Inquilab Logo

شاہانِ حمیر نے اپنے قبول اسلام کا ایک مکتوب آپؐ کی خدمت میں بھیجا تھا

Updated: February 23, 2024, 1:13 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرت النبیؐ کی اِس خصوصی سیریز میں بارگاہِ نبویؐ میں مختلف وفود کی آمد کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں قبیلہ ٔ ازد کے وفد کے بارے میں پڑھئے نیز شاہانِ حمیر کے مکتوب اور آپؐ کے جوابی مکتوب کی بھی تفصیل ملاحظہ کیجئے۔

A view of the old city of Yemen where local people are celebrating the joys of the festival in a traditional way. Photo: INN
یمن کے پرانے شہر کا ایک منظر جہاں مقامی لوگ تہوار کی خوشیوں کو روایتی انداز میں منا رہے ہیں۔ تصویر : آئی این این

قبیلۂ اَزْد کا وفد
اَزْدایک سبائی عرب قبیلہ ہے، قدیم زمانے میں یہ قبیلہ مآرب میں آباد تھا جو مملکت سبا کا دار الحکومت رہا ہے، موجودہ زمانے میں یہ شہر یمن میں واقع ہے، اس قبیلے کا ایک وفد صُرد بن عبد اللہ کی سربراہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تمام لوگوں نے اسلام قبول کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد کے سربراہ صُرد کو قبیلۂ ازد کے مسلمانوں کا امیر مقرر فرمادیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کو لے کر یمن کے قریب رہنے والے مشرکین کے ساتھ جہاد کریں۔ حضرت صُرد بن عبد اللہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے یمن کے ایک شہر جرش پر حملہ کردیا۔ یہ شہر اونچی اونچی دیواروں سے گھرا ہوا تھااور اس میں یمن کے بہت سے قبیلے آباد تھے، قبیلۂ بنو خشعم جو کسی دوسرے یمنی شہر میں رہتا تھا وہ بھی مسلمانوں کے حملے کی اطلاع پاکر اسی فصیل بند شہر میں آگیا۔ مسلمانوں نے تقریباً ایک ماہ تک اس شہر کا محاصرہ جاری رکھا، ایک ماہ بعد مسلمان واپس چلے گئے، شکر نامی پہاڑ کے پاس پہنچے تو جرش کے لوگ یہ سمجھے کہ مسلمان ڈر کر بھاگ گئے ہیں، وہ لوگ باہر نکل آئے اور مسلمانوں کے تعاقب میں روانہ ہوئے، قریب پہنچے تو مسلمانوں نے پلٹ کر حملہ کردیا۔ 
دوسری طرف جرش کے قبائل نے دو افراد کو مدینہ منورہ بھیجا تھا تاکہ وہ وہاں کے حالات کا جائزہ لیں۔ ایک دن عصر کے بعد یہ دونوں شخص رسول اکرم ﷺکی مجلس میں حاضر تھے، آپؐ نے ارشاد فرمایا: شکر نامی پہاڑ اللہ تعالیٰ کے کس شہر میں واقع ہے، وہ دونوں جرشی شخص کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمارے علاقے میں ایک پہاڑ ہے جسے کشر کہا جاتا ہے، آپﷺ نے فرمایا: یہ کشر نہیں، شکر ہے۔ عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس پہاڑ کے بارے میں کیا خبر ہے؟ فرمایا: اس وقت وہاں اللہ کے اونٹ ذبح کئے جارہے ہیں۔ آپؐ کی مجلس سے اٹھ کر یہ دونوں شخص حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عثمانؓ کے پاس آکر بیٹھ گئے، انہوں نے ان دونوں سے کہا: اللہ کے بندو! رسول اللہ ﷺتمہاری قوم کی ہلاکت کی خبر دے رہے ہیں، تم لوگ رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دُعا کی درخواست کیوں نہیں کرتے، انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ ہماری قوم کے لئے دُعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہلاکت سے محفوظ رکھے، آپؐ نے دعا فرمائی اے اللہ اُن سے ہلاکت کو اٹھا لے۔ 
یہ دونوں شخص مدینہ طیبہ سے رخصت ہوکر اپنے وطن پہنچے، وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ جس دن اور جس وقت رسول اللہ ﷺ نے جرشیوں کے قتل کی خبر دی تھی اس وقت حضرت صرد ان کی قوم پر حملہ کررہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا کی برکت سے مسلمان انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر واپس چلے گئے، اس واقعے کے بعد جرش کا ایک وفد بارگاہ رسالت مآب ؐ میں حاضر ہوا، ان تمام لوگوں نے اسلام قبول کیا، رسولؐ اللہ نے ان کی آبادی کے قریب ایک وسیع قطعۂ اراضی پر نشانات لگوائے تاکہ وہاں ان کے گھوڑے، اونٹ اور بکریاں چر سکیں، اس علاقے میں اگر کوئی دوسرا شخص آکر اپنے جانور چراتا تو اس کے جانور ضبط کرلئے جاتے تھے۔ (دلائل البیہقی: ۵/۳۷۲، البدایہ والنہایہ: ۵/۷۴، سیرت ابن ہشام: ۴/۴۵۳، ۴۵۴) 

یہ بھی پڑھئے: آپؐ نے فرمایا اگر زید مدینے کے بخار سے بچ گئےتو۔۔۔ یہ فرما کر آپ ؐخاموش ہوگئے!

شاہانِ حمِْیَر کے قاصد کی آمد
یمن میں عربوں کی سب سے قدیم نسل قوم سبا آباد تھی۔ قرآن کریم میں اس قوم کا ذکر موجود ہے، اس قوم کی ترقی، عروج اور اقتدار کا دور گیارہ سو سالوں کو محیط ہے، تیسری صدی کے اختتام اور چوتھی صدی کے آغاز میں یہاں قبیلۂ حمیر کی حکومت کا سلسلہ شروع ہوا۔ مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ تاریخی تحقیق کی رو سے یمن کے حمیر بادشاہوں کی تاریخ پہلی صدی قبل مسیح سے شروع ہوکر پانچ سو پچیس قبل مسیح پر ختم ہوتی ہے۔ شاہان حمیر کے طبقۂ ثانیہ کا آغاز تیسری صدی عیسوی کے اواخر سے ہوتا ہے (تاریخ ارض القرآن: ۲۲۲) قبیلۂ حمیر کے بادشاہوں کا لقب تبّع تھا جیسا کہ قیاصرہ، فراعنہ اور کسریٰ وغیرہ بھی مختلف قوموں کے بادشاہوں کے لقب تھے۔ شاہان تبع بہ یک وقت یمن کے تمام علاقوں پر حکومت کرتے تھے۔ ان میں حمیر، سبا اور حضرمَوت شامل ہیں۔ غزوۂ تبوک کے بعد ایک قاصد شاہان حمیر کا مکتوب لے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا، یہ مکتوب جیسا کہ حافظ ابن اسحاقؒ نے لکھا ہے حرث بن عبد کلال، نعیم بن عبد کلال، ذورُ عین اور ہمدان کے امیر نعمان نے زرعہ ذویزن اور مالک بن مرّہ رہادی کے ذریعے بھجوایا تھا۔ اس میں تحریر تھا کہ ’’ہم اسلام لاچکے ہیں، شرک اور اہل شرک سے کنارہ کش ہوچکے ہیں۔ ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مکتوب کے جواب میں لکھوایا:
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، اللہ کے رسول اور نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حرث بن عبد فلاں، نعیم ابن عبد فلاں اور نعمان امیر ذور عین معافر اور ہمدان کی طرف، اللہ کی حمد وثنا کے بعد، ارض روم سے ہماری واپسی کے وقت تمہارا قاصد ہمارے پاس مدینہ طیبہ پہنچا، اس نے تمہارا پیغام پہنچایا اور تمہارے حالات سے باخبر کیا، اس نے بتلایا کہ تم مسلمان ہوچکے ہو اور تم نے مشرکین کے ساتھ جہاد کیا ہے اور یہ کہ اللہ نے تمہیں اپنی ہدایت سے نواز دیا ہے، تم راہِ راست پر رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے رہو، اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اموالِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ اللہ کا اوراس کے رسول کا نکالو، اور مسلمانوں پر جو صدقہ لازم ہو وہ ادا کرو، یعنی جس زمین کو چشمے کا پانی سیراب کرتا ہے یا بارش کے پانی سے وہ کھیتی سیراب ہوتی ہے اس کی پیداوار سے دسواں حصہ اور جس زمین کو ڈول سے سینچا جاتا ہے اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ نکالو اور چالیس اونٹوں میں بنت لبون (یعنی وہ اونٹنی جو دو سال پورے کرکے تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو) اور تیس اونٹوں میں ابن لبون (وہ اونٹ جو تیسرے سال میں داخل ہوگیا ہو) پانچ اونٹوں کی زکوٰۃ میں ایک بکری، دس اونٹوں میں دو بکریاں، چالیس گایوں کی زکوٰۃ میں ایک گائے، تیس گایوں میں ایک تبیع (بچھڑا) یا جذعہ ہے (بکری کا وہ بچہ جو چھ ماہ پورے کرچکا ہو) باہر چرنے والی ہر چالیس بکریوں پر ایک بکری ہے۔ 
یہ اللہ تعالیٰ کا فرض ہے جو اس نے اہل ایمان پر لازم کیا ہے، جس نے اس سے زیادہ دیا وہ اس کے لئے بہتر ہے اور جس سے یہ فریضہ ادا کیا، اور اسلام پر گواہ بنایا، اور مشرکین کے خلاف جہاد کیا وہ مسلمانوں میں سے ہے، اس کے وہی حقوق ہیں جو ایمان والوں کے ہیں، اور اس کے لئے وہی فرائض ہیں جو مسلمان کے ہیں، اور اس کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول پر ہے۔ 
جس یہودی یا عیسائی نے ایمان قبول کیا اس کے وہی حقوق ہوں گے اور اس کی وہی ذمہ داریاں ہوں گی جو دوسرے اہل ایمان کی ہیں، اگر کوئی شخص یہودیت اور عیسائیت پر قائم رہنا چاہتا ہے اسے مجبور نہیں کیا جائے گا البتہ اسے جزیہ دینا ہوگا، ہر بالغ مرد وزن پر خواہ وہ آزاد ہو یا غلام ایک دینار ہے جسے وہ معافری (معافر ایک شہر ہے) یا دوسرے کپڑوں کی صورت میں ادا کرسکتا ہے، جو شخص یہ جزیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کرے گا وہ اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری میں ہے، اور جو انکار کرے گا وہ اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ہے۔ 
اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے زرعہ ذی یزن کو یہ پیغام بھجوایا ہے کہ جب میرے قاصد معاذ ابن جبل، عبداللہ بن زید، مالک ابن عبادہ، عقبہ بن نمر، مالک بن مرّہ اور ان کے ساتھی تمہارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور مسلمانوں کے صدقات اور غیر مسلموں سے جزیہ وصول کرکے ہمارے نمائندوں کے پاس بھجوادیں، ان کے امیر معاذ بن جبل ہیں، وہ اس حال میں ہمارے پاس واپس آنے چاہئیں کہ وہ تم سے راضی ہوں۔ 
محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ؐ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، مالک بن مرّہ رہادی نے مجھے بتلایا کہ تم قبیلۂ حمیر والے اوّلین اسلام والے ہو اور تم نے مشرکین سے جہاد کیا ہے، تمہارے لئے خوش خبری ہے، میں تمہیں حمیر کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہوں، تم خیانت نہ کرو، ایک دوسرے کو بے یارومددگار نہ چھوڑو، بے شک اللہ اور اس کے رسول تمہارے مالداروں اور غریبوں سب کے محافظ ہیں اور صدقہ محمد اور ان کے اہل بیت کیلئے جائز نہیں ہے، یہ وہ زکوٰۃ ہے جو غریب مسلمانوں اور مسافروں کو دی جاتی ہے، مالک نے اطلاع دی اور راز کی حفاظت کی، میں تمہیں اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہوں، میں تمہارے پاس اپنے نیک صالح، دین دار اور عالم اصحاب کو بھیج رہا ہوں اور تمہیں ان کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیتا ہوں۔ (سیرت ابن ہشام: ۴/۴۵۵، ۴۵۶، البدایہ والنہایہ: ۵/۷۵) 
دوسری طرف آپ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجتے ہوئے یہ وصیت فرمائی کہ ’’ان لوگوں کو آسانی بہم پہنچانا، ان پر سختی نہ کرنا، ان کو خوش رکھنا، متنفر نہ کرنا، تم اہل کتاب کے پاس جاؤگے وہ تم سے پوچھیں گے کہ جنت کی چابی کیا ہے، تم انہیں بتلانا کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ ایک ہے اور اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جنت کی کنجی ہے۔ ‘‘ روایات میں ہے کہ حضرت معاذؓ بن جبل، رسول اللہ ﷺ سے رخصت ہوکر یمن روانہ ہوگئے۔ (سیرت ابن ہشام: ۴/۴۵۶، موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان: ۳۱۴)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK