• Sun, 26 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

عالمی اُمور میں کہیں ہم حاشئے پر تو نہیں آگئے ہیں؟

Updated: September 28, 2025, 2:00 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

حکومت کے ہمنوا اِسے نہیں مانیں گے مگر جو حقیقت ہے وہ ہزار پردوں میں بھی چھپ نہیں سکتی۔ ایک ایک ملک سے ہمارے رابطوں کا جائزہ لے کر دیکھ لیجئے،بہت سوں سے ہمارا رشتہ اب پہلے جیسا نہیں ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

’’قدرت اپنے عجائبات کو حرکت میں  لانے کیلئے پُراسرار طریقے استعمال کرتی ہے‘‘ یہ اُس نظم کے ایک مصرعہ کا ترجمہ ہے جو مَیں  نے اسکول کے دور میں  پڑھی تھی۔ اب یاد نہیں  کہ اُس وقت مَیں  کس درجے میں  تھا۔ اتنا یاد آتا ہے کہ انگریزی کے مشہور شاعر پی جی ووڈ ہاؤس کی نظم تھی۔ بہرکیف، ات یہ ہے کہ قدرت کی یہ پُراسراریت عام طور پر انسانی علم کے باہر ہوتی ہے۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں  بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اس شعبے میں  بڑی کامیابیاں  حاصل کی گئی ہیں ، کم از کم حکومتی تشہیر اور ٹیلی ویژن میڈیا کے مطابق (جو کہ ایک ہی بات ہے)، لیکن اس کی تفصیل میں  کیا ہے اس کا جواب آسانی سے نہیں  دیا جاسکتا۔
 ہفتۂ رفتہ کے دوران، جس میں  اقوام متحدہ نے اپنی جنرل اسمبلی کا انعقاد کیا تھا، ہماری حکومت کی کامیابیوں  کو سمجھنے کیلئے، میں  نے سوچا کہ دوست ملکوں  کی فہرست مرتب کرنا مفید ہو گا۔ یوں  کہہ لیجئے کہ خارجہ پالیسی کا پنچنامہ تیار کیا جائے تاکہ ہم بخوبی سمجھ سکیں  کہ دنیا میں  نیا ہندوستان یا ’’نیو انڈیا‘‘ کہاں  کھڑا ہے۔ اپنے پڑوس سے شروع کریں  تو کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہیں ۔ درحقیقت اپنے اس پڑوسی کے ساتھ ’’حالت ِ `جنگ‘‘ میں  ہوسکتے ہیں  کیونکہ ان کے خلاف ہمارا وہ فوجی آپریشن جسے بڑی کامیابی ملی تھی، معطل یا موقوف ہے، ختم نہیں  ہوا ہے۔ یہاں  لفظ جنگ یا حالت جنگ کو واوین میں  رکھا گیا ہے کیونکہ ہم نے حقیقت میں  ان کے ساتھ جنگ ​​کا اعلان نہیں  کیا ہے، یہ الگ بات کہ اب یہ معمول بن گیا ہے یعنی اعلان کے بغیر بھی جنگ ہوسکتی ہے۔ 
 دوسرا پڑوسی بنگلہ دیش ہے اور اس سے بھی ہماری ناچاقی ہوگئی ہے۔ وہاں  کے لوگوں  کا مطالبہ ہے کہ ہم ان کی وزیر اعظم کو واپس کریں  تاکہ ان پر مقدمہ چلایا جا سکے، اور ہم نے اُن کے مطالبہ کو اہمیت نہیں  دی ہے۔ اس کا سربراہ چاہتا ہے کہ سارک کو دوبارہ زندہ کیا جائے، اِس سلسلے میں ، اُس نے ہندوستان پر سارک کو غیر فعال کرنے کا الزام لگایا۔ بنگلہ دیش سے آگے بڑھیں  تو نیپال کا خیال آتا ہے۔ ہماری حکومت نے اگنی پتھ اسکیم کے ساتھ ۲۰۲۲ء میں   ہندوستانی فوج میں  نیپالیوں  کی شمولیت کا سلسلہ ختم کر دیا، جس سے ۲۰۰؍ سال کا تعلق منقطع ہو گیا۔ ۲۰۱۵ء میں  نیپالیوں  کے خلاف ہندوستان کی طرف سے جاری کی گئی ناکہ بندی ہنوز برقرار ہے۔ سری لنکا کی بات کریں  تو اس نے غزہ کی نسل کشی کے خاتمے کا مطالبہ کرنے میں  ہم سے زیادہ جرأت کا مظاہرہ کیا۔ ہماری حکومت کی واہ واہی کرنے والوں  نے کچھ عرصہ قبل مالدیپ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ ہم ان سے ناراض تھے (یاد نہیں  ہے کہ کیوں )، اور یہ واضح نہیں  کہ آیا ہم اس وقت مالدیپ کے دوست ہیں  یا نہیں  ہیں ۔ 
 جب سے ہندوستان میں  چینی ٹیلی ویژن بند کیا گیا تب سے اکثر ہندوستانیوں  کو نہیں  معلوم کہ اس پڑوسی ملک سے ہمارا تعلق کیسا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی کچھ نہیں  جانتا۔ جہاں  تک افغانستان کاتعلق ہے، ہم نے حالیہ دہائیوں  کی تاریخ میں  اس ملک کے ساتھ رابطہ بہتر بنانے میں  خاصی تاخیر کی اور جب ہاتھ بڑھایا تو یہ بتائے بغیر بڑھایا کہ کل تک جو طالبان ناقابلِ قبول تھے، وہ اب قابل قبول کیسے ہوگئے۔ ایران کے ساتھ بھی ہماری خارجہ پالیسی ڈھلمل یقینی پر مبنی ہے۔ آٹھ سال پہلے ہم نے ٹرمپ کے ’’مشورہ‘‘ پر ایران سے تیل خریدنا بند کر دیا تھا لیکن وہاں  کی حکومت ہندوستانی زائرین کو اپنے ہاں  آنے دیتی ہے۔ 
 اب ایشیاء سے باہر نکل کر دیکھتے ہیں ۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، جن کے لئے ہم نے دو بڑی تقریبات کا انعقاد کیا اور جن کی  صلاح پر کارپوریٹ ٹیکس میں  کمی کی، جن کیلئے ہم نے امریکی الیکشن میں  ’’اب کی بار، ٹرمپ سرکار‘‘ کا نعرہ لگایا، اُنہوں  نے پاکستان پر کم ٹیریف لگایا، بنگلہ دیش پر بھی کم لگایا (علی الترتیب ۱۹؍ اور ۲۰؍ فیصد) مگر ہم پر زیادہ یعنی ۲۵؍ فیصد عائد کردیا۔ یہی کیا کم تھا کہ اس میں  مزید ۲۵؍ فیصد کا اضافہ کردیا۔ پھر اس نے ایچ وَن بی ویزا کیلئے مزید ایک لاکھ ڈالر کی شرط لگائی۔ اس پر بھی ہندوستان کو خدا جانے کیوں  ’’سبق سکھانے‘‘ کا سلسلہ موقوف نہیں  ہوا بلکہ گزشتہ دِنوں  ادویات کے شعبے (فارما) میں  بھی ٹیرف کی شرح۱۰۰؍ فیصد کردی۔ ٹرمپ کی ہندوستان سے متعلق پالیسیوں  کے پیش نظر کم سے کم جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ اب وہ ہمارا دوست نہیں  ہے۔ دوست اگر کوئی ہے تو اسرائیل ہے (ہماری حکومت کے نقطۂ نظر سے)۔ ہو سکتا ہے کہ باقی دُنیا نے نیتن یاہو کی پالیسیوں  کی شدید مخالفت کے طور پر، اقوام متحدہ میں  اُن کی تقریر کا بائیکاٹ کیا مگر ہندوستان نے اُس پر تالیاں  بجائیں ۔ 

یہ بھی پڑھئے : کیسا مہتاب مرے آئنہ خانے سے اُٹھا

 ترکی اور آذربائیجان اس لئے دشمن کے طور پر دیکھے جارہے ہیں  کیونکہ وہ پاکستان کے دوست ہیں ۔ پورا افریقی براعظم (۵۴؍  میں  سے ۵۳؍ اقوام، پرانے سوازی لینڈ کے علاوہ) چین کے ’’بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام‘‘ کا حصہ ہیں  اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب ہمارا ان پر زیادہ اثر و رسوخ نہیں  ہے اور ان سے ہمیں  بہت کم فائدہ ہے۔ وسطی ایشیا کے ساتھ بھی ہمارا کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ آسیان ملکوں  کے بارے میں  بھی یہی کہا جاسکتا ہے۔ حیرت نہیں  ہونی چاہئے کہ آسیان ملکوں  کے ساتھ ہندوستان کی تجارت چین کے ساتھ ان کی تجارت کا محض ۱۰؍ فیصد ہے اور افریقہ کے ساتھ محض ایک چوتھائی۔
 روس کے ساتھ ہمارے تعلق کو ’’لین دین کے تعلقات‘‘ کہا جائے تو غلط نہیں  کیونکہ اسلحہ اور تیل خریدنے کے علاوہ اور کیا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں ۔ شاید وہ بھی ہمیں  ایک گاہک کے طور پر دیکھ رہا ہے نہ کہ ایک دوست کے طور پر۔ اب ہم کتنی ہی محبت اور قربت کا اظہار کریں ، جب قربت اور محبت باقی نہ ہو تو اس کے اظہار سے کیا ہوجائیگا؟ عرب ملکوں  کی آبادیوں  کے ساتھ ہمارا جو گہرا رشتہ تھا، اسرائیل سے دوستی کی وجہ سے اُتنا گہرا نہیں  رہ گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ رشتوں  میں  کوئی دراڑ نہ ہو مگر عرب سربراہان ہمیں  اب اُس مقام پر نہیں  رکھتے جہاں  ہم تھے۔ 
 قارئین کو دیگر ملکوں  کے بارے میں  بھی جاننا چاہئے کہ اُن سے ہمارا رشتہ اب کیسا ہے۔ اب ہم گلوبلائزیشن کی بات کریں  یا جی ٹوئنٹی کا ذکر کریں  یا خود کو وشو گرو کہیں ، حقیقت یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی نے ہمیں  بہت سوں  سے دور کردیا ہے جو افسوسناک ہے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK