Inquilab Logo Happiest Places to Work

شاہین باغ کے شاہین کی جرأتِ مومنانہ

Updated: January 05, 2020, 11:05 AM IST | Dr. Mushtaque Ahmed

یہاں گزشتہ بیس دنوں سے جاری مظاہرہ یہ پیغام دے رہاہے کہ مسلم خواتین قوم وملّت کے مسائل کے تئیں پوری طرح سنجیدہ ہیں۔ وہ اس سرد لہر والی راتوں میں بھی اپنی احتجاجی صدائوں سے نونہالوں کے حوصلے بڑھا رہی ہیں۔ یہاں کے شاہینوں نے ملک کی سیاست کو ایک نیا رخ عطا کیا ہے۔ قوی امید ہے کہ یہ تحریک ملک کی تصویر بدل دے گی۔

شاہین باغ کے اس احتجاج میں ہر عمر کی خواتین شامل ہیں۔ تصویر: آئی این این
شاہین باغ کے اس احتجاج میں ہر عمر کی خواتین شامل ہیں۔ تصویر: آئی این این

ملک کے دارالسلطنت دہلی میں آباد شاہین باغ کا علاقہ محض ایک ماہ پہلے تک علاقائی شناخت تک محدود تھا لیکن اب یہ اقلیتی کثیر الآبادی علاقہ بین الاقوامی شہرت کا حامل بن گیاہے۔واضح ہو کہ یہ علاقہ حکومت دہلی کی جانب سے نوٹیفائڈ ایریا نہیں ہے اسلئے یہاں کی آباد ی کووہ شہری سہولیات میسر نہیں ہیں جو منظور شدہ کالونیوں کو ہوتی ہیں۔ یہاں کی ۹۵؍فیصد آبادی متوسط طبقے پر مشتمل ہے اور ان میں سے بیشتر ملک کی دیگر ریاستوں سے ہجرت کرکے آباد ہوئی ہے۔چوں کہ دہلی کے نجی کمپنیوں اور کارخانوں میں روزگار کے مواقع ہیں، اسلئے روز بروز اس علاقے کی آبادی گنجان ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر منظور شدہ علاقے کے مقابلے شاہین باغ میں ایک طرح کی گھٹن بھی محسوس ہوتی ہے لیکن حالیہ دنوں ہونے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے واقعات کے بعد شاہین باغ کے لوگوں نے جو حوصلہ دکھایا ہے، وہ نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ اس جمہوری ملک کے روشن مستقبل کا اشاریہ بھی ہے۔ 
 واضح ہو کہ کسی بھی جمہوریت کے استحکام کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہاں کے لوگ باگ اپنے مسائل کے تئیں نہ صرف فکر مند ہوں بلکہ اس کے حل کیلئے جمہوری طریقہ کار پر عمل بھی کریں۔ حالیہ دو تین دہائیوں میں خواہ حکمراں جماعت کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتی ہو، اس نے عوامی مسائل کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے اور عوام کی طرف سے سرد مہری بھی رہی ہے۔ نتیجہ ہے کہ موجودہ حکمراں جماعت نے بھی اسی روش کو اپناتے ہوئے عوام کے مطالبوں کو اپنی انانیت سے رد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نتیجہ ہے کہ جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے احاطے میں اور لائبریری میں پولیس عملے کے ذریعہ جو کارنامے انجام دیئے گئے وہ کسی طور بھی ایک جمہوری ملک کے حفاظتی دستوں کا عمل نہیں تھا۔ساتھ ہی ساتھ حفاظتی دستوں کے غیر جمہوری اور غیر آئینی عمل کو حکمراں جماعت کی پشت پناہی نے یہ ثابت کردیا کہ ملک میں اب آئین کے پاسدار ہی اس کی روح کو مجروح کر رہے ہیں۔ 
  اتر پردیش کے مظفر نگر ، بریلی ، لکھنؤ ، فیروز آباد اور علی گڑھ کے واقعات بھی غیر جمہوری طریقۂ کار کا مظاہرہ ہے کہ یہاں بھی ریاستی پولیس نے اقلیتی طبقے کے خلاف نہ صرف ظلم وستم ڈھایا ہے بلکہ زہرا فشانی بھی کی ہے۔ میرٹھ کے ایس پی کا ویڈیو اس کا ثبوت ہے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کا ذہن اور مزاج اظہر من الشمس ہے کہ وہ مسلم اقلیت سےکس قدر نفرت کرتے ہیں۔ مظاہرہ کرنے والوں نے اگر قومی ملکیت کو نقصان پہنچایا ہے تو اس کی بھی مذمت ہونی چاہئے لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ عوام کے خلاف غیر آئینی فرمان جاری کیا جائے۔سی اے اے اور اب این پی آر کے خلاف عوام نے اگر مظاہرہ کیا ہے تو اس مظاہرے کو محض اسلئے غیر قانونی نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں شامل ہونے والے والوں میںاکثریت اقلیت طبقے کی ہے۔
 قومی سطح پر یہ پہلا مظاہرہ ہے جس میں بلا تفریق مذہب وملّت ملک کے شہری اس غیر آئینی قانون کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں اور حکومت کے آمرانہ رویے کے خلاف صف بند ہیں۔ اتر پردیش پولیس کس قدر متشدد ہے اور اقلیت مسلم طبقے کو نشانہ بنا رہی ہے اس کی ایک زندہ مثال فیروز آباد کے مرحوم بنّے خان ہے جو چھ سال قبل ہی اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں لیکن ان کے خلاف بھی وارنٹ جاری کیا گیا ہے جبکہ اترپردیش پولیس کا دعویٰ ہے کہ سی سی ٹی وی کیمرے کی بنیاد پر مظاہرہ کرنے والوں میں جن لوگوں نے قومی ملکیت کو نقصان پہنچایا ہے، ان کے خلاف وارنٹ جاری کیا گیا ہے۔ یہ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ مردہ شخص کے خلاف وارنٹ سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج کی بنیاد پر جاری کیا گیاہے ۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس کا رویہ کیا ہے اور وہ کس سمت ورفتار میں کام کر رہی ہے؟
  حکومت کا موقف ہے کہ حزب اختلاف غلط فہمی پھیلا رہی ہے جب کہ سچائی یہ ہے کہ اس وقت قومی سطح پر جو تحریک جاری ہے اس میں حزب اختلاف کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ عوام الناس نے ہندوستان کے روشن مستقبل کیلئے حالیہ سی اے اے کو مضر جانا ہے ۔یہاں اس حقیقت کا انکشاف بھی ضروری ہے کہ حکومت اس احتجاج کو مذہبی رنگ دینا چاہ رہی ہے لیکن قومی سطح پر اس تحریک کے اندر جو قابلِ تحسین بات دیکھنے کو مل رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں اکثریت طبقے کی شرکت نمایاں ہے۔شاہین باغ کے جیالوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر حق وانصاف کیلئے آواز بلند کی جائے تو ملک میں اب بھی انصاف پسندوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ آنے کو تیار ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ قومی مسائل کو اپنے فرقے سے مخصوص نہ کیا جائے۔
  شاہین باغ میں گزشتہ بیس دنوں سے جاری مظاہرہ یہ پیغام دے رہاہے کہ ہماری عورتوں کے اندر بھی قوم وملّت کے مسائل کے تئیں سنجیدگی پیدا ہوئی ہے وہ اس سرد لہر والی راتوں میں بھی اپنی احتجاجی صدائوں سے نونہالوں کے حوصلے بڑھا رہی ہیں اور اس میں ۸۰؍ سال کی ضعیف العمر عورتیں بھی شامل ہیں کہ انہیں اپنی نئی نسل کے مستقبل کے تاریک ہونے کی فکر ہے۔ غرض کہ شاہین باغ کے شاہین نے ملک کی سیاست کو ایک نیا رخ عطا کیا ہے اور یہ تحریک ملک کی تصویر بدلے گی اور ضرور بدلے گی کہ اس تحریک کی آواز کو لاکھ کوششوں کے باوجود حکمراں جماعت صدا بہ صحرا نہیں کر سکی ہے اور اس کی گمراہ کن باتوں کو قبولیت نہیں ملی ہے۔شاہین باغ کی آواز ملک کے جغرافیائی حدود کو عبور کرتے ہوئے بین الاقوامی آواز بن گئی ہے۔احتجاجی مزاج پیدا ہوگیا ہے اور جو جہاں ہیں، وہیں سے احتجاج کی صدا بلند ہو رہی ہے۔
  گزشتہ ۲۵؍ دسمبر کو میں مغربی بنگال کے شہر کلکتہ میں تھا وہاں کے ادباء اور شعراء اور بالخصوص قومی زبان ہندی کے نوجوان ادباء وشعراء اس سیاہ قانون کے خلاف صف بند تھے اور ان کا نعرہ تھا کہ موجودہ حکومت تجارتی نظریئے سے اپنا منافع دیکھتی ہے اور ملک کے شہری کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر رہی ہے لیکن ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ اس جماعت میں اقلیتی طبقے کی نمائندگی بس دکھانے کیلئے تھی، اکثریتی طبقے کے لوگ اس احتجاجی جلوس کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ مسئلہ صرف اور صرف اقلیت مسلمانوں کا نہیں ہے۔دوسرے اور تیسرے دن بھی شہر کے مختلف حصوں میں اس طرح کے مظاہرے ہو رہے تھے۔ قومی سطح پر یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اس لئے شاہین باغ کے شاہینوں کی جمہوری صدا رائیگاں نہیں جائے گی کہ اس آواز نے ملک کے مختلف حصوں کی تصویر بدل دی ہے اور تقدیر بدلنے کا عمل پیہم جاری ہے۔
 مختلف ریاستوں کی غیر بی جے پی حکومتوں نے بھی اس سی اے اے کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ کیرلا کی اسمبلی نے باضابطہ آئینی طریقہ کار سے اس کی مخالفت کی ہے اور مغربی بنگال کی ممتا بنرجی نے بھی اعلانیہ وضاحت کی ہے کہ وہ اس کا نفاذ ریاست میں نہیں ہونے دیں گی۔ جہاں تک بہار کا سوال ہے تو وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بھی اس ایکٹ کے نفاذ کی نفی کی ہے اگر چہ راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں ان کی پارٹی کے ممبران نے اس کی حمایت کی تھی ۔ شاید اب قومی سطح پر ہو نےوالے احتجاج نے ان کے رخ میں بھی تبدیلی پیدا کی ہے۔ اسی طرح دوسری ریاستوں میں بھی سرکاری سطح پر اس ایکٹ کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے لیکن سب سے بڑی آواز تو عوام الناس کی ہے اور جمہوریت میں عوام الناس کی آواز ہی معنی رکھتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK