Inquilab Logo

یاد رہے!ووٹ ایک گواہی ہے اور جھوٹی گواہی کا گناہ تمام گناہوں سے بڑھ کر ہے

Updated: November 24, 2023, 1:25 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

دوسرے کے نام پر ووٹ دینا یامکرر ووٹ دینا ، صرف غیر قانونی کام ہی نہیں ہےبلکہ ایک غیرشرعی فعل بھی ہے اور اس کے لئے بھی انسان عند اللہ جواب دہ ہوگا۔

This is the real achievement for the voter that the one in favor of whom he has used the vote, was the most deserving of it. Photo: INN
ووٹر کے لئے یہی اصل کامیابی ہےکہ جس کے حق میں اس نے ووٹ کا استعمال کیا ہے،وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار تھا۔ تصویر : آئی این این

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اسلام کی حفاظت کیلئے طاقت بھر کوشش اور تیاری کا حکم دیا ہے: ( سورہ الانفال : ۶۰) قوت کا لفظ ایک جامع لفظ ہے، جس میں وہ تمام طاقتیں شامل ہیں ، جو نتائج اور فیصلوں پر اثرانداز ہو سکیں ، یہ طاقت فوج کی بھی ہوسکتی ہے، افرادی قوت اور تعداد کی بھی اور علم و دانش کی بھی۔ جو ممالک جمہوری طرزِ حکومت کے حامل ہیں ، ان کے یہاں ووٹ بھی ایک بڑی طاقت ہے، ووٹ کے ذریعہ بامِ اقتدار پر چڑھا جاسکتا ہے اور ووٹ ہی کے ذریعہ انسان کو بے پناہ بلندیوں سے اتھاہ پستیوں تک گرایا جاسکتا ہے، اس لئے ووٹ بھی ایک طاقت ہے، ایک نعمت ہے اور ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ 
ووٹ کے سلسلہ میں دو پہلوؤں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے: ایک یہ کہ موجودہ حالات میں بحیثیت مسلمان ہمارے لئے ووٹ دینا ایک مذہبی فریضہ کے درجہ میں ہے اورووٹ نہ دینا اسی درجہ کوتاہی کا ارتکاب ہے؛ کیوں کہ ووٹ ایک گواہی ہے اور جب حق کو حاصل کرنے اور ظلم کو روکنے کے لئے گواہی دینی ضروری ہو جائے، تب ملک میں مسلمان جس صورتِ حال سے دوچار ہیں ،اس سے پہلو تہی کرنا کسی طرح رَوا نہیں بلکہ قرآن مجید کی زبان میں یہ کتمانِ شہادت ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ (البقرۃ : ۲۸۳)
جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا اور تلبیس سے کام لینا عام حالات میں بھی گناہ ہے لیکن گواہی میں دھوکہ دہی عام جھوٹ اور دھوکہ کے مقابلہ زیادہ بڑا گناہ ہے، اس کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے، دوسرے کے نام پر ووٹ دینا ، مکرر ووٹ دینا، صرف غیر قانونی کام ہی نہیں ہے بلکہ ایک غیرشرعی فعل بھی ہے ، اور اس کے لئے بھی انسان عند اللہ جواب دہ ہوگا، اس لئے کہ اسلام ہرحال میں اخلاقی اقدار کو قائم رکھنے کی تعلیم دیتا ہے، خواہ لوگوں کے ساتھ معاملت ہو، سماجی زندگی ہو، یا سیاست کا میدان ، یہاں تک کہ معرکۂ جنگ۔ 
جمہوریت میں جہاں بہت ساری خوبیاں ہیں ، وہیں بعض خامیاں بھی ہیں ، اسلام ان خامیوں کی اصلاح کے ساتھ اس کو قبول کرتا ہے۔ سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں انتخاب میں حصہ لینے اور عوامی نمائندہ منتخب ہونے کے لئے نہ علم و دانش کی شرط ہے، نہ اخلاق و دیانت کی ضرورت۔ پہلے لوگ اس کا رونا روتے تھے کہ جاہل اور کم تعلیم یافتہ افراد منتخب ہوجایا کرتے ہیں اور ملک کے حساس مسائل کا فیصلہ زیادہ تر ناکندہ تراش افراد کے حوالہ ہوتا ہے، ہمارے ملک میں بعض ایسے اراکینِ مقننہ بھی تھے اور ہیں ، جو دستخط کی صلاحیت سے بھی بے نیاز ہیں اور نشانِ ابہام ہی سے کام چلاتے ہیں ، اب بات اس سے بھی آگے جاچکی ہے اور بڑی تعداد میں ایسے عناصر مجالس قانون ساز میں پہنچ رہے ہیں جو نامزد اور نامور مجرم ہیں ، ان پر قتل، زنا، غصب اور رہزنی کے علانیہ جرائم درج ہیں ، پہلے پولیس گرفتار کرنے کے لئے ان کا پیچھا کرتی تھی ،اب ان کی حفاظت اور سلامتی کے لئے ان کے پیچھے پیچھے رہتی ہے، کرپشن اور سیاست کا اب چولی دامن کا رشتہ ہے، اور اب کسی بھی لیڈر کے بارے میں اسکیم (گھوٹالہ) کی خبریں سن کر عام شہری کو کوئی حیرت نہیں ہوتی کیونکہ یہ اب ایک معمول کی بات ہے۔ 
جو لوگ الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں ، ان میں شاید ایک فیصد بھی ایسے نہیں جو حقیقت میں ایماندار کہلانے کے لائق ہیں ، جن کی زندگی پاک و صاف ہو اور عوام کی املاک میں خرد برد کرنے کا عزم لے کر اس میدان میں نہ اُترے ہوں ۔ ڈاکٹر راجندر پرشاد بارہ سال ہندوستان کے صدر رہے اور جب سبکدوش ہو کر اپنے وطن پٹنہ گئے تو ان کو رہنے کیلئے کوئی مکان بھی میسر نہیں تھا ، جواہر لال نہرو دارالمصنفین اعظم گڑھ کے رکن تھے، اس وقت رکنیت کی فیس پانچ سو روپے تھی، جب مولانا مسعود علی ندوی نہروجی سے ممبری فیس لینے گئے، تو ان کے پاس پانچ سو روپے بھی مکمل نہ ہو سکے اور دو قسطوں میں فیس ادا کی اور اپنی پاس بک دکھائی، جس میں دو ڈھائی سو روپے سے زیادہ نہ تھے؛ لیکن آج معمولی عوامی نمائندوں کے محلات پر قصر شاہی اورگھر کی زیبائش پر ’’ جنت ِشداد ‘‘ ہونے کا گمان ہوتا ہے اور پولیس چھاپہ مارتی ہے تو مَنوں سونےکےاورروپوں کے انبار ان کے مکان سے بر آمد ہوتے ہیں۔ 
ضروری ہے کہ آپ جب کسی اُمیدوار کے حق میں ووٹ دیں تو آپ اس بات کی گواہی دے سکیں کہ تمام اُمیدواروں میں یہی شخص آپ کے نزدیک اپنی دیانت و امانت، جذبۂ خدمت اور نمائندگی کی صلاحیت میں نسبتاً بہتر اور قوم و ملک کیلئے مفید ہے۔ کسی شخص کے بارے میں آپ کو اطمینان نہ ہو ، آپ کے علم میں ہو کہ یہ کرپٹ اور رشوت خورہے او ر قوم کی خدمت کے بجائے اپنے اور اپنے خاندان کی خدمت ہی اس کا مقصود ہے، اس کے باوجود آپ اسے ووٹ دیں ، یالوگوں کو اس کی ترغیب دیں ، تو اللہ تعالیٰ کے یہاں آپ اس بارے میں جواب دہ ہوں گے، اور جھوٹی گواہی دینے کا گناہ ہوگا ۔ یوں تو ہر جھوٹ برائی ہے لیکن جھوٹی گواہی کا گناہ، گناہ کی تمام صورتوں سے بڑھ کر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے بہت بڑے گناہوں میں سے ایک شمار فرمایا ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر ۲۶۵۴، صحیح مسلم، حدیث نمبر۸۷)
ووٹ میں اُمیدوار کی صلاحیت اور کردار کے بجائے محض اس بات کو معیار بنانا کہ یہ ہمارے محلہ کا ہے، ہمارے اس شخص سے تعلقات ہیں اس نے ہمارا فلاں ذاتی کام کر دیا تھا، یہ ووٹ دینے کیلئے ہمیں پیسہ دے رہا ہے، درست نہیں ہے۔ یہ خیانت اور جھوٹی گواہی ہے اور یہ پیسے رشوت ہیں ۔ہر شخص اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ ہے، ایسا شخص ایک دو افراد نہیں ؛ بلکہ پوری قوم کے ساتھ بد خواہی کا مرتکب ہورہاہے اس لئے ووٹ کے بارے میں خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے، تمام اُمیدواروں پر غور کرنا چاہئے، اُن کی گزشتہ زندگی اور عام لوگوں کے ساتھ اُن کے سلوک اور رویہ کا بھی جائزہ لینا چاہئے اور پھر جس اُمیدوار کو بہتر اور مفید تصور کرتا ہے، اس کے حق میں ووٹ دینا چاہئے۔
ووٹر کے لئے یہی اصل کامیابی ہےکہ جس کے حق میں اس نے ووٹ کا استعمال کیا ہے،وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار تھا، اگر وہ ہار گیا، تب بھی ’’ووٹ ‘‘ دینے والا اپنے مذہبی فریضہ اور قومی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں خیانت کا مرتکب تصور نہ کیا جائے گا، اور اگر ایسے اُمیدوار کو ووٹ دیا جائے، جو قوم کے لئے مفید نہیں ، مضر ہے ، تو گو کہ وہ اُمیدوار جیت جائے ، پھر بھی ایک مسلمان ووٹر کے لئے یہ ہار ہی ہے؛ کیوں کہ وہ اپنے اس غلط عمل کے بارے میں عند اللہ جواب دہ ہے اور خدا کی ترازو میں اس کا یہ عمل قابل مواخذہ ہے۔ 
موجودہ حالات میں ایسے امیدوار کو تلاش کرنا جو دیانت اور صدق وراستی کے معیار کومکمل طورپر پوراکرتاہو، جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ایسے مواقع پر شریعت کا اصول یہ ہے کہ اگر دوبرائیوں  میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کے سوا چارہ نہ ہو تو کم تردرجہ کی برائی کا انتخاب کیاجائے، فقہاء نے بے شمار احکام کی بنیاد اسی اصول پر رکھی ہے، اور آج کے حالات میں اس اصول کو اختیار کئے بغیر چارہ نہیں ہے۔
ہندوستان ایک کثیر مذہبی اورکثیر تہذیبی ملک ہے، اس ملک کی آزادی میں تمام طبقات کا حصہ رہاہے، اس کیلئے سبھوں  نے قربانیاں دی ہیں ، اورسب کے خون جگر سے مل کر اس سرزمین نےترقی کا سفر طے کیاہے، ملک کے دستور میں بھی اس کا لحاظ رکھا گیا ہے،مساوات،بھائی چارہ اور تہذیبی رنگارنگی ہمارے دستور کی روح ہیں ۔ ایسے میں ایک مذہب یا ایک تہذیب کی بالادستی دستور کی روح اوراس ملک کے معماروں کے خواب کے برعکس ہے، مگر افسوس کہ اس وقت بعض قوتیں دستور کی روح کے خلاف کام کررہی ہیں ، اور انہوں نے نفرت کو اپنا ایجنڈہ بنالیاہے۔ اکثریت، اقلیت، ہندو مسلمان، ہندو سکھ، ہندو کرسچین، مسجد مندر اور مندر چرچ وغیرہ کے نام سے وہ الیکشن کے میدان میں اترتے ہیں اوراپنی نااہلی کو چھپانے کیلئے فرقہ وارانہ جذبات کو ابھارکر اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ، ایسے عناصر سے بچنے کی ضرورت ہے، اس لئے ہمیں  کم تر برائی کو اختیار کرناچاہئے، اگرایک امیدوار نے اپنا فرقہ پرستانہ نقطۂ نظر واضح کررکھاہے، اوراسی کی بنیاد پر لوگوں سے ووٹ مانگ رہاہے،خواہ یہ خود ا س کی رائے ہو، یاجس پارٹی نے اس کو امیدوار بنایاہے، اس کامنشور ہو توایسے امیدوار کو ہرگز ووٹ نہیں دیناچاہئے کہ ایسا کرنا ملک اور قوم کے ساتھ بے وفائی ہے، اس کے مقابلہ ایسے امیدوار کوووٹ دیاجاناچاہئے جوکم سے کم اپنے منشور کے اعتبار سے ملک کے دستور سے وفاداری کا اظہار کرتاہواورملک کے تمام شہریوں کے ساتھ برابری اور انصاف کی بات کہتاہو، موجودہ حالات میں اس کالحاظ رکھنابے حد ضروری ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK