہ ’’عرب کے ایک دیہاتی سے پوچھا گیا: تمہارا اپنے راز چھپانے کا طریقہ کیا ہے؟ اس نے کہا تھا: میں اپنے ہر راز کی قبر ہوں۔ ‘‘مطلب یہ ہے کہ تاحیات میرے راز میرے ساتھ رہیں گے یہاں تک کہ میں قبر میں چلا جاؤں۔ 
 سوشل میڈیا کے اس ناز ک دور میں اپنی معلومات، اپنے حقائق، اپنے راز بھی اسی طرح اپنی قبر میں اپنے ساتھ لے جانا نہایت اہم اور ضروری ہے۔ ورنہ کب بات کا بتنگڑ بنے اور کب انسان کی ذاتی معلومات ہی اس کی رسوائی اور نقصان کا سبب بن جائیں، کوئی نہیں بتاسکتا، آج کے دور میں تو ہر ممکن احتیاط کو لازم رکھنا چاہئے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK