Inquilab Logo Happiest Places to Work

استاد کی تعظیم عملی زندگی میں کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کرتی ہے

Updated: September 05, 2020, 11:34 AM IST | Sumaiyyah Qureshi | Mumbai

پانچ ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جاتا ہے۔ڈاکٹر رادھا کرشنن کی یاد میں منایا جانے والا یہ دن ان کی پیدائش کا دن ہے۔تعلیم کو عام کرنے کا سہرا ان ہی کے سر جاتا ہے کیونکہ وہ ہندوستان میں تعلیمی میدان کے پہلے استاد بنے۔ڈاکٹر رادھا کرشنن ہندوستان کے دوسرے صدر جمہوریہ اور ماہر تعلیم بھی تھے۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

پانچ ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جاتا ہے۔ڈاکٹر رادھا کرشنن کی یاد میں منایا جانے والا یہ دن ان کی پیدائش کا دن ہے۔تعلیم کو عام کرنے کا سہرا ان ہی کے سر جاتا ہے کیونکہ وہ ہندوستان میں تعلیمی میدان کے پہلے استاد بنے۔ڈاکٹر رادھا کرشنن ہندوستان کے دوسرے صدر جمہوریہ اور ماہر تعلیم بھی تھے۔اس دن کو پورے ملک میں بڑی خصوصیت کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔تعلیمی مراکز میں تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ’’استاد‘‘ بظاہر کتنا چھوٹا اور مختصر لفظ ہے مگر اپنے اندر عزت و عظمت کی اتنی ہی زیادہ گہرائی و گیرائی سمیٹے ہوئے ہےکہ یوں لگتا ہے جیسے والدین کے بعد اللہ جل شانہ نے استاد کا درجہ رکھ کر کما حقہ اس کی شان و مرتبہ کو قائم رکھا ۔اس کے وقار کا سکہ سارے عالم پر جمادیا۔یہ میری خوش نصیبی تھی اور اللہ کا احسان کہ اس نے مجھے بے حد معزز و مکرم اساتذہ کی شاگردی عطا کی۔مجھے بچپن سے ہی بہت مخلص اور بہترین اساتذہ ملے۔ چاہے وہ اسکول کے ہوں ‘ مدرسہ کے ہوں ‘ کالج کے ہوں یا پھر یونیورسٹی کے ہوں ۔ہمیں بچپن میں ہی ہمارے بڑوں نے سکھا دیا تھا کہ استاد ایک نہایت قابل احترام شخصیت ہوتی ہے۔ چاہے وہ عمر میں بڑا ہو یا چھوٹا ہو‘ مذکر ہو یا مونث ہو، کسی اسکول یا مکتب کا ہو جس کا ادب اور فرماں برداری کرناہم پر واجب ہے۔
 استاد کی اسی تعظیم و اطاعت گزاری کی وجہ سے انسان کہاں سے کہاں پہنچادیا جاتا ہے اس کا ادراک اس وقت ہوتا ہے جب وہ زندگی میں کسی بہتر مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ بعض اوقات والدین سے زیادہ توجہ ‘ حوصلہ ‘اعتماد‘ ترقی اور ہمت اساتذہ عطا کرتے ہیں اور یہ صرف میرا کہنا یا ماننا نہیں ہے بلکہ ہر اس غریب اور متوسط طبقہ کے طالب علم کی حقیقت ہے اور ہر اس دقیانوسی سوچ و عمل کے گھرانے سے وابستہ شاگرد کا المیہ ہے جہاں بچوں کو صرف تعلیمی مراکز میں داخلہ دلوا کر پلٹ کر خبر بھی نہیں لی جاتی کہ ہمارا بچہ کیا اور کہاں پڑھ رہا ہے؟ اسے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ کون سی بات اس کے بہتر کل کے لیے خوش آئند ہو سکتی ہے؟ ان تمام ڈرے سہمے‘ دبے دبکے اور اعتماد سے خالی شاگردوں کو اساتذہ کا یقین‘ ترغیبی برتاؤ و اقوال او رانسیت بنا خوف کے اعتماد کے ساتھ زندگی کے کئی اہم معاملات سے روشناس کراکے انھیں ترقی کی راہوں پر گامزن کردیتی ہے۔امیر اور اعلیٰ طبقہ ان باتوں سے کسی حد تک دور نظر آتا ہے ۔
 استاد کی روک ٹوک‘ ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہ بھی ہمارے لیے عمدہ تربیت کا نمونہ بن جاتی ہے۔اگر ہم اس کو مثبت انداز میں لے کر غلطی کو سدھار لیں تو وہی کڑوی دوا (مرادپھٹکار) ہمارے لیے مشعل راہ ثابت ہوتی ہے جس کی روشنی میں ہمیں بہت کچھ کرنے اور مزید خطاؤں سے بچنے کے وسائل دکھائی دیتے ہیں ۔اکثر طلبہ ڈانٹ ڈپٹ سے خوفزدہ رہتے ہیں لیکن اس آلہ کا استعمال بہت کم اساتذہ کرتے ہیں ۔ باقی تو بہت سمجھداری کے ساتھ اپنے شاگردوں سے پیش آتے ہیں اور انہیں وہ خود اعتمادی عطا کرتےہیں جو شاید دنیا میں کہیں اور سے حاصل نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ استاد کو ہر دور میں اور ہر معاشرے میں سب سے اعلیٰ و مقدم مقام دیا گیا ہے۔ 
  استاد ایک مشفق مربی کی طرح اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے اچھے اور برے کی فکربھی کرتا ہے۔انھیں مفید مشوروں سے نوازتا ہے۔ ان کی ہر کام میں مدد کرتا ہے۔ اس کے مسائل حل کرنے میں مدد کرتا ہے ،طالب علم کی نفسیات پر بھی مثبت انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ہم نے ہر جگہ اپنے استادوں کو ہر وقت ہماری رہنمائی کے لئے کمر بستہ پایا چاہے وہ ہمیں کوئی مضمون پڑھاتے ہوں یا نہیں پڑھاتے ہوں ۔یہی منفرد اور اپنائیت والا انداز ہمیں یہ کہنے پر مجبور کردیتا ہے کہ سارے اساتذہ ہمارے ہیں اور ہمیں سب سے لگاؤ ہے۔
 کبھی کبھی کسی استاد کی عقیدت اور محبت طالب علم کو اس منصب اعلیٰ پر پہنچادیتی ہے جس تک رسائی دوسروں کا خواب اور ارمان ہوتا ہے اور جس کا گمان اس طالب علم کو خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتا ہاں ارادہ اور چاہ ضرور ہوتی ہے۔ یہ حصولیابی کی جستجو و لگن استاد فراہم کرتا ہے۔اکثر یہ سوچ دامن گیر ہوجاتی ہے کہ اگر ہمیں ایسے استاد نصیب نہ ہوتے تو ہمارا ٹھکانہ کیا ہوتا ؟ اساتذہ کا ایک اضافی کمال یہ بھی ہے کہ وہ صرف ان کے ذمہ سونپا گیا مختصر اور منتخب نصاب کو پڑھا کر یا مکمل کر کے اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوجاتےبلکہ اس سے علاحدہ ہر موضوع میں بنا جتائے ان کی اعانت کرتے ہیں ۔ہر طالب علم کے مسئلہ کا بہتر حل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ان کے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دینے کی سعی کرتے ہیں ۔وہ کبھی بھی اپنے طلبہ کو قنوطیت اور ہار کے حوالے نہیں کرتے۔اپنی مقدور بھر محنت و توجہ کے ذریعے طمانیت سے ہمکنار کرتے ہیں ۔وہ اپنی حوصلہ افزا باتوں سے طلبہ کی ذہنی الجھنوں اور ظاہری رکاوٹوں کو مات دے دیتے ہیں ۔کبھی کبھی استاد کے چند جملے شاگردوں کو پستی کی تاریکی سے اٹھا کر بلندی کی تابناک سطح پر بٹھا دیتے ہیں ۔
 اساتذہ انھیں پیچیدہ معاملات میں ایسی قیمتی آرا دیتے ہیں جو انھیں زندگی کے ہر موڑ پر کام آئیں ۔اساتذہ کے نصائح بہترین مستقبل کا پیش خیمہ ہوتے ہیں ۔طلبہ کو غلط اور مضر راستوں اور فیصلوں سے محفوظ کرتے ہیں ۔بعض دفعہ اساتذہ‘ شاگردوں کے نفسیاتی پہلوؤوں کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے ان ہی کے مطابق صلاح دیتے ہیں ۔وہ اپنے طلبا سے جذباتی طورپر اس طرح منسوب ہوجاتے ہیں گویا کہ ہر بچہ ان کا اپنا بچہ ہے۔یہ بھی مشاہدہ ہے کہ اساتذہ کمزور و نادار طلبا کی اس طریقہ سے نگہداشت کرتے ہیں کہ وہ اپنی ناتوانی کے باوجود زندگی کے مشکل اور بڑے مقصد کو پالیتے ہیں ۔
 بنیادی طور پر تمام اساتذہ مندرجہ ذیل خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں ۔جو ہر طالب علم کوٹھیک سے اچھا اوراچھے سے بہتر بنادیتی ہیں ۔
 طلبا کو اپنے سے جوڑے رکھنے کی صلاحیت۔
 طلباکی صلاحیتوں کو ابھارنا۔
طلبا کی خامیوں و کمیوں کو ممکنہ حد تک دور کرنے کی کوشش کرنا۔
طلبا کو احساس کمتری سے نکالنا۔
 طلبا کے لیے مثبت رویہ‘حوصلہ افزائی ‘تعریف وغیرہ جیسے آلہ کار ۔
صبر‘متانت ‘ برداشت اور بردباری کا ہمیشہ مظاہرہ کرنا۔
 کسی بھی طالب علم کی زندگی میں استاد کا ایک الگ اور اہم مقام ہوتا ہے کیونکہ جہاں ماں باپ بچوں کی جسمانی نشوونما میں اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں بالکل اسی طرح استاد روحانی تعلیم و تربیت میں اپنا سب کچھ وار کر بچوں کو ذہنی ترقی و بالیدگی عنایت کرتا ہے اور اسے عملی زندگی کے قابل بناتا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺنے استاد کو روحانی باپ کا درجہ عطا فرمایا ہےجو کہ بر حق ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK