Inquilab Logo Happiest Places to Work

شہادت (گواہی) اسلام کا بنیادی رکن

Updated: May 27, 2022, 1:42 PM IST | Obaidullah Ghazi | Mumbai

شہادت اسلام کے ارکان خمسہ میں سے پہلا اور بنیادی رکن ہے جس طرح ایمانیات کی پہلی بنیاد ایمان باللہ ہے اور ایمان باللہ نہ ہو تو باقی دوسرے ایمانیات کے کوئی معنی نہیں۔ اسی طرح شہادت باقی ارکان کی روح ہے۔

 Among the five things that are the basis of Islam, there is mention of establishing prayers after Shahadat .Picture:INN
اسلام کی بنیاد جن پانچ چیزوں پر ہے ان میں شہادت کے بعد نماز قائم کرنے کا ذکر ہے۔ تصویر: آئی این این

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو ہدایت کے ساتھ پیدا کیا ۔ لیکن شیطان رجیم اپنے وعدے کے مطابق ہمیشہ انسان کو بہکاتا رہا ۔ ادھر خدا بھی انسان کی ہدایت کے لئے ہمیشہ نبی اور رسول بھیجتا رہا۔ آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے لئے رسول بنا دیا اور آپﷺ کی امت کے لئے اسلام کو دین قرار دیا۔ فرمایا: ان الدين عند الله الاسلام۔ دین کے بنیادی مطالعے سے ہی یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اسلام کا نصب العین انسان پر سے انسان کی حکومت ختم کر کے اللہ کی حکومت قائم کرنا ہے، کیونکہ اصلاح عالم کی بنیاد صرف اور صرف انسان پر خدا کی حکومت ہی ہو سکتی ہے۔ چونکہ اب کوئی نبی نہیں آنے والا اس لئے فطری طور پر آخری نبی کی ذمہ داری اس کی امت پر آتی ہے کہ وہ اللہ کی حکومت کو زمین پر قائم و دائم کرے اور دنیا کو سیدھے راستے کی رہنمائی کرے۔ اس لیے قرآن نے اس امت کا مقصد بتاتے ہوئے کہا:’’اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام ’’مسلم‘‘ رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ وہ ہے تمہارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار ۔‘‘ (الحج:۷۸)اس آیت میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ سے بھی پہلے جو ذمہ داری مسلم امت پر ڈالی گئی وہ شہادت علی الناس ہے۔دوسری جگہ فرمایا: ’’اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ’’امت وسط‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو ۔‘‘(البقرہ:۱۴۳) مذکورہ بالا آیتوں کے علاوہ پورے قرآن میں مختلف جگہوں پر مختلف اصطلاحات کے ذریعے  امت مسلمہ کے اس مقصد کی وضاحت موجود ہے۔ ان تمام آیتوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ نے ایمان لانے کے بعد اپنے بندوں پر سب سے پہلی جو چیز فرض کی وہ شہادت ہے، یعنی اس دین (نظام حیات) کا پرچار propagation جو ساری انسانیت کی فلاح کا ضامن ہے۔ اس کے علاوہ حدیث کی کتابوں میں بھی بے شمار مقامات پر اس بات کو الگ الگ انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ میں یہاں صرف بنیادی احادیث کا ذکر کروں گا۔ آپﷺ کا مشہور ارشاد ہے:  ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : یہ گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور (بیت اللہ کا) حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔‘‘(  البخاري، ج اول، کتاب الایمان۔ صحیح مسلم)  ان روایتوں میں اس بات کی بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ شہادت کس بات کی دینی ہے۔مذکورہ بالا روایتوں اور اس مضمون کی دیگر روایتوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شہادت اسلام کے ارکان خمسہ میں سے پہلا اور بنیادی رکن ہے جس طرح ایمانیات کی پہلی بنیاد ایمان باللہ ہے اور ایمان باللہ نہ ہو تو باقی دوسرے ایمانیات کے کوئی معنی نہیں۔ اسی طرح شہادت باقی ارکان کی روح ہے شہادت کو ترک کرنے کے بعد باقی سارے ارکان بے جان ہو جاتے ہیں۔اس مضمون کی دیگر احادیث کے مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اجزائے ایمان اور ارکان اسلام اپنی نوعیت کے اعتبار سے دو زمرے  میں منقسم ہیں۔ ایمانیات کا تعلق دل سے ہے جس کو ’’اقرار باللسان و تصدیق بالقلب‘‘ کے عربی فقرے سے بھی ادا کیا جاتا ہے۔ دوسری کیٹیگری عمل سے متعلق ہے جو کہ ایمان ہی کا مظہر ہے۔ اس زمرے میں اول الذکر شہادت ہے، جس طرح نماز، روزہ وغیرہ ایک فرض عمل ہے اسی طرح شہادت بھی ایک کرنے کا کام ہے نہ کہ صرف اقرار کا اور زبان سے ایک کلمہ ادا کر دینے کا۔
شہادت کی مرکزیت کے سلسلے میں گزشتہ سطور میں قرآن و حدیث کی وضاحتیں پیش کی گئی ہیں، لیکن اگر قرآن و حدیث میں اتنی تفصیل اور وضاحت نہ بھی ہوتی تب بھی یہ بات عین انسانی فطرت کے مطابق تھی۔ کیوں کہ حق کی شہادت انسان کے فطری اخلاق کا لازمی مظہر ہے۔ یہ بات انسانیت ہی کے خلاف ہے کہ آپ کو منزل مقصود اور کامیابی کا صحیح اور یقینی راستہ معلوم ہو اور آپ بھٹکنے والوں کی رہنمائی نہ کریں اور خطرات سے آگاہ نہ کریں۔ جب کہ صورت حال یہ ہو کہ اس صراط مستقیم کے علاوہ باقی تمام راستے انسان کو خسارے کی جانب لے جانے والے ہیں۔ یہ ہے شہادت کی مرکزیت اور بنیادی رکن ہونے کا فطری ثبوت۔ اور اسلام کے دین فطرت ہونے کی ایک پختہ دلیل بھی۔  لیکن قرآن و حدیث کی وضاحت اور انسانی فطرت کی موافقت کے باوجود بہت سے علماء نے شہادت جیسے بنیادی رکن کو عمل کے زمرے سے دھکیل کر ایمان کے زمرے میں داخل کر دیا۔ یا پھر شہادت کے لفظ کو بدل کر اقرار کر دیا۔ اب اسلام کا پہلا رکن توحید و رسالت کا محض اقرار یا پھر’’کلمۂ شہادت‘‘ رہ گیا۔ وہ کلمۂ شہادت جس کا مفہوم مخاطب کی سمجھ سے بھی بالاتر ہوتا ہے۔ بلکہ اب تو شہادت کے لئے مخاطب کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ کیونکہ وہ تو محض ایک اقرارنامہ رہ گیا۔امت میں شہادت کی روح تب تک باقی رہی جب تک اللہ کے نیک بندے اس کی زمین کا نظام سنبھالتے رہے اور امت کی صحیح رہنمائی کرتے رہے۔ بعد میں یہ روح ختم ہو گئی اور دھیرے دھیرے امت میں یہ رجحان پیدا ہوگیا کہ نماز، روزہ، زکات اور حج ادا کرکے وہ مکمل اسلام پر عمل کر رہے ہیں۔ انہیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ اسلام کا ایک بنیادی رکن ان سے چھوٹ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں ان کی نماز، روزہ یہاں تک کہ حج جیسا اہم، جاں بخش اور تحریک بخش فریضہ بھی بے جان ہو گیا ۔ اور ہو بھی کیوں نہ، گلا کٹ جانے کے بعد جسم میں کتنی دیر ہی جان باقی رہ پاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس بنیادی رکن کو پھر سے زندہ کرنے کی توفیق دے۔ہمارا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ موجودہ مسلمانوں کی اکثریت کو خارج عن الاسلام گردانا جائے۔ بلکہ ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ شہادت کی اصل حیثیت و مقام کی بحالی ہو۔ جس طرح ایک نماز چھوڑنے والے شخص کو یہ احساس رہتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے عائد کردہ ایک فرض کو اور اسلام کے ایک رکن کو چھوڑ رہا ہے اسی طرح شہادت کو ترک کرنے والے کے دل میں بھی یہ احساس ہمیشہ رہے۔ کیونکہ کسی بھی کمی کو پورا کرنے کے لئے احساس کا زندہ ہونا شرط اول ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK