صدقۂ فطر کے دو مقاصد ہیں: پہلا روزے کی کوتاہیوں کی تلافی،دوسرا اُمت کے مسکینوں کیلئے عید کے دن رزق کا انتظام۔
EPAPER
Updated: April 20, 2023, 11:02 AM IST | Mufti Jasimuddin Qasmi | Mumbai
صدقۂ فطر کے دو مقاصد ہیں: پہلا روزے کی کوتاہیوں کی تلافی،دوسرا اُمت کے مسکینوں کیلئے عید کے دن رزق کا انتظام۔
صدقۂ فطر کے دو مقاصد ہیں: پہلا روزے کی کوتاہیوں کی تلافی،دوسرا اُمت کے مسکینوں کیلئے عید کے دن رزق کا انتظام۔ حضرتِ ابن عباسؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صدقہ فطرکو فرض قرار دیا جو روزہ دار کی لغو اور بے حیائی کی باتوں کو صاف کردیتاہے اور اس میں مسکینوں کیلئے کھانے کا انتظام ہے۔ جس نے اسے عید کی نماز سے پہلے ادا کردیا تو یہ (اللہ کے یہاں) مقبول زکوٰۃ ہوگی اور جس نے اسے نماز کے بعد اداکیا تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے۔ (ابوداؤد) لہٰذا جسے اللہ نے دولت سے نوازا ہے اسے چاہئے کہ صدقۂ فطر کی واجب مقدار پر اکتفانہ کرے بلکہ صدقۂ فطر کے مقصد کو ذہن میں رکھ کہ غریبوں کی داد رسی کرے کیونکہ یہی معمول صحابہ کرامؓ کا تھا۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ عید کی نماز کے بعد صحابہؓ غریبوں کو صدقہ دیا کرتے تھے۔ اسی حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ وہ صدقہ فطر کے علاوہ تھا۔ اسی طرح ابوداؤد میں ہے کہ جب حضرت علیؓ بصرہ تشریف لائے اور یہ دیکھا کہ گیہوں کا بازاری بھاؤ سستا ہے تو آپؓنے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالی اعتبارسے بہتر کردیاہے اس لئے اگر تم صدقۂ فطر ہر چیز کا ایک صاع کے حساب سے نکالو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ یعنی گیہوں آدھا صاع یہ واجب مقدار ہے، آپؓ نے اس کا د گنا نکالنے کی ترغیب دی۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیدالفطر کے دن (کھانے کے غلہ سے ) ایک صاع نکالتے تھے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمارا کھانا ( ان دنوں ) جَو ، کشمش، پنیر اور کھجور تھا۔ (صحیح البخاری)
ہندستان میں چونکہ گیہوں سستا اور کھجور ، کشمش، پنیر مہنگے ہیں اس لئے مالداروں کو چاہئے کہ صدقۃ الفطر ایک صاع ( یعنی پونے تین) کلو کھجور ،کشمش یا پنیر سے اداکریں۔ چونکہ مہنگائی کے اس دور میں پچاس روپے میں کوئی بھی غریب اچھا کھانا بناکر کھا نہیں سکتا اس لئے کھجور سے ساڑھے تین سو روپے کے حساب سے یا کشمش سے گیارہ سو روپے کے یا پنیر سے چودہ سو روپے کے حساب سے صدقہ فطر نکالنا چاہئے۔
صدقۂ فطر کے متعلق ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ روزے کے اندر جانے یا انجانے میں جو کوتاہی ہو جاتی ہے، اس (صدقہ فطر) کی وجہ سے اللہ تبارک تعالیٰ اس کو ختم کردیتے ہیں ۔ اس لئے صدقہ فطر اگرچہ صرف صاحب نصاب پر واجب لیکن بہتر ہے کہ جو صاحب نصاب نہیں مگر مناسب آمدنی والا ہے وہ بھی فطرہ نکالے کیونکہ روزے کی کوتاہیوں کی تلافی کی ضرورت ظاہر سی بات ہے کو اس کو بھی ہے۔
ایک حدیث ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صدقۂ فطر ایک صاع کھجور یا جو َ ہے، یہ لازم ہے ہر غلام آزاد، مرد عورت پر اور ہر ادنیٰ و اعلیٰ پر، اور آپ ﷺ نے حکم دیا کہ یہ (عید کی) نماز سے پہلے ادا کیا جائے۔ (صحیح البخاری)
مذکورہ احادیث کی روشنی میں صدقہ فطر کے احکام درج کئے جاتے ہیں:
صدقہ فطر ہر مسلما ن عاقل بالغ پر اپنی طرف سے اور اپنی نا بالغ اولاد کی طرف سے واجب ہے (بالغ اولاد کا ذکر آگے آئیگا)۔
صدقۂ فطرکی مقدار ایک صاع کھجور یا جو ، یا آدھا صاع (ڈیڑھ کلو۷۴؍ گرام ۶۴۰؍ ملی گرام) گیہوں یا اس کی قیمت ہے۔
بالغ اولاد، ماں باپ اور چھوٹے بھائی بہن کاصدقۂ فطر ہم پرواجب نہیں ایسے ہی بیوی کا صدقۂ فطرشوہر کے ذمہ نہیں ہے البتہ اگر وہ ان کی طرف سے ادا کردے تو ادا ہوجائیگا ۔
صدقۂ فطر میں بازار بھاؤ کا اعتبار ہوتا ہے، کنٹرول یا راشن کی دکان کے ریٹ کا اعتبار نہیں۔ اسلئے بازار کا بھاؤ فوراً معلوم کرنا چاہئے۔
صدقۂ فطر عید کے دن عید گاہ جانے سے پہلے نکالنا مستحب ہے۔ لیکن اگر کوئی اس نیت سے کہ غربا ء اپنی ضروریات سہولت سے پوری کر سکیں رمضا ن ہی میں صدقہ فطر نکا ل دیتا ہے تویہ بھی درست ہے بلکہ اس نیت کی وجہ سے مزید ثواب کا بھی اسے امید وار رہنا چاہئے۔
صدقۂ فطر اور زکوۃ کے نصاب میں فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ میں مال نامی (یعنی بڑھنے والا ہونا ضروری ہے مثلاً سونا چاندی، پیسہ ، مویشی یا مالِ تجارت) جبکہ صدقہ فطر میں مال کا نامی ہونا ضروری نہیں۔ مثلاً اگر کسی شخص کے پاس ضرورت اصلیہ سے زائد زمین ہواور اس کی قیمت اتنی ہو کہ وہ نصاب یعنی ۶۱۲ء ۳۶ گرام چاندی (چھ سو ساڑھے بارہ گرام)تک پہنچ جائے تو اس پر صدقہ فطر واجب ہے جبکہ زکوٰۃ اس پرفر ض نہیں۔
بہتر یہ ہے کہ ایک شخص کا صدقۂ فطر ایک ہی شخص کو دیا جائے لیکن اگرکئی لوگوں کا ایک شخص کو دے دیا گیا تب بھی ادا ہوجائیگا۔
اس تفصیل کے باوجود کوئی سوال ذہن میں ہو تو مقامی عالم صاحب سے رجوع کرلیں۔