Inquilab Logo Happiest Places to Work

خدمت ِ خلق: قرب ِالٰہی کی منزلیں اس کی مخلوق سے محبت اور رحمدلی کے راستوں سے ہو کر گزرتی ہیں

Updated: October 06, 2023, 4:26 PM IST | Khaleda Fodkar | Mumbai

اس کُرۂ ارض پر جتنے بھی مذاہب ہیں چاہے وہ آفاقی ہوں یا انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے، ہر مذہب کی بنیادی تعلیم انسانیت اور محبت ہی ہے۔

There are many ways to serve people, among them is to feed the hungry if possible. Photo: INN
خدمت خلق کے بے شمار راستے ہیں، ان میں سے یہ بھی ہے کہ حسب ِ توفیق بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے۔ تصویر:آئی این این

اس کُرۂ ارض پر جتنے بھی مذاہب ہیں چاہے وہ آفاقی ہوں یا انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے، ہر مذہب کی بنیادی تعلیم انسانیت اور محبت ہی ہے۔ اللّہ تعالیٰ نےہر دور میں اپنا پیغامِ وحدانیت اپنے اُن معزز و مکرم نبیوں کے ساتھ بھیجا جو ہمدردی اور خیر میں بے مثال تھے۔ وہی قوم اور ملت صفحۂ ہستی پر اپنی شناخت بھی قائم رکھ سکی ہے جس کے افراد ایک دوسرے کے خیر خواہ اور مہربان تھے، سب کا درد اپنے دلوں میں رکھتے تھےاور جن کے قلوب جذبۂ انسانیت سے معمور تھے۔ جس انسان کےدل میں رحم نہ ہو، اللہ کی مخلوق کیلئے ہمدردی اور محبت نہ ہو وہ دل کسی بے آب و گیاہ ویرانے سے کم نہیں ۔ رواداری، نیک نیتی اورخلوص و محبت کی تعلیم و تلقین کے معاملے میں ہمارا دین سارے مذاہب میں ممتاز اور سرِفہرست اس طرح ہے کہ اسلام میں نیکی اور خیرخواہی، رنگ و نسل اور عقیدہ و مذہب کے امتیاز کے بغیر سب کیلئے عام ہے۔
اللہ تعالی کے قرب کی منزلیں اُس کی مخلوق سے محبت اور رحمدلی کے راستوں سے ہی ہو کر گزرتی ہیں ۔ عبادات اور سخت مجاہدہ بھی بندے کو وہ مقام نہیں دلا سکتے جو تنہا انسانیت کا جذبہ دلا سکتا ہےکیونکہ انسان کو پیدا ہی ایک دوسرے کی خیر خواہی اور درد مندی کیلئے کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی بندگی سے زیادہ اپنے بندوں سے انسانیت اور رحم دلی مرغوب و مطلوب ہے۔ اگرخدا کو صرف اپنی عبادت کرانی مقصود ہوتی تو اس کام کے لئے انسانوں کی تخلیق سے قبل ہی ربّ کریم کے پاس ہر آن عبادت و فر مان برداری میں مصروف فرشتوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔
اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ضابطۂ حیات ہے کہ اُس نے اپنی انسانی مخلوق کیلئے اسبابِ زندگی میں کچھ بندوں کے لئے امارت اور وسعت رکھی ہے۔ ہر نوع کی آسانیاں اور آسائشیں فراہم کر دی ہیں تو کچھ بندوں کی آزمائش کیلئے تنگی، مشکلات، ناکامیاں اور محرومیاں بھی رکھ دی ہیں ۔ یہ مشاہدہ ہے کہ دونوں قسم کے بندوں کے حالات بھی کبھی یکساں نہیں رہتے، دُھوپ چھاؤں کی طرح ہر کسی کو عروج و زوال سے واسطہ پڑتاہی رہتا ہے۔ انسانوں کا امتحان بس یہی ہے کہ رحمت کے سائے میں رہنے والے مصائب کی کڑی دھوپ میں زندگی بسر کرنے والے بندوں کو اپنی ہمدردی کی چھاؤں میں جگہ دیتے ہیں یا نہیں ۔ امیری اور وسعت پا نے والےغریبوں ، محتاجوں سے کس طرح کا رویّہ رکھتے ہیں ، امیری اور ثروت کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں یا اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کو امانت سمجھ کر اُس کے کمزور و مستحق بندوں کو بھی اپنی آسائشوں میں شامل کرتے ہیں ۔
عرفِ عام میں روپیہ پیسہ اور دولت سے نوازا جانا ہی امیری کہلاتا ہے جبکہ یہ حقیقت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مختلف صلاحیتوں اور نعمتوں سے نوازتے ہیں ، امیر اپنی دولت کے ذریعے کارِ خیر کر سکتا ہے تو غریب بھی بلکہ ہر انسان دامے درمے قدمے سخنے اپنی کسی نہ کسی صلاحیت اور حیثیت کے ذریعے مخلوقِ خدا کی خبر گیری و امداد کے کاموں کو انجام دے سکتا ہے۔ چونکہ انسانوں کی اکثر مشکلات مالی نوعیت کی ہوتی ہیں اس لئے مالی امداد کے متمنّی افراد کی بھی اکثریت دکھائی دیتی ہے۔
 یہ حقیقت ہےکہ غریبوں کی بہ نسبت دولتمنداور امیروکبیر افراد کیلئے خدمت خلق کے بے شمار مواقع اور راستے ہیں ۔ غریب افراد کیلئے روٹی کپڑے کی سہولت کر دینا یا مالی ضروریات میں مدد کردینا گو کہ بہت احسن ہے مگر صرف مالی امدادکو ہی کافی سمجھ لینا خدمت ِ خلق کے تصور کو محدود کر لینےکے مترادف ہے۔ بسا اوقات کسی کی جانب سے ہمدردی اور تسلّی کے الفاظ اور میٹھی بات ہی نعمت بن جاتی ہے۔ افسردہ یا پریشان حال بندے کیلئے اپنوں کی طرف سے چھوٹا سا دلاسہ بھی ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بن جاتا ہے۔ دُکھ بانٹ لینے سے بھی زیادہ یہ ضروری اور اہم ہے کہ ہم کسی کے دُکھ کی وجہ نہ بنیں ، ہماری ذات سے، ہماری بات سے، تلخ رویّے اور طنزودشنام سے کسی اپنے یا پرائے کے جذبات مجروح نہ ہوں ،اگر ہم کسی کی راحت رسانی کا ذریعہ نہ بن سکیں تو کم از کم ایذا رسانی کا سبب بھی نہ بنیں۔ 
اللہ تعالیٰ کی خلق صرف انسان ہی نہیں ہیں پھر کیوں ہم خدمت ِ خلق کے مستحقین میں صرف انسانوں کو ہی شُمار کرتے ہیں جبکہ اس کائنات کی ہر شئے اللہ کی مخلوق ہے۔ ہوا، پانی، ندی نالے، سمندر، جنگل ، د شت و صحرا، چرند پرند جانور غرض ہر جاندار اور بے جان شے اللہ تعالیٰ نےہماری ضرورت اور نفع کیلئے بنائی ہے۔ انسانی حیات اور ہماری زندگیوں کا دارومدار ہر ذرّے اور ہر عنصر پر ہے لہٰذا فطرت کے ان تمام وسائل اوراسباب کا نہ صرف بہتر اور کفایتی استعمال بلکہ ان کی حفاظت اور قدر دانی بھی خدمت ِ خلق کے زُمرے میں شامل ہے، اس کی فکر کی جانی چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK