Inquilab Logo

بین الاقوامی تعلقات جیسے موضوع پرعلمی اور سنجیدہ کاوشیں ضروری

Updated: October 16, 2020, 12:22 PM IST | Dr Zafar Darak Qasmi

گزشتہ ہفتے شائع ہونےوالے مضمون ’’بین الاقوامی تعلقات، ضرورت، اہمیت اور وسعت‘‘ کے دوسرے اور آخری حصےمیں پڑھئے کہ بین الاقوامی تعلقات پر ماضی میں کتنا کام ہوا اور اب کیا ہورہا ہے

International Relation - Pic : INN
بین الاقوامی تعلقات ۔ تصویر : آئی این این

  اب سطور ذیل میں اس بات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس موضوع پر اب تک متقدمین ، متاخرین فقہاء علماء میں سے کس کس نے کام کیا ہے اور کتنا کیا  ہے۔ مثلاً اس  موضوع پر سب سے پہلے متقدمین میں جلیل القدر تابعی عروہ بن زبیر (۲۲۔۹۳ھ) نے  کتاب ’’المغازی‘‘  لکھی۔ اس طرح زید بن علی نے اپنی کتاب’’المجموع فی الفقہ‘‘ میں اس موضوع پر ایک باب قائم کیا جو بین الاقوامی تعلقات کی اہمیت و افادیت بتاتا ہے۔  محمد بن مسلم شہاب زہری (۵۰۔۱۲۴ھ)  کے متعلق درج ہے کہ انہوں نے بھی ایک کتاب غزوات و سرایا پر تصنیف کی۔  ایک کتاب اس موضوع پر محمد بن اسحاق بن یسار (۸۵۔۱۵۱ھ)  کی بھی پائی جاتی ہے۔ عبد الرحمٰن بن عمرو بن الاوزاعی (۸۸۔ ۱۵۷ھ) نے بھی اس موضوع سے متعلق کتاب لکھی۔ ابراہیم بن محمد بن حارث الفزاری شافعی کی کتاب کو ابن سعد نے ’’ کتاب السیر فی دارالحرب‘‘ سے موسوم کیا ہے۔ امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم (۱۱۳ھ) کی کتاب ’’الرد علی السیر الاوزاعی‘‘ مشہور ہے۔ اس کے علاوہ کتاب الخراج میں بھی اس موضوع پر مباحث ملتے ہیں۔ محمد بن حسن الشیبانی کی اس موضوع پر دو کتابیں متداول ہیں ۔ السیر الصغیر اور السیر الکبیر۔  ماہر نحو ولغت، صالح بن اسحاق جرمی (۲۲۰ھ)  نے بھی اس موضوع پر کتاب ’’ السیر‘‘ کے نام سے تحریر کی۔ محمد بن عبد السلام قیروانی (۲۰۲ھ) نے سیر پر دس جلدوں میں مفصل کتاب تحریر کی۔ امام ابوحنیفہ (۸۵۔۱۵۰ھ) نے بھی اس موضوع پر کام کیا اور ’’ السیر‘‘ کے نام سے کتاب تحریر کی۔ ان متقدمین فقہاء کے بعد متاخرین نے بھی اس سلسلے کو آ گے بڑھا یا چنانچہ علامہ کاسانی کی (۵۸۷ھ م) ’’بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ‘‘ ابو بکر مرغینانی (۵۹۳ھ م) کی ’’ہدایہ‘‘ ابن نجیم (۹۷۰ھ م) کی ’’البحر الرائق والنھر الفائق‘‘ علاؤ الدین حصفکی (۱۰۸۸ ھ م ) کی ’’الدر المحتار ‘‘  ابن عابدین شامی (۱۲۵۲ھ م) کی ’’ردالمختار ‘‘، ابوالحسن احمد بن محمد قدوری کی ’’قدوری ‘‘، شرح الوقایہ اور کنز الدقائق وغیرہ میں بین الاقوامی تعلقات کا ذکر سیر کے نام سے ملتا ہے۔ عصر حاضر میں اس موضوع پر کئی اہم شخصیات نے کام کیا ہے۔ ڈاکٹر وہبہ زحیلی (۱۹۳۲۔۲۰۱۵ء)  نے ’’العلاقات الدولیہ فی الاسلام‘‘،  ڈاکٹر احمد شلبی کی ’’العلاقات الدولیہ فی الفکر الاسلام‘‘، ڈاکٹر صبحی محمصانی (۱۹۰۹۔۱۹۸۶ء) کی ’’القانون و العلاقات الدولیہ فی القانون الشریعہ‘‘ کے نام سے تصانیف دستیاب ہیں۔   ان کے علاوہ اس موضوع پر انگریزی اور اردو میں بھی کئی افراد نے باقاعدہ کتابیں تحریر کی ہیں۔  ڈاکٹر حمیداللہ کی ’’اسلا م کا قانون بین الممالک کے اصول و نظیریں‘‘ اور خطبات بہاول پور میں اس موضوع پر ایک خطبہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر آ پ نے ایک کتاب انگلش زبان میں ’’مسلم کنڈکٹ آف اسلام‘‘ کے نام سے تحریر کی۔
 یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ قانون بین الممالک کی اصطلاح کے بانی مبانی ڈاکٹر حمیداللہ ہی ہیں۔ اردو زبان میں ایک اور اہم تصنیف ڈاکٹر محمود احمد غازی کی ہے’’ اسلام کا قانون بین الممالک ‘‘۔ اسی طرح ڈاکٹر عبداللہ امیری اور زہرا امیر زائی کی ’’قرآن میں بین الاقوامی تعلقات‘‘ اور محمد ظفر محفوظ نعمانی کی ’’بین الاقوامی قانون‘‘  کے نام سے موجود ہیں۔ جیسے جیسے حالات بدل رہے ہیں ویسے ویسے اس موضوع کی افادیت  درسگاہوں اور دانش گاہوں میں محسوس کی جارہی ہے۔ بناء بریں اس موضوع پر ہندو پاک کی جامعات میں بھی تحقیقی مقالے لکھوائے جارہے  ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات سنی میں اس موضوع پر بھی اب تک اردو اور عربی میں پی ایچ ڈی کے کئی مقالے لکھے جاچکے ہیں،  مثلاً راقم کا مقالہ ’’غیر مسلوں کے مذہبی حقوق خلافت راشدہ سے بنو عباسیہ تک ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘  اسی طرح پاکستان کی جامعات میں بھی اس موضوع پر اسکالر کام کررہے ہیں۔ پروفیسر ہمایوں عباس نے اپنے مذکورہ مقالے میں ان تحقیقی مقالوں کے نام گنوائے ہیں جن کی مناسبت  بین الاقوامی تعلقات  سےہے  ’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا سفارتی نظام‘‘، ’’اسلام کا قانون امن وجنگ اور قیام امن میں اس کا کردار‘‘ ، ’’عالم گیریت اسلامی تناظر میں‘‘ ، ’’ اسیران جنگ کے حقوق: جنیوا کنونشن اور اسلامی تعلیمات‘‘، ’’اسلامی ریاست کے بین الاقوامی تعلقات قرآن وسنت کی روشنی میں‘‘، ’’عصری اسلامی مملکت کی خارجہ پالیسی، اسلامی تعلیمات اور نظائر‘‘ ، ’’بین الاقوامی سطح پر مسلم اور غیر مسلم کے تعلقات کا جائزہ‘‘ ، ’’بین الاقوامی تعلقات کے اصول: مکاتیب اور وثائق رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی روشنی میں‘‘، ان کے علاوہ بھی باحثین  (ریسرچ اسکالرس، محققین) نے کئی اہم گوشوں کو اجاگر کیا ہے۔
ان حقائق و شواہد کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس موضوع کو مزید فروغ دینے اور اس کے جدید گوشوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ متقدمین  و متاخرین نے جو اصول و ضوابط اور خطوط متعین کئے ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے اور عصری تقاضوں کی ہم آہنگی کو بڑھانے کیلئے لازمی ہےکہ سماجی، معاشی، اقتصادی، مذہبی اور سیاسی  ہر اعتبار سے  اس موضوع کو فروغ دیا جائے۔  وقت اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ مسلم اسکالر اور دانشوروں نے بین الاقوامی تعلقات کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس کو ماند نہ پڑنے دینا ہے  بلکہ انسانیت کی نفع رسانی کے لئے زیادہ سے زیادہ فروغ دینا ہے۔ عہد حاضر میں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات میں  لگاتار اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے میں  اسلام ہی وہ طاقت اور متوازن مذہب ہے جو ظلم کے خلاف آ واز اٹھاتا ہے اور انسانی حقوق کی حفاظت و صیانت کو یقینی بناتاہے۔  اسلام نے جہاں عام حالت میں باہمی تعلقات کو استوار کرنے کی ہدایت دی ہے وہیں حالت جنگ میں بھی اسلام کی تعلیمات انسانیت کے تقدس اور اس کے حقوق کا پاسبان و امین ہیں۔ جنگ کی دفاعی صورت حال ہو یا اقدامی ، بہر حال انسانی طبقات کے ساتھ رواداری، سلامتی، صلح و آشتی اور چین و سکون کا رویہ اپنانا ہے۔ انسانی طبقات کے مابین اس بڑھتی خلیج اور دوری کو مٹانے کے لئے اسلام کی صحیح نمائندگی اور بین الاقوامی تعلقات کو پھر سے سامنے لانا ہوگا تاکہ کوئی بھی سر پھرا،  اسلام کی تعلیمات پر دانستہ یا سہواً انگشت نمائی نہ کرسکے۔ اس کائنات میں انسانیت کو گم گشتہ راہ سے باہر لانا اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرنا ہمارا نہ صرف دینی فریضہ ہے بلکہ آ ئینی حق بھی ہے۔
 اس کی ضرورت اس معنی میں بھی بڑھ جاتی ہے کہ جب تمام تہذیبیں اور افکار و نظریات انسانی فلاح و کامرانی سے منہ موڑ لیتے ہیں تو نظریں صرف اسلام کی طرف اٹھتی ہیں کیونکہ ہر عہد میں اسلا م نے ہی انسانیت کی بقاء  اور اس کے تحفظ کو آئینی شکل دی ہے۔ مغربی دنیا آ ج جس فرضی اسلام فوبیا میں مبتلا ہے اس کو باہر لانے کے لئے ہمیں تمام دستیاب زبانوں میں بین الاقوامی تعلقات جیسے موضوعات پر علمی اور سنجیدہ کام کرنا ہوگا۔ اس بابت راقم کی نظر میں کئی اہم گوشے ہیں جنہیں حوالہ قرطاس کیا سکتا ہے مثلاً:
 متقدمین نے علم سیر پر جو کتابیں تحریر کی ہیں ان کے افکار کی روشنی میں باضابطہ کتب تدوین کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح متاخرین فقہاء کے یہاں اس ضمن میں انتہائی وقیع اور فکری بحثیں السیر کے عنوان سے موجود ہیں ۔ ان کو سامنے رکھ کر بین الاقوامی تعلقات کے متعدد پہلوؤں کو بروئے کار  لایا جا سکتا ہے۔ اب چونکہ جامعات میں بھی اس موضوع کی طرف جدید محققین کا رجحان بڑھا ہے اور مختلف جامعات میں باقاعدہ مقالے لکھے جا چکے ہیں،  ان کا عصری تقاضوں کے مطابق تحقیقی، تنقیدی اور معروضی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اردو فتاویٰ کی بر صغیر میں ایک بڑی تعداد ہے۔ ہمارے معاشرتی اور سماجی نظام میں ان کا بڑا عمل دخل ہے۔ ان کو سامنے رکھ کر بین الاقوامی تعلقات کو وسعت دی جاسکتی ہے اور جدید فقہاء کی آ راء کا قدیم فقہاء کے نظریات سے  تقابلی مطالعہ کرکے ایک اچھا کام ہوسکتا ہے۔ اسی طرح برصغیر سے اردو رسائل کی بڑی تعداد ہے جو اہل علم کی علمی تشنگی بجھانے کا کام کررہے ہیں۔ اِن میں کئی رسالے علمی، فکری اور تحقیقی نوعیت کے ہیں جیسے معارف (اعظم گڑھ)،  تحقیقات اسلامی (علی گڑھ)، مطالعات (دہلی)، ماہنامہ دارالعلوم (دیوبند)، اسلام اور عصرِ جدید (جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی)، پاکستان سے فکر و نظر، الایضاح، معارف اسلامی،  السیرہ، ماہنامہ الشریعہ اور تحقیقات اسلامی  وغیرہ شامل ہیں۔ ان رسائل و جرائد میں بین الاقوامی تعلقات پر جو فکری و علمی مقالات شائع ہوئے ہیں ان کو سامنے رکھ کر ایک اچھا تحقیقی کام بین الاقوامی تعلقات پر کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مغربی مفکرین نے بھی اس موضوع پر جو تنقیدی مطالعہ کیا ہے اس کا علمی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
 واضح رہنا چاہئے کہ اب عرب ممالک کی جامعات میں بھی اس موضوع پر تحقیقی مقالے لکھے جارہے ہیں، مثلاً ایک مقالہ ’’ احکام القانون الدولی الانسانی فی الاسلام‘‘  کے عنوان سے لکھا گیا۔ ان پر ایک الگ کام ہوسکتاہے۔ اس طرح اس موضوع پر جدید فکری گوشے سامنے آ ئیںگے جو معاشرتی ضروریات اور تکثیری سماج کو باہم مربوط و منضبط کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
مضمون نگار یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہے کہ بالائی سطروں میں صرف اشاروں پر اکتفا کیا گیا ہے۔ یقیناً ہماری درسگاہوں اور دانش گاہوں میں اس اہم موضوع کو لے کر بیداری پیدا ہوگی  اور ماہرین و مفکرین اس سمت میں انوکھے اور جدید گوشوں کو منصہ شہود پر لانے کی کوشش کریں گے، گویا بین الاقوامی تعلقات پر بہت سا کام ہوچکا ہے اور ابھی بہت سے اس کے فن پارے آ نا باقی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK