• Tue, 09 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سچن تنڈولکر کا خیال،کرکٹ کی تہذیب کا خیال ہے

Updated: November 04, 2025, 3:41 PM IST | Professor Sarwar Ul Huda | Mumbai

ممتاز ہندوستانی کھلاڑیوں میں ایک نام بلاشبہ سچن تنڈولکر کا ہے مگر عموماً اُنہیں صرف کرکٹ کے نقطۂ نظر سے دیکھا جاتا ہے او ر اُس شخص کو فراموش کردیا جاتا ہے جس کا نام سچن ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

یہ عنوان ماسٹر بلاسٹر کہلائے جانے والے مایہ ناز کرکٹ کھلاڑی سچن تنڈولکر کی زندگی سے بھی وابستہ ہے اور کرکٹ سے بھی۔ مجھ جیسے بہت سے لوگوں  کا ذہنی ارتقاء تنڈولکر کے کرکٹ کے ارتقائی سفر کے ساتھ ہوا ہے۔ اس عرصے میں  نہ جانے رنوں  کی کتنی بارش ہوئی اور کتنی وکٹیں  گریں  مگر نگاہ میں  وہی مناظر ہیں  جن کا تعلق اس چھوٹے قد کے بڑے کھلاڑی کے کھیل سے ہے۔ 
 سچن تنڈولکر کی شخصیت نے کرکٹ کی تہذیب بھی سکھائی اور رنوں  کی بارش میں  بھیگنے کا احساس بھی دلایا۔ جب بارش کی بوندوں  سے میدان کی زمین نم ہو جاتی، تنڈولکر کی نگاہ اس وقت بھی رنوں  کو تلاش کر لیتی تھی۔ یعنی اس گھاس کی نمی کے ساتھ گیند کس رفتار سے باؤنڈری کی طرف جائے گی۔ سچن کو میدان میں  آتے ہوئے اور میدان سے جاتے ہوئے، دیکھنے کا جو تجربہ تھا اس میں  بھی کھیل کے تئیں  خلوص اور جذبے کے ساتھ ساتھ ایک انسانی قدر پوشیدہ تھی۔ نگاہ ناظرین اور اپنے چاہنے والوں  کی طرف جاتی تو تھی مگر فوراً ہی اپنی طرف لوٹ آتی تھی۔ مخالف ٹیم کو بھی یہ احساس رہتا تھا کہ ایک عظیم کھلاڑی میدان میں  تہذیب کا استعارہ بھی ہے۔ سچن تنڈولکر کی طبیعت میں  جو خاموشی تھی وہ ان کی داخلی شخصیت کا اہم ترین حوالہ ہے، جو ایک دم سے گیند کے ساتھ فعال ہو جایا کرتی تھی۔ 
 قائم چاند پوری کا شعر یاد آتا ہے:
موافقت کی بہت شہریوں  سے میں  لیکن 
وہی غزال ابھی رَم رہا ہے آنکھوں  میں  
کرکٹ کے تعلق سے جب کوئی مشکل وقت دکھائی دیتا ہے تو میں  سچن تنڈولکر کی کتاب `’’پلے انگ اٹ مائی وے‘‘ (جسے خود نوشت بھی کہا جا سکتا ہے) پڑھنے لگتا ہوں ۔ کتاب کے نام پر اگر غور کیا جائے تو اس میں  غرور کے بجائے اپنی روش پر اعتماد دکھائی دے گا یعنی مجھے اپنی روش پر اعتماد ہے اور میں  اسی راہ پر گامزن ہوں  اور یہ راہ دوسروں  کے لیے رکاوٹ نہیں  ہے۔ اس کتاب میں ، جس کا اجراء ۵؍ نومبر ۲۰۱۴ء کو ممبئی میں  ہواتھا، کئی ایسے جملے اور اقتباسات ہیں  جنہیں  پڑھنے اور دہرانے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا تعلق نہ صرف کرکٹ کی تاریخ بلکہ اس کی تہذیب سے بھی ہے۔ کھیل کی وہ تہذیب جو مقابل ٹیم کے سامنے چیلنج کی صورت میں  ضرور تھی لیکن  وہ انسانی اقدار سے بھی وابستہ تھی۔ ایک جگہ وہ  لکھتے ہیں : ’’اگر آپ انکسار کے ساتھ رہیں  گے تو لوگ آپ کو کھیل ختم کرنے کے بعد بھی محبت اور عزت دیں  گے۔ والدین کے طور پر مجھے یہ سن کر زیادہ خوشی ہوگی کہ ’لوگ کہیں  کہ سچن ایک عظیم کرکٹر ہیں ‘کے مقابلے میں ’سچن ایک اچھے انسان ہیں ‘۔‘‘ عظیم کرکٹر کے مقابلے میں  عظیم انسان کی وکالت اور حمایت کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جو سچن کو ہماری کرکٹ کی تہذیب کا رازداں  ثابت کرتا ہے۔ 
 اگر غور کیا جائے تو انسان کی یہ عظمت کرکٹ کی عظمت کے ساتھ داخلی طور پر ایک رشتہ قائم کر لیتی ہے۔ مخالف ٹیم کے سامنے اپنے ملک کی نمائندگی کرنا کچھ اس طرح کہ جیسے ہم جیتنا تو چاہتے ہیں  مگر کھیل کو رسوا نہیں  کرنا چاہتے۔ رسوائی خود اپنے ہاتھوں  کی کمائی ہوتی ہے۔ لہٰذا ہماری جیت مخالف ٹیم کی ہار تو ہے مگر جیت کا جشن ہار کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی ہے۔ اسی لیے سچن کے جشن میں  ایک رکھ رکھاؤ دکھائی دیتا ہے۔ اپنے وقت کے اہم ترین کرکٹ کھلاڑیوں  کا ذکر کرتے ہوئے ان کے ہاں  یہ تہذیب دیکھی جا سکتی ہے۔
 سچن نے کرکٹ کی تکنیک پر اظہار خیال کرتے ہوئے طبیعت کی فطری روش پر زور دیا ہے۔ یعنی بولر اور پچ کے بارے میں  سوچتے ہوئے ذہن کو بھٹکنے سے بچانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھٹکاؤ عملی طور پر بولر کو تقویت پہنچاتا ہے۔ بولر اور پچ کے دونوں  سروں  پر ایک ساتھ نگاہ رکھنا، ذہنی طور پر خود کو اگر منتشر کر دینا ہے تو یہ ٹھیک نہیں ۔ کھیل کے دباؤ سے کیسے خود کو نکالا جائے اس بارے میں  سچن کے خیالات آج بھی پہلے کی طرح اہمیت کے حامل ہیں ۔ کرکٹ کا شور جتنا بڑھتا جاتا ہے سچن کے کھیل کی خاموشی اتنی اپنی موجودگی کا اعلان کرتی ہے۔
 کھیل کے میدان میں  کھلاڑی کو اپنی ٹیم اور مخالف ٹیم کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے، ان سوالوں  کا تعلق کھلاڑی کی اپنی طبیعت اور طبیعت کی سنجیدگی اور انتشار سے ہے۔ کبھی طبیعت کا انتشار جیت کی راہ کو ہموار کر دیتا ہے اور کبھی طبیعت کی سنجیدگی مخالف ٹیم کو فائدہ پہنچا دیتی ہے لیکن ایسا ہمیشہ نہیں  ہوتا۔ سچن کی شخصیت بتاتی ہے کہ تہذیب تو تہذیب ہے اس کا تعلق وقتی صورتحال سے ضرور ہے (وہ بھی کھیل کے میدان میں ) لیکن کرکٹ کی تہذیب کا آفاقی آہنگ کھلاڑی کو اچھا کرکٹر بھی بناتا ہے اور عظیم انسان بھی۔

یہ بھی پڑھئے : عالمی اُمور میں کہیں ہم حاشئے پر تو نہیں آگئے ہیں؟

 ۴۸۶؍ صفحات پر پھیلی ہوئی اس کتاب کے بارے میں  بتایا جاتا ہے کہ طباعت سے آراستہ ہوکر بازار میں  آنے سے قبل ہی اس کی ہزار وں  کاپیاں  بُک ہوچکی تھیں ۔ ایسا بہت کم کتابوں  کے ساتھ ہوا ہے۔ اسے لمکا بُک آف ریکارڈس ۲۰۱۶ء میں  بھی شامل کیا گیا ہے۔ کتاب میں  اپنی خود نوشت میں  بولنگ کو دیکھنے اور سمجھنے کے تعلق سے اہم نکتوں  کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ یقیناً یہ کتاب اب تک ہزاروں  لاکھوں  لوگوں  نے پڑھی ہوگی اور سچن کو بہتر طور پر سمجھا ہوگا جن کا خیال ہے کہ بولنگ کو سمجھنے کے لیے بولر کے ایکشن اور گیند پر اس کی انگلیوں  کی گرفت کو دیکھنا ضروری ہے۔ کس ملک کی کرکٹ پچ کا مزاج کیسا ہے، ظاہر ہے کہ اس کا تعلق گھاس کی کمی اور زیادتی سے ہے۔ پچ کیسی بنائی گئی، یہ حق عام طور پر اس ملک کا تصور کیا جاتا ہے، جو میزبان ہوتا ہے۔ سچن نے اس حق کو اپنی بلے بازی سے اپنے مطابق استعمال کر لیا۔ انہوں  نے کرکٹ کے تعلق سے جو انداز اختیار کیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی اپنی شخصیت کرکٹ کی تعمیر میں  کتنا اہم کردار ادا کرتی ہے اور کرکٹ بھی اپنے مختلف انداز اور اسلوب کے ساتھ کسی کی شخصیت کو کس قدر توازن کا نمونہ بنا دیتا ہے۔ کرکٹ کی تاریخ میں  سچن کی شخصیت ’’جارحیت اور احتیاط کے درمیان توازن‘‘ کی ایک مثال ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK