Inquilab Logo

بارگاہِ الٰہی میں مناجات، طلب ِ مغفرت اور دعاؤں کی قبولیت کے لمحات کو ضائع نہ کریں

Updated: February 23, 2024, 12:56 PM IST | Dr. Hafiz Mohammad Sani | Mumbai

۱۴؍ شعبان کے سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی اور ۱۵؍شعبان کی صبح صادق ہونے تک (یعنی چودہ اور پندرہ کی درمیانی شب) رہتی ہے اور اس میں بارگاہِ رب العزت کی رحمت و مغفرت کا ابرکرم خوب جم کر برستا ہے۔

The Lord of the worlds looks for excuses to forgive his servants, so it is better that we make the virtuous nights a source of forgiveness for ourselves. Photo: INN
رب العالمین بندوں کی بخشش کے بہانے ڈھونڈتا ہے، کیا ہی بہتر ہو کہ ہم فضیلت والی راتوں کو اپنے لئے بخشش کا ذریعہ بنا لیں۔ تصویر : آئی این این

’’شعبان المعظّم‘‘ کی پندرہویں شب کو ’’شب برأت‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ بہت ہی بابرکت، قدرو منزلت اور فضیلت والی رات ہے۔ جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں : ’’لیلۃ القدر کے بعد شعبان کی پندرہویں شب سے زیادہ کوئی رات افضل نہیں۔ ‘‘
’’شعبان‘‘ کا معنی ہے شاخ در شاخ ہونا۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ اس ماہ مبارک کا نام ’’شعبان‘‘ اس لئے رکھا گیا کہ روزے داروں کی نیکیوں میں شاخوں کی طرح اضافہ ہوتا ہے اور یہ بڑھتی رہتی ہیں۔ 
امّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ میں نے سوائے شعبان کے مہینے کے (رمضان کے علاوہ) کسی اور مہینے میں رسولؐ اللہ کو کثرت سے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپؐ کو یہ بہت محبوب تھا کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے ملا دیں۔ (سنن بیہقی) 
جمہور علماء، محدثین اور مفسرین نے شعبان کی فضیلت و اہمیت اور اس مبارک مہینے کی پندرہویں شب یعنی ’’شب برأت‘‘ کی قدر ومنزلت کے حوالے سے متعدد روایات بیان کی ہیں مگر اس سے قبل آئیے اس کے نام جان لیں۔ اس کے کئی نام ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں :
(۱)لیلۃ الرحمۃ:اللہ تعالیٰ کی رحمتِ خاصہ کے نزول کی رات۔ 
(۲) لیلۃ المبارکۃ: برکتوں والی رات۔ 
(۳) لیلۃ البرأ ۃ:جہنم سے نجات دلانے اور بری کرنے والی رات۔ 
(۴)لیلۃ الصّک: دستاویز والی رات۔ 
مگر حرف عام میں اسے ’’شب برأت‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’شب‘‘ فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کا معنی ہے رات جبکہ برأت عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے بری ہونا اور نجات پانا۔ شب برأت کا معنی ہونا بَری کرنے واور نجات دلانے والی رات۔ مراد گناہوں سے نجات دلانے والی رات۔ چونکہ اس مقدس رات رحمت خداوندی کے طفیل لاتعداد بندگان خدا جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لئے اسے ’’شب برأت‘‘ کہا جاتا ہے۔ 
شب برأت کی فضیلت و اہمیت کے حوالے سے جلیل القدر صحابۂ کرام ؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت علی مرتضیٰ ؓ، امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابوہریرہ ؓ، حضرت عوف بن مالک ؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ، حضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ اور حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کے علاوہ متعدد جلیل القدر تابعین ؒ سے بھی روایات منقول ہیں :
حضرت عثمان بن ابی العاصؓ سے روایت ہے کہ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو اللہ عزو جل کی جانب سے (ایک پکارنے والا) پکارتا ہے کہ کیا کوئی مغفرت کا طلبگار ہے کہ میں اس کی مغفرت کر دوں ؟ کیا کوئی مانگنے والا ہے کہ میں اسے عطا کر دوں ؟ اس وقت پروردگار عالم سے جو مانگتا ہے، اسے ملتا ہے، سوائے بدکار عورت اور مشرک کے۔ ‘‘ (بیہقی/شعب الایمان )۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ سوائے مشرک اور کینہ پرور کے سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ (مجمع الزوائد) 
حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جب شعبان کی پندرہویں شب (شب برأت) ہوتی ہے تو رب ذوالجلا ل اپنی مخلوق پر نظر ڈال کر اہل ایمان کی مغفرت فرما دیتا ہے، کافروں کو مہلت دیتا ہے، اور کینہ پروروں کو ان کے کینے کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے تاوقت یہ کہ وہ توبہ کر کے، کینہ پروری چھوڑ دیں۔ ‘‘
(بیہقی /شعب الایمان)
جب کہ مختلف روایات میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ بے شمار بدنصیب افراد ایسے ہیں کہ وہ اس بابرکت رات کی عظمت و فضیلت اور قدر و منزلت سے دور اور اللہ عزو جل کی بخشش ورحمت سے محروم رہتے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت نہیں ہوتی۔ وہ بدنصیب افراد یہ ہیں : مشرک، جادوگر، کاہن اور نجومی، بغض اور کینہ رکھنے والا، جوا کھیلنے والا، گانے بجانے اور اس میں مصروف رہنے والا، زانی مرد و عورت، والدین کا نافرمان، شرابی، رشتے داروں اور اپنے مسلمان بھائیوں سے ناحق قطع تعلق کرنے والا، وغیرہ۔ یہ وہ بدقسمت افراد ہیں جن کی اس بابرکت اور قدر و منزلت والی مقدس رات میں بھی بخشش نہیں ہوتی اور وہ بدبختی، بداعمالی اور گناہوں کے سبب اللہ کی رحمت اور مغفرت سے محروم رہتے ہیں۔ الّا یہ کہ وہ ’’توبۃ النصوح ‘‘ یعنی سچی توبہ کرلیں، اس لئے کہ توبہ درحقیقت گناہوں کی معافی کا ذریعہ اور گناہوں کا کفارہ ہے۔ کون نہیں جانتا کہ درِ توبہ کھلا ہوا ہے اور قیامت تک کھلا رہے گا۔ 
علماء و محدثین کے مطابق شب برأت کی فضیلت کے بارے میں حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں :
’’لیلۃ القدرکے بعد شعبان کی پندرہویں شب سے زیادہ کوئی رات افضل نہیں۔ ‘‘
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہماری پیشی سے حکم ہو کر طے کیا جاتا ہے۔ ‘‘(سورۂ دخان) بعض مفسرین اس آیت سے مراد شب برأت بھی لیتے ہیں یعنی پورے سال کا حال قلم بند ہوتا ہے، رزق، بیماری، تندرستی، فراخی، راحت، تکلیف حتیٰ کہ ہر وہ شخص جو اس سال پیدا ہونے والا یا مرنے والا ہو، اس کا مقررہ وقت بھی اسی شب لکھ دیا جاتا ہے۔ 
حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک فہرست ملک الموت کو دے دی جاتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ جن جن لوگوں کا نام اس فہرست میں درج ہے، ان کی روحوں کو قبض کرنا، (چناں چہ حال یہ ہوتا ہے کہ) کوئی بندہ تو باغ میں پودا لگا رہا ہوتا ہے، کوئی شادی بیاہ میں مصروف ہوتا ہے، کوئی مکان کی تعمیر کررہا ہوتا ہے، حالانکہ ان کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔ (شیخ عبدالحق محدث دہلوی /ماثبت بالسنۃ ص ۳۵۳)
محبوب سبحانی، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اس کیفیت کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’بہت سے لوگوں کے کفن تیار ہو چکے ہیں، مگر وہ ابھی تک بازاروں میں خریدو فروخت میں مصروف اور اپنی موت سے غافل ہیں۔ ٭بہت سے لوگوں کی قبریں کھد کر تیار ہو چکی ہیں، مگر ان میں دفن ہونے والے غفلت سے خوشیاں مناتے پھر رہے ہیں …بہت سے لوگ ہنستے اور خوشیاں مناتے پھرتے ہیں، حالانکہ وہ بہت جلد ہلاک ہونے والے ہیں۔ ‘‘ ( غنیۃ الطالبین)
یہ رحمت و برکت والی رات ۱۴؍ شعبان کے سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی اور پندرہ شعبان کی صبح صادق ہونے تک رہتی ہے (بہ الفاظ دیگر یہ چودہ اور پندرہ شعبان کی درمیانی شب ہے) اور اس میں بارگاہِ رب العزت کی رحمت و مغفرت کا ابرکرم خوب جم کر برستا ہے۔ 
شیر خدا سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: جب شعبان کی پندرہویں شب آئے تو رات کو نماز پڑھو اور اگلے دن روزہ رکھو، کیوں کہ غروب ِشمس سے صبح صادق کے طلوع ہونے تک اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتاہے اور ارشاد فرماتا ہے: ’’ہے کوئی بخشش کا طلبگار کہ میں اسے بخش دوں ؟ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اسے رزق دے دوں ؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں ؟ ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ویسا؟ (بیہقی /شعب الایمان )
امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ اس مقدس شب میں یہ دعا فرماتے تھے: ’’اے اللہ! میں تیرے عفو کی پناہ چاہتا ہوں، تیری سزا سے اور تیری رضا کی پناہ چاہتا ہوں۔ تیرے غصے اور ناراضی سے اور پناہ چاہتا ہوں تیری سختیوں سے، یا اللہ، میں آپ کی تعریف شمار نہیں کر سکتا، آپ کی ذات ایسی ہی بلند وبالا ہے، جیسے آپ نے خود فرمایا۔ ‘‘ (سنن بیہقی)
 جن گناہوں کی نحوست اور وبال انسان کو اس مبارک رات کی رحمتوں اور برکتوں سے محروم کر دیتا ہےان سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے صدق دل سے توبہ کی جائے، شب بیداری کا تقاضا ہے کہ ان بابرکت اور قیمتی لمحات کو توبہ و مناجات، اللہ کے ذکر اور دعائوں میں بسر کیا جائے۔ شورو غل، پٹاخوں اور آتش بازی کا مظاہرہ کر کے عبادت میں مصروف لوگوں، بچوں، ضعیف العمر افراد اور مریضوں کو تکلیف میں مبتلا کر کے نہ تو گناہ کا ارتکاب کیا جائے نہ ہی اللہ کی ناراضگی مول لی جائے۔ پٹاخوں کا استعمال اور آتش بازی بدترین گناہ ہے اوریہ دین و دنیا کی تباہی کے مترادف ہے۔ حدیث نبویؐ کے مطابق مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ و مامون ہوں۔ 
 معزز قارئین، اس رات کا تقاضا ہے کہ اس میں اللہ سے مغفرت و رحمت طلب کی جائے، آتش بازی وغیرہ اللہ کی رحمت سے دوری کا سبب، نیکیوں کی بربادی کا ذریعہ، بندگان خدا کے لئے ایذا رسانی کا باعث اور اللہ کی ناراضی کا سبب ہیں، ان سے پرہیز کیجئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK