Inquilab Logo

سیکوریٹی چُوک کی عدالتی جانچ : ایک اچھا قدم

Updated: January 20, 2022, 2:38 PM IST | Khalid Shaikh

پنجاب دورے کے پروگرام میں جب مودی کا قافلہ ایک فلائی اوورپر پہنچا تو خبرآئی کہ ریلی کا بائیکاٹ کرنےکیلئے ناراض کسانوں نے ایک کلو میٹر کی دوری پر کئی راستوں کو بلاک کردیا ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

پنجاب  میں سیکوریٹی چُوک کو لے کر مودی اور بی جے پی لیڈروں نے جس ردّعمل کا اظہار کیا وہ غیرضروری اور غیر مناسب تھا۔ کیونکہ جن حالات میں یہ واقعہ پیش آیا، ان سے مودی پر حملےاوران کی جان کو خطرے کی تھیوری کی نفی ہوتی ہے۔ویسے مودی کیلئے یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھی ان کے ساتھ اس طرح کے واقعات پیش آچکے ہیں یہ اور بات ہے کہ بی جے پی ریاستیں ہونے سے  ان کی تشہیر نہیں کی گئی۔  اس بار یہ اس لئے موضوع بناکہ پنجاب میں کانگریسی حکومت ہے اوراگلےمہینے جن پانچ ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں ان میں پنجاب کے علاوہ بقیہ تمام پر بی جے پی قابض ہے جبکہ یوپی ، یوگی ۔ مودی دونوں کے لئے ’کرویا مرو‘ کی حیثیت رکھتا ہے جس کے نتائج کا لازمی اثر ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی الیکشن پر پڑے گا۔ گزشتہ سال دسمبر کے دوسرے ہفتے تک یوپی میں بی جے پی کو اپوزیشن پارٹیوں پر سبقت حاصل تھی لیکن اوبی سی لیڈروں کے پارٹی کو الوداع کہنے پر بازی پلٹتی نظرآتی ہے۔ بنگال کے’ آیا رام گیا رام ‘کے تلخ تجربے کے بعد یوپی دوسری ریاست ہے جہاں پارٹی سے انخلا نے اس کے لیڈروں کے اوسان خطا کر دیئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ۲۰۱۷ء کے الیکشن میں پارٹی کی کامیابی میں سب سے بڑا ہاتھ او بی سی کا تھا۔ اب تک ۱۷؍ لیڈر جن میں وزراء اورایم ایل ایز شامل ہیں۔ داغ مفارقت دے چکے ہیں۔ ان میں سے ۱۴؍ نے ایس پی کے دامن میں پناہ لی ہے۔ اس کا ایک اثر یہ دیکھنے میں آیا کہ یوگی جن کے بارے میں قیاس کیاجارہا تھا کہ متھرا یا ایودھیا سے الیکشن لڑیں گے، انہوں نے گورکھپور کی محفوظ و روایتی سیٹ کا انتخاب کیا ہے ۔ ان کا پارٹی کے ایک دلت  کے گھر کھانا کھانااور معتدبہ تعداد میں اوبی سی ممبروں کو ٹکٹ دینا بھی بی جے پی  میں پھیلی گھبراہٹ کا غماز ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ کوشش بارآور ثابت ہوں گی یا یوپی میں بنگال کی تاریخ  دہرائی جائے گی۔ کڑوی سہی ایک سچائی یہ بھی ہے کہ ۱۹۸۵ء سے یوپی میں حکومت مخالف رجحان کے باعث کسی پارٹی کو دوسری بار گدی نصیب نہیں ہوئی۔  جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تو وہاں بی جے پی کبھی ایک بڑی طاقت نہیں تھی ۔  ۲۰۱۲ء کی حکومت میں وہ شرومنی اکالی دل کی جونیئر پارٹنر تھی لیکن کسان آندولن کی مخالفت میں وہ سہارا  ختم ہوگیا۔ اب پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ زرعی قوانین واپس لینے اور کسانوں کے بیشتر مطالبات ماننے کے باوجود ان میں کوئی پیش ر فت نہ ہونے  سے کسانوں کی ناراضگی کم نہیں ہوئی ہے۔  اس لئے پنجاب کی فضا کو بی جے پی کے لئے سازگار نہیں کہا جاسکتا۔ ۵؍ جنوری کا دورہ ترقیاتی منصوبوں کی سوغات کے ذریعے وہاں کے ووٹروں کو رجھانے اورمنانے کی ایک کوشش تھی جو فلاپ ہوگئی اس روز وہاں جو حالات پیش آئے تشویشناک تھے جن کا ہمیشہ کی طرح پارٹی نے  سیاسی وانتخابی فائدہ اٹھانے میں تاخیر نہیں کی۔  یہاں مودی اینڈ کمپنی کے اِس وصف کا اعتراف ضروری  ہے کہ اسے ناموافق حالات کو اپنے حق میں کرنے کا ہنر آتا ہے۔ ۵؍ جنوری کو یہی ہوا۔ قارئین کو بتادیں کہ وزیراعظم کی سیکوریٹی کی مکمل ذمہ داری ایس پی جی کے سر ہوتی ہے جس کی تفصیلات وانتظامات دَورے سے بہت پہلے اُس کے اعلیٰ افسران ، ریاستی پولیس اورانٹلی جینس بیورو کے درمیان طےپاتے ہیں۔ اُن میں اتفاقیہ یا ناگہانی حالات سے نمٹنے کے اقدامات کوبھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ پنجاب دورے کے پروگرام کے مطابق مودی کو بھٹنڈا ایئر پورٹ سے بذریعہ ہیلی کاپٹر پاکستان سے ملی سرحد حسینی والا پر قومی شہداء کی یادگار پر حاضری دینی تھی۔ وہاں سے انہیں فیروز پور کی ریلی میں شریک ہونا تھا اور پھر ۴۲۷۵۰؍ کروڑ روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنا تھا۔ کسانوں کے احتجاج اور ریلی میں حاضرین کی کمی کے سبب ایسا کچھ نہیں ہوسکا ۔ پروگرام میں پہلی تبدیلی یہ کی گئی کہ خراب موسم کی وجہ سے سفر کے لئے ہیلی کاپٹر کی جگہ کاروں کا استعمال کیا گیا۔ جب مودی کا قافلہ ایک فلائی اوور پر پہنچا تو خبرآئی کہ ریلی کا بائیکاٹ کرنےکیلئے ناراض کسانوں نے ایک کلو میٹر کی دوری پر کئی راستوں کو بلاک کردیا ہے۔ دوسری خبریہ ملی کہ ریلی میں بھیڑ کم ہونے کی وجہ سے کرسیاں خالی پڑی ہیں ان حالات میں ایس پی جی کو ریاستی پولیس سے مشورہ کرنے کے بعد فوری طورپر کوئی فیصلہ کرنا چاہئے تھا۔ ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے قافلہ کو ۱۵؍ منٹ تک فلائی اوورپررکنا پڑا۔ اس عرصے میں مودی پر جوبیتی ہوگی اس کا اندازہ بھٹنڈا ایئرپورٹ پر واپس پہنچنے کے بعد اُن کے بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں وہ پنجاب افسران  کو  مخاطب کرتے ہوئے اپنے دل کے پھپھولے یوں پھوڑتے ہیں ’’اپنے وزیراعلیٰ کو میرا دھنیہ واد دینا اور بتانا کہ میں ایئر پورٹ پر زندہ لوٹنے میں کامیاب  رہا۔ ‘‘یہ بیان اس بات کا اشارہ تھا کہ کسی قسم کا حادثہ پیش نہ آنے کے باوجود مودی اینڈ کمپنی اس کا فائدہ اٹھانے سے باز نہ آئے گی، چنانچہ اُسے بنیاد بناکر ایک طرف وزارت داخلہ نے معاملے کو سنگین بتاتے ہوئے پنجاب حکومت سے تفصیلی رپورٹ طلب کی اور خاطی افسران وافرادکیخلاف سخت کارروائی کی تاکید کی تو دوسری طرف چند وزراء اعلیٰ اور لیڈروں نے ایک  زبان ہوکر سیکوریٹی میں کوتاہی کیلئے کانگریس اور پنجاب حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔  پنجاب کے وزیراعلیٰ چنّی نے سیکوریٹی میں کوتاہی کے الزام سے انکار کیا اورکہا کہ جو کچھ ہوا وہ موسم کی خرابی اور اخیر وقت میں پروگرام میں تبدیلی کی وجہ سے ہوا۔ انہوں  نے  وضاحت کی کہ مودی کے سفر پر نکلنے سے پہلے پی ایم آفس کو کسان مورچہ کے بارے میں خبردار کردیا گیا تھا اور سیکوریٹی میں کوئی ڈھیل نہیں  دی گئی تھی جس سے مودی کی جان کو  خطرہ ہوتا۔ ظاہر ہے چنّی کی صفائی سے مرکز کی تشفی ہونی تھی نہ ہوئی لیکن دونوں طرف سے جو کارر وائیاں دیکھنے کو ملیں چونکانے والی تھیں۔ دونوں فریقوں نے اپنے اپنے طورپر جانچ کمیٹیاں قائم کیں۔ صدر جمہوریہ کے کہنے پر مودی نے ان سے مل کر اپنے روداد سنائی ۔ بی جے پی وزراء اعلیٰ اور لیڈروں نے مودی کی لمبی عمر کیلئے پوجا پاٹ کی، دعائیں مانگیں اس درمیان سب سے  اچھی بات یہ ہوئی کہ ایک پٹیشن کا فوری نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے جانچ کمیٹیوں کے ساتھ تمام کارروائیوں پر روک لگائی اور عدالت کی ایک سابق جج اندو ملہوترہ کی سربراہی میں ایک ۵؍ رکنی جانچ کمیٹی تشکیل دی۔ اس سے مرکز اور ریاستی حکومتوں کے درمیان الزام تراشی کا سلسلہ بند ہوگا، مرکز کی طرف سے سرکاری افسروں کے خلاف کارروائی پر روک لگے گی اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ جانچ آزادانہ وغیرجانبدارانہ ہوگی اور دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہوجائے گا کیونکہ وزیراعظم کوئی بھی ہو اس کی سیکوریٹی سے سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK