بی جے پی اس بل کو پاس کرانے کا دعویٰ کرکے اور اپوزیشن پارٹیاں یہ کہہ کر حکمراں بی جے پی ۲۰۲۹ء تک اس کا نفاذ ٹالنے کی کوشش کرکے خواتین کا حق مار رہی ہے انتخابی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔
EPAPER
Updated: September 29, 2023, 2:41 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
بی جے پی اس بل کو پاس کرانے کا دعویٰ کرکے اور اپوزیشن پارٹیاں یہ کہہ کر حکمراں بی جے پی ۲۰۲۹ء تک اس کا نفاذ ٹالنے کی کوشش کرکے خواتین کا حق مار رہی ہے انتخابی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں خواتین ریزرویشن بل منظور ہوچکا ہے مگر اس میں پسماندہ اور اقلیتی خواتین کو کوٹہ دینے اور ریزرویشن قانون کو ۲۰۲۴ء سے ہی نافذ کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں جو الیکشن ہوا تھا اس میں جاری منشور میں ہی موجودہ حکمراں پارٹی نے وعدہ کیا تھا کہ ہمیں ووٹ دو ہم خواتین ریزرویشن قانون نافذ کریں گے۔ وعدہ کرنے والی پارٹی جیت گئی مگر یہی نہیں کہ خواتین ریزرویشن بل پیش نہیں کیا بلکہ اس کو لسٹ بھی نہیں کیا۔ اگر وعدہ پورا کیا گیا ہوتا تو ۲۰۱۴ء میں جو لوک سبھا تشکیل دی گئی تھی اس میں ۳۳؍ فیصد یعنی ۱۸۰؍ خواتین جیت کر آئی ہوتیں۔ ۲۰۱۹ء میں جس لوک سبھا کی تشکیل ہوئی اس میں بھی ۱۴؍ فیصد خواتین ہی تھیں۔ اب جبکہ بل پاس ہوگیا ہے اس کو مردم شماری اور حد بندی سے مشروط کرکے ۲۰۲۹ء سے نافذ کرنے کی بات کہی جا رہی ہے۔ یہ ٹال مٹول ہے۔ ۸۰ء کے دہے میں راجیو حکومت پنچایت انتخابات میں ایک تہائی خواتین کو ریزرویشن دینے کا بل لائی تھی تو اس کی بنیادی سوچ یہی تھی کہ پنچایت انتخابات سے خواتین امیدواروں کے ذریعہ خواتین کی وہ قیادت تیار ہوگی جو اسمبلی اور پارلیمنٹ کیلئے خواتین امیدواروں کی کمی دور کرے گی۔ ۹۰؍ کے دہے کے درمیان میں خواتین ریزرویشن بل پیش بھی کر دیا گیا اس کے باوجود وہ قانون نہیں بن سکا تو بس ایک ہی وجہ تھی کہ تقریباً سبھی سیاسی پارٹیاں مرد اساس سوچ اور قیادت کی حامی تھیں۔
اب جبکہ خواتین ریزرویشن بل پاس ہوچکا ہے اور تقریباً تمام پارٹیوں نے اس کی پُر زور حمایت کی ہے الگ الگ انداز میں ایسی باتیں بھی کہی ہیں جن سے ان کا حکمراں جماعت سے مختلف ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ کانگریس نے او بی سی یعنی پسماندہ برادریوں یا طبقات کو الگ سے ریزرویشن دینے کی بات کہی ہے۔ سماج وادی، راشٹریہ جنتا دل اور مجلس اتحاد المسلمین نے اقلیتی طبقے کی خواتین کو بھی ریزرویشن دینے کا مطالبہ کیا ہے مگر کانگریس اقلیتوں کی حامی کہلانے سے کترا رہی ہے۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ بی جے پی اس بل کو پاس کرانے کا دعویٰ کرکے اور اپوزیشن پارٹیاں یہ کہہ کر حکمراں بی جے پی ۲۰۲۹ء تک اس کا نفاذ ٹالنے کی کوشش کرکے خواتین کا حق مار رہی ہے انتخابی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔
تاریخی تناظر میں کہہ سکتے ہیں کہ خواتین ریزرویشن کا معاملہ کبھی بھی سیاسی مفادات سے الگ کرکے نہیں دیکھا گیا۔ تحریک آزادی میں خواتین کی اچھی نمائندگی ہوئی مگر آزادی کے بعد پارلیمنٹ کے کسی ایوان میں ان کو مناسب نمائندگی نہیں دی گئی۔ ۱۹۷۷ء میں جے پرکاش نارائن کی قیادت میں جو تحریک شروع ہوئی اور حکومت بدلی تب بھی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی محض ۳ء۵؍ فیصد تھی۔ آج لوک سبھا میں ۱۵؍ فیصد اور راجیہ سبھا میں ۱۳؍ فیصد ہے۔ اس ۱۵؍ فیصد اور ۱۳؍ فیصد میں بھی پسماندہ اور اقلیتی طبقات سے تعلقات رکھنے والی کتنی خواتین پارلیمنٹ میں ہیں اس کی تفصیل یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ آزادی کا فائدہ بشمول خواتین سماج کے ہر طبقے کو نہیں ملا ہے۔ موجودہ بل پاس بھی ہوا ہے تو اس میں پسماندہ اور انتہائی پسماندہ اور اقلیتوں کے لئے کوئی ضمانت نہیں ہے۔ نفاذ بھی ۲۰۲۹ء میں ہی ہوسکے گا۔ موجودہ صورت میں بھی یہ بل کن رکاوٹوں کے بعد پاس ہوسکا ہے اس کا اندازہ اس تفصیل سے ہوتا ہے کہ:
پہلی مرتبہ یہ مسودہ قانون ۱۹۹۶ء میں تیار کیا گیا تھا مگر اپوزیشن نے اس کو پیش ہی نہیں کرنے دیا تھا۔
۱۹۹۸ء میں اندر کمار گجرال وزیراعظم تھے انہوں نے یہ بل پیش کرنے کی کوشش کی تو ان کی پارٹی اور کابینہ کے لوگوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ٭ اسی سال اٹل بہاری واجپئی حکومت بنی اور اس نے بھی اس کو پاس کرانے کی کوشش کی مگر ایک سیاسی پارٹی کے اراکین نے مسودہ قانون کے ساتھ وزیر قانون تھنبی دورئی کی قمیص بھی پھاڑ ڈالی تھی۔ مطالبہ یہی تھا کہ پسماندہ طبقات کو بھی ریزرویشن ملنا چاہئے۔
۲۰۰۰ء میں مسودہ قانون دوبارہ پیش کر دیا گیا مگر پاس نہیں کرایا جاسکا۔ ٭ ۳؍ مارچ ۲۰۰۲ء کو وزیراعظم واجپئی نے کل پارٹی میٹنگ بلائی اور خواتین ریزرویشن پر اتفاق رائے بنانے کی کوشش کی مگر سماج وادی اور آر جے ڈی کے اراکین پسماندہ طبقات کو ریزرویشن دیئے جانے کے اپنے مطالبے پر اڑے رہے اس لئے اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔
یو پی اے حکومت جس کی قیادت ڈاکٹر منموہن سنگھ کر رہے تھے، نے بھی کوشش کی مگر صرف راجیہ سبھا میں ہی پاس کراسکی۔
اب یہ مسودہ قانون مودی حکومت لے کر آئی اور یہ لوک سبھا میں پاس بھی ہوگیا تو حکمراں جماعت نے اس کے نفاذ کو ۲۰۲۹ء تک ٹالنے، کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے یہ کہہ کر یہ مسودہ قانون سب سے پہلے راجیو گاندھی نے پیش کیا تھا اور سماج وادی، آر جے ڈی اور مجلس اتحاد المسلمین نے ایک بار پھر پسماندہ اور اقلیتی طبقات کے حق میں مطالبہ کرکے سیاست کو تیز کر دیا ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ جو آئی ایس افسران ملک کو چلا رہے ہیں ایک خبر کے مطابق، ان کی تعداد ۹۰؍ اور ان میں پسماندہ طبقات (او بی سی) سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد محض ۳؍ ہے۔ منموہن سنگھ، ملائم سنگھ اور لالو پرساد نے انتظامیہ میں پسماندہ طبقات کی تعداد بڑھانے کے سلسلے میں کیا کیا؟ مجلس اتحاد المسلمین سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ جب بابری مسجد شہید ہوئی اس وقت مرکز میں چیف یا کابینی سیکریٹری کون تھا اور سپریم کورٹ کی جس آئینی بینچ نے مندر کے حق میں فیصلہ دیا کیا اس میں مسلمان جسٹس نہیں تھے؟ اس لئے او بی سی اور اقلیت کیلئے ریزرویشن میں حصہ کا مطالبہ برحق مگر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ایسا نہ ہو کہ او بی سی اور اقلیت کو ریزرویشن دے کر حصہ پانے والوں سے ہی او بی سی اور اقلیت کے مفاد کیخلاف فیصلہ کرا دیا جائے۔
مردم شماری ۲۰۲۱ء میں ہونی چاہئے تھی۔ ۲۰۱۹ء میں اس کیلئے گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا تھا مگر کورونا کے سبب یہ نہیں ہوسکی۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو یہ مردم شماری ۲۰۲۷ء میں ہوگی اور ڈجیٹل ہوگی۔ اس کے بعد نئی مردم شماری کی بنیاد پر لوک سبھا کے حلقے بنائے جائیں گے اور تب ریزرویشن دیا جائیگا۔ جو بل پاس ہوا ہے اس کے نام میں ’’وندن‘‘ نام شامل ہے۔ کسی مذہبی جماعت نے اس پر اعتراض نہیں کیا ہے مگر بنارس میں وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ وندن اور بندنا کچھ لوگوں کیلئے مسئلہ ہے۔ مسئلہ ہے تو اس کا حل تلاش کیا جانا چاہئے اعتراض کرنے والوں کا مذاق نہیں اڑانا چاہئے۔ ہمیں بھی اعتراض ہے ہماری سوچ یہ ہے کہ خواتین ریزرویشن قانون میں وندن کا نہیں ادھیکار کا لفظ ہونا چاہئے۔ خواتین کے جس حق کیلئے ۳۰؍ سال لڑائی لڑی گئی اس قانون میں حق کا لفظ نہ ہونا المیہ ہے اور اس کے نفاذ کو ۶، ۷؍ سال ٹال دینا اس سے بڑا المیہ۔