مشہور قانون داں مرحوم اے جی نورانی کی کتاب ’ساورکر اینڈ ہندوتوا: دی گوڈسے کنکشن‘ میں دلچسپ انکشافات۔اس کتاب میں اُس قانونی مجبوری کی جس کے تحت ساورکر، مہاتما گاندھی کے قتل کے الزام سے بری ہوئے، پوری تفصیل فراہم کی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: September 15, 2024, 4:31 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai
مشہور قانون داں مرحوم اے جی نورانی کی کتاب ’ساورکر اینڈ ہندوتوا: دی گوڈسے کنکشن‘ میں دلچسپ انکشافات۔اس کتاب میں اُس قانونی مجبوری کی جس کے تحت ساورکر، مہاتما گاندھی کے قتل کے الزام سے بری ہوئے، پوری تفصیل فراہم کی گئی ہے۔
بُلند پایہ محقق، ماہر آئین اور قانون داں اے جی نورانی بامبے میں پیدا ہوئے اور ممبئی میں انتقال کرگئے۔ اس دوران ۹۴؍ سال کا عرصہ گزرا جس کے تقر یباً ۶۰؍ سال انھوں نے ہزاروں طویل مضامین اور بیسیوں کتابیں لکھنے میں صرف کئے۔ خدا غریقِ رحمت کرے۔ ملک و بیرون ملک کا دانشور طبقہ اور ہم جیسے طالب علم بھی، نظریاتی، سیاسی اور قانونی اُمور پر اُن کی تحریروں کے منتظر رہا کرتے تھے۔ اس پیرانہ سالی میں بھی بابری مسجد کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنی کتاب کی تیاری میں مصروف تھے۔ یہ بس اتفاق ہی ہے کہ اپنے اس کالم کیلئے منتخبہ کُتب میں اگلا نمبر نورانی مرحوم کی کتاب ’ساورکر اینڈہندوتوا:دی گوڈسے کنکشن‘ کا تھا۔ ۲۹؍ اگست کی شام جب وفات کی خبر آئی تو یہ کتاب اِس مبصر کی میز پر موجود تھی اور بآوازِ بلند کہ رہی تھی کہ قلم خاموش ہوسکتا ہے کتاب نہیں !
نورانی کی تحریروں کی نمایاں خاصیت ہے کہ ان میں حقائق کی مقداراِس قدر ہوتی ہے کہ ایک عمدہ مضمون کے لئےکسی اور عنصر کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن اتنے سارے خشک مواد میں قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کیلئے زبان و اسلوب پر مطلوبہ قدرت بھی اُن کے ہاں خوب پائی جاتی ہے۔ نورانی ایک ماہر وکیل کی طرح یکے بعد دیگرے دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں۔ پڑھنے والا دل ہی دل میں کہتا ہے’’سر، اتنا کافی ہے۔ میں قائل ہُوا‘‘لیکن نورانی جب تک نفاست سے ترتیب کردہ تمام حقائق پیش نہ کردیں، دم نہیں لیتے۔ ان کی کتابیں کلام کرتی ہیں۔ آغازِ مطالعہ کا فیصلہ کتاب بین کی خواہش پر لیکن اِختتام نورانی کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔ قاری ایک عجیب تجربہ سے دوچار ہوتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ کسی سایہ زدہ مسئلے یا تاریکی میں پنہاں موضوع کے ہر پہلو پر اوپر، نیچے، آگے، پیچھے، ہر زاویئے اور ہر سمت سے ترتیب وار قمقمے روشن ہوتےجارہے ہوں۔
مہاتما گاندھی کو ان کے مقام سے بے دخل کرکے ساورکر کو قومی ہیرو کی پوزیشن پر فائز کرنا، دائیں بازو کا ایک اہم پروجیکٹ ہے۔ اس کتاب میں نورانی، ساورکر اور اُن کے نظریات کیلئے تباہ کن مقدمہ قائم کرتے ہیں۔ ساورکر اپنی اولین تصنیف ’ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی‘ میں کسی قدر معقول نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کے رول کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ بعد کے دور میں تعصب ہی ان کی ساری سرگرمیوں کا محور اور مرکز بن جاتا ہے۔ وہ خود مُلحد تھے اور مذہبی رسوم و رواج کا ان کی زندگی پر کوئی اثر نہ تھا۔ اُنھوں نے ہندوتوا کا نظریہ پیش کیا۔ ہندتوا اور ہندو دھرم یا ہندوازم کو خلط ملط نہ کیا جائے۔ ہندو ازم کی عظیم مذہبی اور روحانی روایات سے ہندوتوا کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہندوتوا ایک خالص سیاسی نظریہ ہے جو تہذیبی چولہ اوڑھ کر سامنے آتا ہے۔
ہندو کون ہے؟ ساورکر جواب دیتے ہیں کی بھارت ورش جس شخص کی’پِرت بھومی ہو یا پھر ` پُنیہ بھومی‘ ہو۔ پہلے کےہندو پنڈتوں میں سے کسی نے ہندو ہونے کی یہ تعریف بیان نہیں کی ہے۔ دو قومی نظریہ پیش کرنے والے وہ پہلے شخص تھے۔ انھوں نے مروجہ دور کی علاقائی (وطنی) قومیت کے بجائے تہذیبی قومیت کے تصور کو پیش کیا۔ نفرت ان کے نظریاتی بیانات کی اساس تھی۔ آر ایس ایس کے قیام سے پہلے ساورکر کی ہندو مہاسبھا ہی ہندوتوا تحریک کی علمبردار تھی۔ ہیڈگیوار، گولوالکر اور بعد کے سنگھی لیڈروں نے ساورکر ہی کی فراہم کردہ نظریاتی اساس پر اپنی عمارت تعمیر کی۔
انڈمان جیل میں ساورکر کی قید کے دنوں کا حال نورانی نے اس طرح بیان کیا ہے کہ سارا منظر ذہن نشین ہوجاتا ہے۔ جیل میں حریت پسند قیدیوں نے ہڑتال کردی۔ عمر رسیدہ قیدیوں نے بھی بھوک ہڑتال میں حصہ لیا۔ ساورکر اُن کو صرف اُکساتے رہے، خود ہڑتال کاحصّہ نہیں بنے۔ انھوں نے انگریزی سرکار کو بار بار معافی نامے لکھے تاکہ جیل سے رہائی حاصل ہو سکے۔ ان معافی ناموں کا متن بھی کسی انقلابی کی غیرت کے بالکل موافق نہیں معلوم ہوتا ہے۔ انگریزی سرکار کو یقین دہانی کروائی کہ رہائی کے بعد کسی حکومت مخالف سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے۔ ہندوستانیوں کو بادشاہِ معظم کے مطیع و فرماں بردار بنانے میں مدد کریں گے۔ آزادی کے بعد بھی بامبے کے پولیس کمشنر کو خط لکھ کر گِڑگِڑائے کہ ہر طرح کی فرقہ وارانہ اور عوامی سیاسی سرگرمیوں سے اتنا عرصہ دور رہیں گے جتنا عرصہ حکومت چاہے۔ یہ باتیں اصلی اور جعلی انقلابی کے فرق کو واضح کرتی ہیں ۔ یہ تھا ایک شخص کا حقیقی کردار وعمل جسے ’ویر‘ کہا جاتا ہے۔
سابق وزیر اعظم واجپائی نے ساورکر کو بھگت سنگھ کا ہم پلہ قرار دیا تھا۔ کتاب میں ایک چشم کشا موازنہ درج ہے۔ بھگت سنگھ نے دو دفعہ خود بندوق اٹھائی۔ ساورکر نے ہر بار خود کو محفوظ رکھتے ہوئے دوسروں سے کام کروایا۔ بھگت سنگھ ایک ہندوستانی قوم پرست تھے جبکہ ساورکر ہندو قوم پرست۔ بھگت سنگھ شریف النفس، فیاض شخص تھے۔ ساورکر کا رویہ اپنے قریبی رفقاء کے ساتھ بھی مطلبی تھا۔ بھگت سنگھ نے تختۂ دار چُنا، معافی نہیں مانگی۔ ساورکر کو جب بھی جیل کا سامنا ہوا ، اقتدار کے سامنے جھک پڑے۔ نورانی نے کافی سخت الفاظ لکھے ہیں جن سے ہم فی الحال گریز کرتے ہیں۔
سب سے دلچسپ باب، گاندھی جی کے قتل میں ساورکر کے رول سے متعلق ہے۔ ۳۰؍ جنوری ۱۹۴۸ء کو ساورکر کے خاص چیلے ناتھورام گوڈسے نے بِرلا بھون میں گاندھی جی کو گولی ماری اور موقع پر ہی پکڑا گیا۔ ایف آئی آر، تغلق روڈ پولس اسٹیشن میں اُردو میں لکھی گئی۔ بشمول ساورکر، یکے بعد دیگرے کُل دس افراد کی گرفتاری عمل میں آئی جن میں سے ۹؍ مہاسبھائی تھے۔ گوڈسے نے قتل کی ذمہ داری لی اور کسی سازش سے انکار کیا۔ باڈگے نامی ملزم وعدہ معاف گواہ بنا۔ باڈگے کے مطابق گوڈسے اور آپٹے کے ساتھ، ساورکر کا بھی سازش میں ہاتھ تھا۔ یہ ایک خطرناک پلان تھا جس میں بارود، ہینڈ گرینیڈ اور پِستولوں کا استعمال ہونا تھا۔ دس روز قبل برلا ہاؤس کے عقب میں ایک چھوٹا آتشی دھماکہ کیا گیا۔ مدن لال نامی اس گروہ کا ممبر موقع ہی پر گرفتار بھی ہوا۔ باقی فرار ہوگئے۔ البتہ ساورکر جائے واردات سے دور، ممبئی ہی میں رہے۔ قتل سے کچھ عرصہ قبل گوڈسے اور آپٹے کا مشکوک مواد کے ساتھ ساورکر کے گھر جانا۔ اوپری منزل پر میٹنگ اور نیچے آتے ہوئے ساورکر کا کہنا کہ’’ کامیاب ہوکر لوٹیں ‘‘ ان باتوں پر مقدمہ کے دوران طویل بحث ہوئی۔ ساورکر نے سازش میں ملوث ہونے سے صاف انکار کیا۔ اُن کا بیان اپنے ان شاگردوں پر الزامات سے پُر ہے گویا وہ لوگ اُن کو پھنسا رہے ہوں جبکہ وعدہ معاف گواہ کے علاوہ سب اپنے رہبر کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔
فاضل جج آتما چرن نے ۷؍ افراد کو مجرم گردانا۔ گوڈسے اور آپٹے کو سزائے موت سنائی اور باقی پانچ کو عمر قید۔ ساورکر بری کردیئے گئے۔ نورانی نےاُس قانونی مجبوری کی جس کے تحت وہ بری ہوئے، پوری تفصیل فراہم کی ہے۔ مقدمات، قانونی باریکیوں اور راست ثبوتوں کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ قانوناً وعدہ معاف گواہ کے بیان کی مزید ثبوتوں یا گواہوں سے تصدیق ضروری تھی۔ اِستغاثہ اس غائب کڑی کو پیش نہ کر پایا، لیکن بیس برس گُزرنےپر یعنی ساورکر کی وفات کے بعد جب جیون لال کپور کمیشن کی رپورٹ سامنے آئی تو وہ چونکانے والی کڑی واضح تھی۔ کیونکہ تب داخل کردہ حلف نامے اور گواہیوں کا اشارہ صاف تھا۔ اگر یہ حقائق اُسی طرح کورٹ کے سامنے پیش ہو پاتے جیسے کپور کمیشن کے سامنے ہوئے توساورکر مجرم قرارپاتے۔
گاندھی جی کی جان کو خطرےکی پیشگی خفیہ اطلاع بامبے پراوِنس کے چیف منسٹر مرارجی دیسائی کے پاس تھی جو کم از کم ایک ہفتے قبل انھوں نے وزیر داخلہ سردار پٹیل تک پہنچا بھی دی تھی۔ دیسائی نے عدالت میں بیان بھی دیا۔ پھر پدرِ قوم کی جان کیوں بچائی نہ جاسکی ؟ نورانی معنی خیز انداز میں کہتے ہیں کہ یہ سوال کتاب کے دائرہ بحث میں شامل نہیں ہے!
دو سو سے بھی کم صفحات پرمشتمل اس کتاب میں اتنا مرتکز شدہ مواد موجود ہے جو کئی ضخیم جلدوں میں بھی سما نہ سکے۔ کتاب انتہائی سنجیدہ ہے۔ جابجا حوالوں سے بھری ہے۔ قانون، تاریخ، پالیٹکل سائنس کے اساتذہ و طلباء نیز صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے کیونکہ حقائق کو آشکار کرنا، پروپیگنڈے کی کاٹ ہے اور نظریے کا توڑ نظریہ ہی ہوسکتا ہے۔