Inquilab Logo

تقریری مقابلہ میں کامیابی پر شکیل بدایونی نے ۵؍ روپے انعام دیئے تھے

Updated: June 20, 2023, 3:55 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

کلیان کے  ۷۵؍ سالہ صادق الزماں دائود خان چاندوڑی متحرک شخصیت کے حامل ہیں، کلیان لوکوشیڈ سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا،بطور سپروائز سبکدوش ہوئے مگر سماجی طور پر سرگرم ہیں

photo;INN
تصویر :آئی این این

کلیان کی معروف سماجی شخصیت ،صادق الزماں دائود خان چاندوڑی یکم جنوری ۱۹۴۹ء  کو پرانا مچھلی بازار علاقے  میں  پیدا ہوئے نیشنل اُردو ہائی اسکول کلیان سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر آرسی ماہم ڈی ایڈ کالج سے ڈی ایڈ میں کامیابی حاصل کی ۔ کلیان لوکوشیڈ سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیااوروہیں سے بطور سپروائز سبکدوش ہوئے۔ ملازمت سے وہ بھلے ہی ریٹائر ہوگئے مگر سماجی زندگی سے انہوں  نے  سبکدوشی اختیار نہیں کی۔ کلیان کے مسلم معاشرہ میں وہ  کسی تعارف کے محتاج نہیں  ہیں۔ ہر خاص وعام ان سے واقف ہے ۔
 غریب،مجبور، پریشان حال اور ضرورت  مند افرادکی خدمت میں پیش پیش رہنے کی وجہ سے ان کا حلقہ کافی وسیع ہے۔  نمائندہ انقلاب نے ان سے گفتگو کاآغاز کیا تو وہ ماضی کی یادوں میں کھوسے گئے۔   چہرے پر تبسم کے ساتھ  انہوںنے اپنی زندگی کا ایک خوشگوار واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا کہ ’’ میں ۹؍ویں جماعت میں زیر تعلیم تھا۔ اسکول میں کُل مہاراشٹر تقریری مقابلہ کا انعقاد ہواتھا۔ کلیان کےعلاوہ صوبے کے دیگر اضلاع کے طلبہ بھی مقابلہ میں حصہ لے رہے  تھے۔ ’اُردو زبان کی ترقی وترویج‘ کے موضوع پرہونےوالے اس  مقابلےمیں ، میں بھی شریک تھا۔ مہمان خصوصی کے طورپر فلمی نغمہ نگار شکیل بدایونی مدعوتھے۔ پُر مغز تقریر اور شعلہ بیانی کی وجہ سے مجھے اوّل انعام سے نوازاگیا۔ پروگرام کےبعد شکیل بدایونی نےمجھے گلے  لگاکر کامیابی کی دعائیں دیںاور جیب سے ۵؍روپے کا نوٹ نکال کر اپنی جانب سے الگ  انعام دیا۔ وہ  لمحہ میری  زندگی کے انتہائی قیمتی  لمحات میں سے ایک ہے۔‘‘
 صادق الزماںچاندوڑی   اخبار بینی سے جنون کی حدتک لگاؤ رکھتے ہیں۔  انقلاب سے اپنے دیرینہ تعلقات کا حوالہ دیتےہوئےبتایاکہ ’’اب ہمارےخانوادہ کی چوتھی پیڑھی انقلاب کی شیدائی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہےکہ ہر صبح  گھر پر  روزنامہ انقلاب پہنچانےوالا ہاکر بھی چوتھی پیڑھی  سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘  اپنے اخبار فروش کی تعریف کرتے ہوئے  انہوں نے کہا کہ ’’ہاکروں کےاس خاندان کے لوگ بہت اچھے ہیں۔ اخبار کا پیسہ بھی مہذب انداز  میں   طلب کرتےہیں۔ شائستگی  سے پوچھتےہیںکہ  جناب دے رہےہیں کیا؟جواب میں،میں کہتاہوں،ہاں بھائی لے جائو۔ایسے  لوگ آج کے دور میں مشکل سے ملتےہیں۔‘‘اپنی زندگی میں اخبار کی اہمیت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’’پچاسوں برس سےروز انہ فجر کی نماز کے بعد انقلاب کا مطالعہ کرنا، اور پھر ہاتھ میںانقلاب لے کر محلے کی سیر کو نکل جانا معمول رہاہے۔ اسی وجہ سے محلے میں ’انقلاب ‘ کےنام سے بھی پکارا جاتاہوں۔ لوگ ایک دوسرے سے کہتے ہیں ،’وہ جناب جارہےہیں، انقلاب والے ۔‘‘
 کلیان میں ۱۹۵۸ءمیں تباہ کن سیلاب آیاتھا۔ اسے یاد کرتے ہوئے  صادق الزماںچاندوڑی  بتاتے ہیں کہ ’’ بڑا بھیانک سیلا ب تھا۔ پو را کلیان ڈوب گیا تھا۔ گرائونڈ فلور کے گھروںمیں پانی داخل ہوگیاتھا  ان کے مکینوں کو  دو ردراز علاقوں میں یا اُوپر ی منزلوں پر   پنا ہ لینی پڑی تھی۔ ہمار ا یہی گھر  تھا جو پہلی منز ل پر  ہے،  اس لئے ہم لوگ تو یہیں تھے ۔ ۳؍ دن  تک پانی جمع رہا تھا۔ ایسےمیں کھانے پینے کی چیزوں  کی فراہمی میں  دشواری ہوگئی تھی۔ کشتی سے جاکر لوگ کھانے پینے کی اشیاء لاتےتھے۔ سیلاب کی وجہ سے  یہاں کی جھگی جھوپڑی میں رہنےوالوںکو بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑاتھا۔‘‘
  چاندوڑی صاحب کے مطابق ’’ مجھے یادنہیں ہے کہ وہ کون سا سن تھالیکن اتنا ضرورذہن میں ہےکہ اس وقت کلیان اسٹیشن پر ملازمت کرتاتھا۔ ایک روز گھر سے نکل کر ڈیوٹی پرتو چلاگیا۔ جاتے وقت کسی طرح کی پریشانی نہیں ہوئی ۔ بعدمیںپتہ چلاکہ کلیان میں فساد ہوگیاہے۔ جس کی وجہ سے میںڈیوٹی پر اور عزیز گھر پر پریشان تھے۔ رات گھر لوٹتے وقت اسٹیشن کے قریب ، داڑھی دیکھ کر تقریباً ۱۵۔۲۰؍  شرپسندوں نےمجھے گھیر لیا۔ داڑھی کی وجہ سے لوگو ںکو پریشان کرنے کے متعددواقعات سنے ہیں، لیکن داڑھی کی برکت سے شرپسندوں سے بچنے کا میرا اپنا تجربہ ہے۔ ان میں سے ہی ایک بندے  نے کہاکہ اس طرح کے لوگ شریف ہوتے ہیں۔ وہ لڑائی جھگڑا پسند نہیں کرتے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے ساتھیوںکو سمجھا یااور مجھ سے کہاکہ خاموشی سے نکل جائو۔ میں یہاں سے کسی طرح گھر تو چلا آیا لیکن اس کے بعدکئی دنو ں تک ڈیوٹی پر نہیں گیا۔ اُس دن میری داڑھی نے مجھے بچایاتھا۔‘‘
 حسن ِ سلوک اور نظر کرم پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتےہوئے انہوں نے اپنے دوست کا ذکر کیا اور  کہاکہ ’’ اس پُر آشوب اور بددیانتی کے دور میں کسی اچھے انسان کا ملنا ، انمول اثاثہ ہے۔ میرا ایک اسکولی دوست ، سید معین الحسن ہے۔ جو اس ضعیفی میں بھی مسقط میں ایک بڑی کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔  حالانکہ وہ  اب ایک بڑا اور امیر انسا ن ہے مگر  یہ  ترقی  اس کی محبت اور خلوص میں کسی طرح کی کمی کا باعث نہیں  بن سکی۔ ہماری دوستی اسکول کے زمانے سے ہے ۔گزشتہ ۲۵؍ سال سے جس طرح وہ میر ی خبر گیری کرتا ہے ، وہ قابل ستائش ہے۔ وہ پابندی سے فون کرکے کیفیت دریافت کرنےکےعلاوہ  ضرورت پڑنے پر پیچھے نہیں ہٹتا۔ منع کرنے پر   بڑی لجاجت سےکہتاہےکہ میں کچھ نہیں کررہاہوں، اللہ کااشارہ مجھ سے مدد کروارہاہے۔ لہٰذا اس نعمت سے مجھے محروم نہ کرو اور میرے پاس کوئی جواب نہیں رہ جاتا۔ دنیامیں ایسے لوگ کم ہی رہ گئے ہیں ۔ اس طرح کے انسانوںکی قدرکرنی چاہئے ۔ ‘‘
 اعلیٰ اخلاق قدروں پر مبنی ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے صادق الزماں  نےبتایاکہ ’’ ایک مرتبہ ہمارے ہم سایہ شیخ احمد انصاری کے بیٹے سے کسی بات پر ہاتھا پائی ہوگئی ۔ اس نے پہلی منز ل سے مجھے  دھکا دے دیا،میںپہلی منزل کی سیڑھیوں سے لڑھکتا  ہوافرش پر آگرا ۔ میرے پیٹ پر شدید چوٹیں آئی تھیں لیکن میرے والد نے شیخ احمد انصار ی سے کسی طرح کی شکایت نہیں کی۔ البتہ انہوںنے خود میرے والد سے گھر پر آکر معافی مانگی اور کہاکہ آپ گھر پرہی رہیں میں بچے کو اسپتال لے کر جاتا ہوں۔   وہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ کلیان کے ڈاکٹر کے مشورہ پر مجھے جے جے اسپتا ل منتقل کیاگیا جہاں میرے پیٹ کاآپریشن  ہوا۔  ۴؍مہینے اسپتا ل میں زیر علاج رہا۔ا س دوران شیخ چچانے پورا خیال رکھا۔ اُس دور میں ایسے بااخلاق لوگ ہوا کرتے تھے۔ آج معمولی بات پر لو گ ایک دوسرے کا قتل کرنے پر آمادہ ہوجاتےہیں۔
  اُستاد اور شاگرد کے جذباتی رشتے سےمتعلق ایک ملاقات کی روداد بتائی کہ ’’یہ کوئی ۵؍سال پہلے کی بات ہے۔ ایک روز اپنےچند ساتھیوں کے ہمراہ شیواجی چوک کلیان سے گزررہاتھا۔ اچانک میری نگاہ ایک بزرگ پرجاکر رک گئی ۔ دوسرے لمحے میں ان کی طرف کھنچتا گیا۔ دوڑ کر میں نے انہیں گلے لگا لیا۔ وہ میرے نیشنل اسکول کے معلم کفایت اللہ سر تھے۔ میںنے انہیں پہچان لیاتھا مگر وہ مجھے پہچان نہ سکے۔ بار بار پوچھ رہے تھے کہ آپ کون ہیں؟ میں نے کہا سر میں صادق ہوں، آپ کفایت اللہ سر ہیں، یہ سنتے ہی انہوںنے مجھے دوبارہ سینے سےلگا لیا،  بیٹا کیسا ہے۔ ایک ز مانے کے بعد اپنے ایک شاگرد سے ہونےوالی ملاقات سے وہ بھی جذباتی ہوگئےتھے ۔
  زمانہ طالب علمی کی یادوں میں کھو تے ہوئے  انہوں  نے  اسکول سے  ملنےوالی گرمی کی چھٹی کا ایک واقعہ بیان کیا۔ کہنے لگےکہ ’’ یہ واقعہ یاد آتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتےہیں۔ اس وقت میری  عمرسولہ یا سترہ سال   رہی ہوگی۔ہم بھائی بہن، والدین کےساتھ ہرسال گرمی کی چھٹی میںآبائی گائوں چاندوڑ جاتے تھے۔ چھٹیاں وہیں گزرتی تھیں۔  کھانا پینا ، دھینگا مشتی اور کھیل کود میںچھٹیاں کب اور کیسےختم ہوجاتیں پتہ ہی نہ چلتا۔   ایک مرتبہ گائوں کے تالاب میں ۲؍دوستوں کے ساتھ نہانے گیاتھا۔ اچانک پانی میں ڈوبنےاور گہرائی کی طرف کھینچے جانےکا احساس ہوا۔ پوری قوت کےساتھ اُوپر آنےکی کوشش کرنے لگا مگر یہ  کارگرنہ ہوسکی۔  میرے دوستوںنے اپنی جان کی بازی لگا کرمیرے  بال پکڑ کر بڑی قوت سےمجھے اُوپر لانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔اس روز اگر دوستوںنے نہ بچایاہوتا تو شاید آج میں آپ سے گفتگو نہ کررہا ہوتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK