Inquilab Logo

’شعبان‘ غفلت دور کرنے کا مہینہ

Updated: February 16, 2024, 3:12 PM IST | Al-Sheikh Akram Elahi

درمیان ِ رجب و رمضان آنے والے اس اہم ماہ کی چند خصوصیات ملاحظہ کیجئے تاکہ ہم آپ اس سے مستفید ہوسکیں۔

Photo: INNIt is known from the hadiths that the deeds of the servants are presented to Allah in three times. Photo: INN
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بندوں کے اعمال اللہ کے پاس تین اوقات میں پیش کئے جاتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

اس دنیائے فانی میں آپ کا ہر گزرتا لمحہ، دن اور گھڑی باعث غنیمت ہے جو نیکی اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزر جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لئے کچھ ایسے اہم ترین مواقع اور چند مخصوص دنوں کوعطا کردیا ہے، جن میں بالمقابل دیگر دنوں کے نہ صرف اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرتا ہے، بلکہ اس خاص دن اپنے بندوں کی عبادات کے بدلے اجروثواب میں انتہائی اضافہ کر دیتا ہے۔ ایسے ہی مخصوص دنوں اور مواقع میں ایک موقع ماہِ شعبان المعظم ہے۔ کیونکہ شعبان کا مہینہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کے آغاز ہوتے ہی زندہ دل لوگ تمام مہینوں کے سردار اور افضل ماہ رمضان کی آرزو کرنے لگتے ہیں۔ 
ماہ ِ شعبان کی وجہ تسمیہ
 شعبان یہ لفظ تشعب القبائل سے ماخوذ ہے جس کا معنی، بکھرنا، پھیلنا، جدا ہونا، شاخ در شاخ ہونا، متفرق ہونا، فاصلہ اور دوری ہے کیونکہ اہل عرب اس ماہ میں لوٹ مار کیلئے اِدھر اُدھر منتشر ہوجاتےتھے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۴/۱۹۶) 
امام ابن حجر ؒفرماتے ہیں : اس مہینے کا نام شعبان اس لئے پڑا کیونکہ اہل عرب اس مہینے میں پانی کی تلاش میں ادھر ادھربکھر جاتے تھے یا حرمت والے مہینے یعنی رجب کے بعد جنگ و جدال کے لئے منتشر ہو جاتے تھے۔ 
( فتح الباري :۴/۲۱۳)
اہل عرب ماہ ِ رجب میں لڑائی جھگڑے چھوڑ دیتے تھے کیونکہ عرب حرمت والے مہینوں کی تعظیم کرتے تھے اور جب رجب کا مہینہ گزرجاتا تو پانی کی تلاش میں یا لڑائی کیلئےٹولیوں کی شکل میں تقسیم ہو کر قبیلوں میں منتشر ہو جاتے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اس دین اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے نوازا، تو اس مہینے کے بارے میں ان کا نظریہ بدل گیا، اور شعبان کا یہ مہینہ عبادات، کثرتِ اطاعت اور خیر و برکت اور رحمت سے منور رمضان کی تیاری کا موسم بن گیا۔ 
ماہ شعبان کی چند خصوصیات
ماہ شعبان کی چند خصوصیات ہیں جن کا جاننا ہمارے لئے ضروری ہے۔ 
lپہلی خصوصیت: غفلت دور کرنے کا مہینہ
غفلت سے مراد یہ ہے کہ ماہِ رجب اور رمضان المبارک کے اندر اس کے تقدس کو ملحوظ رکھتے ہوئےنفلی عبادات اور نیکیوں کا اہتمام کیا جاتا جبکہ ماہِ شعبان کو خالی مہینہ خیال کیا جاتا تھا اور نفلی عبادات کی طرف خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی، اسی لئے جناب محمد الرسول اللہ ﷺ نے اپنے فرمان مبارک سے اس ماہ کی یہ فضیلت بیان فرمائی کہ شعبان وہ مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کئےجاتے ہیں لہٰذا مسلمانوں کو نیکی کا کوئی وقت اور موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ 
حضرت اسامہ ؓبن زیدکہتے ہیں کہ میں نےاللہ کے رسولؐ سے عرض کیا کہ ’’اےاللہ کے رسولؐ! جتنا میں آپؐ کو شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اتنا کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا۔ آپؐ نے فرمایا: یہ وہ مہینہ ہے کہ رجب اور رمضان المبارک کے درمیان میں آنے کی وجہ سے لوگ اس مہینے سے غفلت کر جاتے ہیں۔ 
(صحيح النسائي: ۲۳۵۶)
حافظ ابن رجب ؒ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگوں کی غفلت کے اوقات میں عبادت کرنا مستحب ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کےہاں پسندیدہ ہے۔ 
(لطائف المعارف، ص:۱۳۱)
ماہِ رجب حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے اور رمضان سب سے با برکت مہینہ ہے ان دونوں عظیم مہینوں کے درمیان ماہ شعبان آتا ہے اس لئے لوگ اس مہینے پر کوئی توجہ نہیں دیتے اور اس میں عمل کرنے سے غافل ہوجاتے ہیں جبکہ غفلت کےاوقات میں عبادت کی بڑی اہمیت اور قدرومنزلت ہے۔ 
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث اسی پر دلالت کرتی ہے کہ سرکار دو عالمؐ غفلت کے اوقات میں عبادت کا بڑا اہتمام کیا کرتے تھے۔ شریعت مطہرہ نے اوقات ِ غفلت میں اُمت کو بکثرت عبادت کرنے پر ابھارا ہے، اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے اوقات و حالات میں عبادت پر اجر کثیر رکھا ہے۔ 
lدوسری خصوصیت: اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں 
ماہ شعبان کی دوسری خصوصیت ہے کہ اس ماہ کے اندر اللہ تعالیٰ کے پاس اعمال پیش کے جاتے ہیں چنانچہ حضرت اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نےاللہ کے رسولؐ سے عرض کیا :
’’اے اللہ کے رسولؐ! جتنا میں آپ کو ماہ ِ شعبان میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اتنا کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا، آپ نے فرمایا: یہ وہ مہینہ ہے کہ رجب اور رمضان المبارک کے درمیان میں آنے کی وجہ سے لوگ اس مہینے سے غفلت کر جاتے ہیں حالانکہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل پیش ہو تو میں روزہ سے رہوں۔ ‘‘
(صحيح النسائي:۲۳۵۶)
 اللہ کے پاس اعمال کا پیش کیا جانا
مختلف صحیح احادیث پر نظر ڈالنےسے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بندوں کے اعمال اللہ کے پاس تین اوقات میں پیش کئے جاتے ہیں۔ 
اعمال کی پیشی کے تین اوقات
بندگان خدا کو اعمال کی پیشی کے اوقات سے واقف ہونا چاہئے جو اس طرح ہیں :
پہلی پیشی: روزانہ عصر و فجر کے وقت ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول ؐ اللہ نے فرمایا: ’’رات اوردن میں فرشتوں کی ڈیوٹی بدلتی رہتی ہے۔ فجراورعصر کی نمازوں میں ( ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا ) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا، وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ ( فجر کی ) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی ) نماز پڑھ رہے تھے۔ ‘‘(صحیح بخاری:۵۵۵)
دوسری پیشی : ہفتے میں دو دن پیراور جمعرات کو ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہريرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پیر اور جمعرات کو (اللہ کے ہاں ) اعمال پيش کیے جاتے ہيں، لہٰذا مجھے يہ پسند ہے کہ ميرا عمل (بارگاہِ الٰہی میں ) پيش کیا جائے تو ميں روزے سے ہوں۔ ‘‘ (صحيح الترمذي:۷۴۷)
تیسری پیشی : سال میں ایک بار شعبان میں ہوتی ہے چنانچہ حضرت اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا:
’’یہ وہ مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل پیش ہو تو میں روزہ سے رہوں۔ ‘‘ (صحيح النسائي:۲۳۵۶)
وضاحت:احادیث سے معلوم ہوا كہ بندوں کےاعمال رب العالمین کے سامنے ہر روز صبح اور عصر کے وقت، جبكہ ہر ہفتے میں پیر اور جمعرات کو پیش ہوتے ہیں۔ البتہ شعبان کے مہینے میں اعمال کا پیش کیا جانا سالانہ پیشی ہے یعنی اجمالی طور پر سارے سال کے اعمال شعبان میں پیش کیے جاتے ہیں۔ ان پیشیوں کے پس پشت حکمت کیا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ توتمام اعمال سے ذاتی طور پر بخوبی واقف ہے۔ 
تیسری خصوصیت:ماہ شعبان میں کثرت سے روزے
اس ماہ کی خصوصیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں نبی کریم ﷺ نفلی روزے کثرت سے رکھا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :
’’رسول اللہ ﷺ لگاتار روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے اب آپ روزے نہیں چھوڑیں گے اور آپ لگاتار روزے چھوڑتے جاتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے تھے اب آپ روزے نہیں رکھیں گے اور میں نے کبھی آپ کو سوائے رمضان کے پورا مہینہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں (نفلی) روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ‘‘ (بخاری:۱۹۶۹)
چوتھی خصوصیت: اللہ تعالیٰ سے قربت بڑھانے کا مہینہ
جن بڑی عبادات اور نیکیوں کے ذریعے ایک مسلمان اپنے رب کا تقرب حاصل کرتا ہے، ان عبادات میں سب اہم عبادت روزہ ہے۔ اور ماہ شعبان نفلی روزوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔ احادیث میں نفلی روزوں کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھے گا، اللہ تعالیٰ اس ایک دن کے بدلے اس سے جہنم کی گرمی کو ستر سال کی دوری پر کر دے گا۔ “ (صحیح البخاری ۲۸۴۰)
ماہ شعبان میں روزوں کی حکمت: حافظ ابن رجب ؒ فرماتے ہیں : شعبان کا روزہ رمضان کے روزوں کی مشق کرنے جیسا ہے تاکہ انسان مشقت اور بھاری طبیعت کے ساتھ رمضان کے روزوں میں داخل نہ ہو، بلکہ وہ شعبان کے کچھ روزے رکھ کر، روزوں کا عادی ہوکر، روزوں کی مٹھاس اور لذت پاکر رمضان میں داخل ہوں، اس طرح وہ بھر پور طاقت، تیاری اور نشاط کے ساتھ رمضان کے روزوں میں داخل ہوگا۔ (لطائف المعارف )
پانچویں خصوصیت:رسول اللہ ﷺ کا محبوب مہینہ
ماہ شعبان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ مہینہ رسول اللہ ﷺ کا نہایت محبوب مہینہ تھا، چنانچہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :
’’رسول اللہ ﷺ کو مہینوں میں سب سے زیادہ محبوب یہ تھا کہ آپؐ شعبان میں روزے رکھیں، پھر اسے رمضان سے ملا دیں۔ ‘‘
(صحيح الترغيب:۱۰۲۴)
چھٹی خصوصیت:ماہ شعبان کا خاص خیال
حدیث پاک میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ’’نبی ﷺ شعبان کے چاند کا اتنے اہتمام کے ساتھ خیال رکھتے تھے کہ کسی دوسرے مہینے کا اتنے اہتمام کے ساتھ خیال نہیں رکھتے تھے اور چاند دیکھ کر روزہ رکھ لیتے تھے اور اگر آسمان ابر آلود ہوتا تو تیس دن کی گنتی پوری کر کے پھر روزہ رکھتے تھے۔ ‘‘ (صحيح أبي داؤد:۲۳۲۵)
ساتویں خصوصیت:شعبان کے چاند اور تاریخ کا اہتمام
نبی كریم ﷺ شعبان كے مہینے كے چاند اور تاریخ یاد رکھنے كا نهایت اہتمام فرماتے تھے چنانچہ آپ ﷺ نے امت کو یہ حکم فرمایا کہ: 
’’رمضان کیلئے شعبان کے چاند کو اچھی طرح یاد رکھو۔ ‘‘ 
(صحيح الترمذي :۶۸۷)
آٹھویں خصوصیت:رمضان کے استقبال کےلیے روزہ رکھنا
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’تم میں سے کوئی بھی رمضان سے ایک یا دو دن قبل روزہ نہ رکھے الا کہ اگر کوئی شخص کسی دن کا روزہ رکھتا ہو تو وہ اس دن کا روزہ رکھ لے۔ ‘‘ (صحيح البخاري:۱۹۱۴)یعنی اگر کوئی شخص پیر اور جمعرات کا روزہ باقاعدگی سے رکھتا ہے اور پیر یا جمعرات کا دن رمضان سے متصل ایک دن قبل آجائے تو ایسے شخص کے لئے یہ روزہ رکھنا جائز ہے لیکن رمضان کے استقبال کی غرض سے شعبان کے آخری ایک یا دو دن کا روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ 
نویں خصوصیت:نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت
 البتہ امت کے لئے آپ ﷺ نے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع فرما دیا چنانچہ حدیث میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’یعنی جب شعبان آدھا ہو جائے تو تم روزہ مت رکھو۔ ‘‘
(صححه الالباني في صحيح الترمذي:۵۹۰)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK