Inquilab Logo Happiest Places to Work

مساجد کا احترام دینی واخلاقی فریضہ ہے

Updated: March 10, 2023, 11:02 AM IST | Dr. Muhammad Hussain Mashahid Rizvi | Mumbai

مسجد کا احترام اور امام مسجد کا ادب دونوں ہی باتیں ہمارے لئے بہت ضروری ہیں۔ مسجد اللہ کا گھر اور امام ہمارا دینی رہنما ہوتا ہے۔ احادیث میں مسجد کے ساتھ ساتھ امام کی بھی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔

Mosques are for the worship and remembrance of Allah, one should avoid discussing worldly matters here
مساجد اللہ کی عبادت اور ذکر کے لئے ہیں ، یہاں دنیاوی امور پر بحث و مباحثہ کرنے سے بچنا چاہئے


 مسجد کا احترام اور امام مسجد کا ادب دونوں ہی باتیں ہمارے لئے بہت ضروری ہیں۔ مسجد اللہ کا گھر اور امام ہمارا دینی رہنما ہوتا ہے۔ احادیث میں مسجد کے ساتھ ساتھ امام کی بھی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔ 
 مسجد بستی کی سب سے بہتر جگہ ہے۔ اس کا ادب ہم پر لازم ہے۔ مسجدیں عبادت اورذکر کے لئے ہیں۔یہاں دنیاوی باتوں سے بچنا ضروری ہے، چیخنا چلا نا ویسے بھی اچھا عمل نہیں ہے، تو مسجد میں تو اس سے بچنا اور بھی بہترہے۔ دھیمی آواز میں ٹھہر ٹھہر کر بات کرناسامنے والے کے دل میں جگہ بنا لیتا ہے۔ گھر ہو یا بازار، مسجد ہو یا مدرسہ ہر جگہ ہمیں اپنی آواز پست رکھنا چاہئے۔ آج جب مسجدوں کی میٹنگیں ہوتی ہیں تو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے مسجد میں آوازیں بلند ہو تی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی جو نشانیاںبیان فرمائی ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مسجدوںمیں آوازیں بلند ہونے لگیں گی۔ احادیث میں جہاں مسجد وں کو آباد کرنے اور ان کی خدمت کرنے کی فضیلتیں آئی ہیں وہیں مسجدوں کی بے حرمتی کرنے کے بارے میں سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔ 
  آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر کسی شخص کی مسجد میں آمد ورفت رہتی ہے تو تم اس کے ایمان کی گواہی دو۔‘‘ صرف مسجد میں آنے جانے پر اس کے ایمان کی گواہی کی تعلیم دی گئی ہے،تو سوچئے اگر کوئی مسجد کی خدمت میں مصروف رہتا ہو تو اس کے کیا فضائل ہوںگے؟ کسی کو مسجد کی خدمت نصیب ہوجائے تو یہ ایک بڑی نعمت ہے، اس پر جس قدر شکر کیا جائے کم ہے۔ 
 آج مسجدوں کے ذمہ داران مساجد کی دیکھ بھال میں بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ رنگ روغن، سجاوٹ، لائٹ، پنکھے، اے سی اور دوسری چیزوں کا خوب انتظام کرتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسی باتیں بھی کر بیٹھتے ہیں جن سے بچنا ضروری ہوتا ہے، اگر ان باتوں سے پرہیز کیا جائے تو مسجد کیلئے ان کی خدمت کا ثواب اور زیادہ ہوجائے گا۔ 
 حضرت مولانا سید شاہ غلام محی الدین فقیر عالم قادری برکاتی مارہروی قدس سرہٗ اپنی کتاب ’’رسالۂ مباحث امامت‘‘ میں مساجد کی تعظیم کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’آج کل لوگ مساجد کی بہت ہی بے ادبی کرتے ہیں ۔کوئی اُن میں سوتا ہے، کوئی تمام دنیا بھر کے مشورے سود و غیرہ کے معاملات تک وہیں چکاتا ہے، کوئی گھر گرہستی کا سامان وہیں جمع کئے اُن کو گھر بنائے بیٹھا ہے۔ غرض دنیا بھر کے معاملات ہنسی، دل لگی، مذاق سب وہیں ہوتے ہیں اور تو اور اب یہ طریقہ نکلا ہے کہ کوئی حاکم نیا آیا تو اس کی خوش آمدید مسجد میں ہی کی گئی، کسی حاکم نے دنیا سے کوچ کیا اس کی تعزیت کا جلسہ مسجد ہی میں منعقد ہوا۔ ارے بھائیو، کچھ تو خدا سے ڈرو! آخر ایک دن مروگے جب اللہ ان باتوں سے سوال کرے گا فرمائے گا کہ مسجدیں میرے ذکر کے لئے بنائی گئی تھیں تم نے یہ فعل اُن میں کس کی اجازت سے کئے ؟ تو کیا جواب دوگے ؟ کیا اُس وقت یہ حکام تمہاری سفارش اللہ تعالیٰ سے کرسکیں گے ؟ ہر گز نہیں !مسجد کو بدبو کی چیزوں سے بچانا فرض ہے جیسے مٹی کا تیل وغیرہ۔ مسجد کو چوپالیں نہ بنائیں، اُن کی بہت قدر کریں وہاں پلنگ وغیرہ نہ بچھائیں، اللہ سے ڈریں، قیامت کا قرب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو اپنے اور اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت عطا کرے اور ایمان پر ہماری زندگی اور خاتمہ کرے، آمین ! ‘‘ 
  کبھی کبھاردیکھنے میں آتا ہے کہ مسجد وں میں مسجدسے متعلق باتوں کے لئے کی جانے والی میٹنگوں میںبات چیت کرتے کرتے دنیاوی باتیں اورہنسی و مذاق بھی شروع ہوجاتی ہے۔ اس سے بچنا چاہئے۔ مسجد کا ادب اور احترام کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا احادیث کی روشنی میں مساجد میں دنیاوی باتوں کے احکام بیان کئے جاتے ہیں۔ مسلمان انہیں پڑھیں، سنیں اور ان پر عمل کریں :
  مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا نیکیوں کو اس طرح کھاجاتاہے جیسے آگ لکڑی کو۔ فتح القدیر میں ہے :’’ مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا مکروہ ہیں اور ایسا کرنا نیکیوں کو کھاجاتاہے۔ ـ‘‘ امام عبداللہ نسفی نے مدارک شریف میں حدیث نقل کی ہے کہ : ـ ’’مسجد میں دنیا کی باتیں نیکیوں کو اس طرح کھاجاتی ہے جیسے چوپایہ گھاس کو۔‘‘ غمزالعیون میں خزانۃ الفقہ سے ہے :’’ جو مسجد میں دنیا کی بات کرے اللہ اس کے ۴۰؍ برس کے عمل اکارت فرما دے۔‘‘ حدیقۂ ندیہ شرح طریقۂ محمدیہ میں ہے کہ: ’’جو لوگ غیبت کرتے ہیں اور جو لوگ مسجد میں دنیا کی باتوں میں مصروف ہوتے ہیں ان کے منہ سے و ہ گندی بو نکلتی ہے جس سے فرشتے اللہ عزو جل کے حضور شکایت کرتے ہیں۔‘‘
  حجۃ الاسلام امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی ؒ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں :’ ’ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، جو مسجد میں بیٹھتا ہے وہ اپنے رب کی ہم نشینی کرتا ہے تو اس کے حق میں بہتر یہی ہے کہ خیر کے سوا کوئی گفتگو نہ کرے۔‘‘
  اس سے معلوم ہوا کہ خداوند ِ قدوس کی بارگاہ میں کسی اور طرف متوجہ ہونا، دنیا کی باتیں کرنا یقیناً بے ادبی ہے۔ خود دنیا میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی بڑے آدمی کی خدمت میں حاضر ہوکر اگر کوئی نوکر یا خادم، مرید یا شاگرد دوسرے کسی شخص سے باتیں کرنے لگے یا اپنی توجہ دوسری طرف موڑ دے تو یہ بے ادبی میں شمار کیا جاتا ہے۔ تو بارگاہِ رب العلا جو سب سے اعظم و اکبر، افضل و اشرف اور بڑی بارگاہ ہے، وہاں پہنچ کر تو صرف اسی کا ذکر ہونا چاہئے، اسی کی حمد ہونی چاہئے، اسی کی تسبیح ہونی چاہئے، اسی کی بات ہونی چاہئے نہ کی دنیا کی فضول باتیں!
  مختصر یہ کہ مساجد میں دنیاوی باتوں کا حد درجہ وبال دنیا کی باتیں کرنے والوں پر ہوتا ہے۔ نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔اللہ عزو جل کو ایسے افراد سے کوئی کام نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ان وعیدوں اور وبال سے محفوظ رہنے اور اپنی مختصر سی نیکیوں کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے مسجدوں میں دنیاوی باتوں سے بچے رہیں۔مساجد کو چوپال نہ بنائیں بلکہ مساجد میں صرف اور صرف خیر، بھلائی اور نیکی کی باتیں کریں۔ نماز، تلاوتِ قرآن، ذکر و اذکار، تسبیح و تہلیل اور عبادت و ریاضت میں مصروف رہیں کہ اسی میں دنیاا ور آخرت کی نجات ہے۔ اللہ عزو جل ہمیں نیک کاموں کی توفیق بخشے اور رسول اللہ ﷺ کی سنتوں پر عمل کا مخلصانہ جذبہ عطا فرمائے۔ ریاکاری کی ہولناک بیماری سے دور فرمائے۔ آمین۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK