Inquilab Logo Happiest Places to Work

شارب ردولوی کا روم روم لکھنؤ کی تہذیب کاساختہ، پرداختہ اور پروردہ ہے

Updated: October 22, 2023, 11:45 AM IST | Mujtaba Hussain | Mumbai

گزشتہ دنوں (۱۸؍ اکتوبر) انتقال کرجانے والے اردو کے ممتاز ادیب و ناقد شارب ردولوی کی شخصیت پر مجتبیٰ حسین کا تحریر کردہ ایک خاکہ جس میں ان کی شخصیت اور مزاج پر روشنی ڈالی گئی ہے

Sharib Rudaulvi. Photo: INN
شارب ردولوی۔ تصویر:آئی این این

 اب تو یہ معمول سا بن گیا ہے کہ برسوں پرانی عادت کے مطابق صبح کی اولین ساعتوں میں چہل قدمی کے لئے گھر سے نکلتے ہیں تو ماضی کے انگنت پیارے پیارے دوستوں کی دلنواز یادیں بھی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہمارے ساتھ چلنے لگتی ہیں ۔ آپ تو جانتے ہیں کہ گھٹنوں کی سرجری کے ناکام ہوجانے کے بعد ہم اکیسویں صدی میں لنگڑاتے ہوئے ہی داخل ہوئے تھے اسی لئے ہماری شخصی رفتار تو خاصی سست ہوگئی لیکن ہمارے یارانِ دیرینہ کی یادیں دن بہ دن ہم سے زیادہ تیزرفتار ہوتی چلی جارہی ہیں بلکہ بعض اوقات تو یہ ہمارے قابو میں بھی نہیں آتیں ، جیسے کہنا چاہتی ہوں :  دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
 معاف کیجئے! ہم اپنا کالم لکھنا شروع کرتے ہیں تو خواہ مخواہ ہی اپنے اوپر سنجیدگی اور بردباری کی کیفیت طاری کرلیتے ہیں جو ہمارا میدان نہیں ہے۔ چنانچہ کچھ ہی دیر بعد جب ہماری خودساختہ علمیت، انشاء پردازی اور بردباری کی ہوا نکل جاتی ہے تو ہم اپنی اصلیت پر آجاتے ہیں ۔ ذرا دیکھئے صرف یہ بتانے کے لئے کہ آج صبح کی چہل قدمی کے دوران میں ہمارے پرانے دوست شارب ردولوی کی یاد ہمیں آگئی تو اس کے اظہار کیلئے کتنے ہی غیرضروری احباب کو اس یاد میں سمیٹتے ہوئے ایک سنجیدہ سی تمہید لکھ دی۔ لیکن نہ جانے کیوں جی یہ چاہتا ہے کہ جاتے جاتے اپنے ان احباب کو لفظوں کے پنجرے میں قید کرجائیں جن کے ساتھ ہم نے اپنی زندگی کی کئی خوشگوار ساعتیں گزاری ہیں۔
  اب یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ ردولی اترپردیش کی وہ مردم خیز بستی ہے جسے بسایا ہی اس لئے گیا تھا کہ یہاں اہل علم اور اہل کمال آسانی سے پیدا ہوتے رہیں اور دنیا میں اس بستی کا نام بھی روشن کرتے رہیں ۔ دیگر شعبوں اور میدانوں کے اہل کمال کی بات ہم نہیں کرتے، ادب کی دُنیا میں چودھری محمد علی ردولوی اور اسرارالحق مجاز کو کون نہیں جانتا؟ کم از کم تین عدد ردولوی تو ایسے بھی رہے ہیں جن سے ہمارے گہرے شخصی مراسم رہ چکے ہیں ۔ ہماری مراد سرکش ادیب باقر مہدی مرحوم، منفرد اور مستند نقاد شارب ردولوی اور ممتاز صحافی پروانہ ردولوی مرحوم سے ہے۔ تینوں مختلف المزاج اور مختلف النوع۔
 یہاں ہمارا مقصد ردولی کی تاریخ یا اہل ردولی کے علم و فضل کا حال بیان کرنا نہیں بلکہ ہمدم دیرینہ ڈاکٹر شارب ردولوی کے جغرافیہ پر تھوڑی بہت روشنی ڈالنا ہے۔ ۱۹۷۳ء میں جب ہم نے دہلی کی ادبی محفلوں میں آنا جانا شروع کیا تو ترقی پسندوں کی ایک محفل میں ڈاکٹر شارب ردولوی کے دیدار ہوگئے۔ سب سے الگ تھلگ، سرخ و سپید رنگت، دراز قد و قامت اور تیکھے خد و خال والی ایسی قوی الجثہ وجیہہ و شکیل اور پرکشش شخصیت کہ سیکڑوں شرکائے محفل میں بھی ممتاز اور منفرد دکھائی دے۔ کم آمیز، کم گو، بردبار، مہذب، شائستہ، منظم، مربوط، سلیقہ مند، نرم رو، خوش پوشاک، معتدل اور متوازن مزاج انسانوں کو ہم بصد اشتیاق گھنٹوں دیکھ تو سکتے ہیں کیونکہ یہاں معاملہ ’’ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ‘‘ والا ہوتا ہے لیکن ان سے ملتے ہوئے ہمیشہ ڈر ہوتا ہے۔ زندگی کو برتنے کے معاملہ میں جو لوگ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں ان سے ہم ہمیشہ بیس قدم دور ضرور رہتے ہیں ۔ ایسی نستعلیق ، مقطع ، چقطع، خودبین و خود آرا، اپنے آپ میں گم صم اور ہر دم نپی تلی بات کرنے والی شخصیت سے پہلے تو ہم نہیں ملتے اور اگر بحالت مجبوری ملنے کی نوبت آجائے تو جی یہ چاہتا ہے کہ پہلو وضو کرلیا جائے، سر پر ٹوپی اوڑھی جائے اور توفیق عطا ہو تو گلے میں رومال بھی ڈال لیا جائے، آنکھوں میں سرمہ بھی لگ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ لہٰذا چند دنوں تک ہم ادبی محفلوں میں دور ہی سے شارب ردولوی کا دیدار کرنے کے علاوہ ان سانچوں کے بارے میں سوچ سوچ کر محظوظ ہوتے رہے جن سے ایسی شخصیتیں ڈھل کر ایک زمانے میں نمودار ہوا کرتی تھیں ۔ انہیں جوں جوں دیکھتے تھے یہ احساس ہوتا تھا کہ بیچاری نرگس ہزاروں سال تک کیوں روتی ہے اور دیدہ ور کو پیدا ہونے میں اتنی مشکلیں کیوں پیش آتی ہیں ۔ پھر یوں ہوا کہ ہمارے نہایت بے تکلف بے وضوشکن دوست شہاب جعفری نے ایک محفل میں ان سے ہمارا تعارف کرادیا۔ ان دنوں شارب ردولوی دیال سنگھ کالج میں اردو پڑھاتے تھے اور شہاب جعفری کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ خالصہ کالج میں اردو کے سوا سب کچھ پڑھاتے ہیں ۔ شہاب جعفری نے جب عالم سرگوشی میں ہمارے تعارف کی خاطر اپنے مخصوص بلند بانگ لہجہ میں ہماری تعریفوں کے پل باندھنے کا سلسلہ شروع کیا تو شارب ردولوی نے نہایت دھیمے اور شائستہ لہجہ میں ان کی تعریفوں کو ڈھاتے ہوئے کہا ’’شہاب صاحب! آپ بلاوجہ اپنی طاقت ِ لسانی کو ضائع کررہے ہیں ، مجتبیٰ حسین کو میں کم و بیش اتنا ہی جانتا ہوں جتنا کہ آپ جانتے ہونگے۔‘‘ شارب ردولوی ہم سے بغل گیر ہونے لگے تو شہاب جعفری اپنے دیدے پھاڑ کر ہم دونوں کو حیرت سے دیکھتے رہ گئے۔ یوں شارب ردولوی سے ہماری راہ و رسم بڑھی، فاصلے قربتوں میں تبدیل ہوئے اور جگرمرادآبادی کے شعر کی عملی تفسیر بنتے چلے گئے:
تغافل، تجاہل، تبسم، تکلم= یہاں تک تو پہنچے وہ مجبور ہوکر
 پھر ۱۹۷۵ء میں جب شارب ردولوی بیورو فار پرموشن آف اُردو میں پرنسپل پبلی کیشن آفیسر بن کر آگئے تو یوں سمجھئے کہ گھر آنگن والا معاملہ ہوگیا۔ اس لئے کہ ۱۹۷۴ء میں ہم این سی ای آرٹی سے وابستہ ہوئے اور ایک سال بعد شارب ردولوی بیوروفار پروموشن آف اردو میں آگئے۔ دونوں دفتروں کے درمیان بہ مشکل دوتین کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ پھر دلچسپ بات یہ کہ دہلی کے ہمارے اولین دوست راج نارائن رازؔ بھی شارب ردولوی کے دست راست بننے کی کوشش میں بیورو میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن کر آگئے۔ دونوں ہی مقطگی، چغطگی اور نستعلیقیت میں یدطولیٰ رکھنے والے بلکہ یوں کہئے کہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ یکتائے روزگار تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو بہت عزیز رکھتے تھے اور اپنی اپنی خموشیوں کو قوت گویائی عطا کرنے کی جستجو میں لگے رہتے تھے۔ شارب ردولوی تو ضرورتاً ہنس بھی لیتے بلکہ برا وقت آئے تو قہقہہ بھی لگا سکتے ہیں لیکن راج نارائن رازؔ کے بارے میں مشہور تھا کہ لوگوں نے انہیں کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ ایک زمانہ میں دہلی کے ادبی حلقوں میں مشہور و مقبول شاعر کمار پاشی کا یہ جملہ بہت مقبول ہوا تھا کہ ’’راج نارائن رازؔ کو ہنسانے کے لئے بیچارے مجتبیٰ حسین کو حیدرآباد سے دہلی آنا پڑا ورنہ وہ اس نعمت سے محروم رہ جاتے۔‘‘ 
 ان دنوں این سی آر ٹی اور بیوروفارم پرموشن اردو کے درمیان اردو نصابی کتابوں کی اشاعت کا ایک مشترکہ پروجیکٹ چل رہا تھا جس کی عمل آوری کے لئے دونوں اداروں کے عہدیداروں کا آپس میں ملنا ضروری ہوتا تھا چنانچہ ہم روز ہی عین دوپہر کے کھانے کے وقت شارب ردولوی کے دفتر پہنچ جاتے جہاں راج نارائن رازؔ بھی پہلے ہی سے توشہ بدست موجود رہتے تھے۔ اپنی اپنی نستعلیقیت کے مطابق ابھی یہ دونوں ہی حضرات دفتری امور کے بارے میں ضروری باتیں کرتے ہوئے اپنے اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برآ ہونے کی جستجو میں لگے رہتے تھے کہ اتنی دیر میں ہم دونوں کے ٹفن باکس کو خالی کرکے اپنے نجی فرض منصبی سے فارغ ہوجایا کرتے تھے۔ چاہے کچھ بھی ہو، این سی آرٹی کی نصابی کتابوں کی اشاعت کے پروجیکٹ کو کامیاب بنانے میں شارب ردولوی اور شہباز حسین جیسے عہدیداروں کی رہنمائی نے بہت اہم رول ادا کیا۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ شارب ردولوی اعلیٰ پایہ کے نقاد ہی نہیں بلکہ اعلیٰ پایہ کے ایڈمنسٹریٹر بھی ہیں ۔ کیا کیا یاد کریں اور کن کن باتوں کو بھول جائیں ۔ بسا اوقات پرانے دوستوں کی یادوں کو صحیح ڈھنگ سے سمیٹنا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔ غرض پانچ چھ برس وہ بیورو میں رہے اور کچھ عرصہ بعد جواہرلال نہرو یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے تو یہاں معاملہ گھر آنگن سے سمٹ کر دیوان خانہ اور باورچی خانہ کا سا ہوگیا کیونکہ این سی ای آرٹی اور جے این یو دونوں کا کیمپس ایک دوسرے سے ملحق اور متصل ہے۔ غرض پینتیس برس کے عرصہ میں ڈاکٹر شارب ردولوی کو قریب سے دیکھنے اور برتنے کا موقع ملا۔ ان کا روم روم لکھنؤ کی تہذیب کاساختہ، پرداختہ اور پروردہ ہے۔ ان کے شعور نے اس لکھنؤ میں آنکھیں کھولیں جس میں اردو ادب اور تہذیب نے بے شمار منزلیں طے کرلی تھیں اور اپنے نقطہ ٔ عروج کو پالیا تھا۔ کیسی کیسی نابغہ روزگار ہستیاں یہاں آباد تھیں ۔ زمانہ کی گردش کے سبب لکھنؤ تو اب خود لکھنؤ میں بھی نظر نہیں آتا مگر آپ گزشتہ لکھنؤ کو دیکھنا چاہتے ہیں تو آسان طریقہ یہ ہے کہ شارب ردولوی کو دیکھ لیں۔ 
 ڈاکٹر شارب ردولوی کی تنقید کے ہم ادنیٰ سے معتقد ہیں۔ نہایت متوازن ، معتدل، نرم مزاج، دیانتدار، غیرجانبدار اور انصاف پسند تنقید کا نمونے سے واقفیت کیلئے شارب ردولوی کے تنقیدی مضامین پڑھئے۔ ان کی متوازن، مدلل تنقید کو پڑھتے ہوئے ہمیں ہندودیومالا کی وہ گائے یاد آتی ہے جس کے ایک سینگ پر یہ دھرتی ٹکی ہوئی ہے۔ ذرا سا توازن بگڑا یا بال برابر بھی فرق آیا تو یہ دھرتی پاش پاش ہوجائے گی۔ ہمیں شارب ردولوی کی تنقید میں ایسا ہی انتظام و انصرام نظر آتا ہے بلکہ ہم تو مذاق مذاق میں خود شارب ردولوی کو بھی اللہ میاں کی گائے کہتے ہیں ۔ ایک آدمی جو شرافت کی اعلیٰ ترین انسانی حدوں کو عبور کرجاتا ہے تو وہ اللہ میاں کی گائے کہلائے جانے کا مستحق بن جاتا ہے۔ پتہ نہیں لکھنؤ میں اللہ میاں کی گائے ہوتی ہے یا نہیں ، ہمارے دکن میں تو خوب ہوتی ہے بلکہ اسی مناسبت سے دکن کے بعض نقاد ہمیں ’’اردو مزاح نگاری کا بیل‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اشارہ ہماری زودنویسی اور مزاح نگاری کے میدان میں ہماری محنت شاقہ کی طرف ہے۔ 
 اب بہت سی باتیں یاد آنے لگی ہیں اور خاکہ رواں ہونے لگا ہے تو ہمارے کالم کی کوتاہ دامنی ہماری بسیار نویسی کو للکارنے لگی ہے۔ باقی خاکہ پھر کبھی سہی۔ بہت عرصہ پہلے ڈاکٹر شارب ردولوی نے ہمیں بتایا کہ ان کے جدامجد محمود ابن علی، سلطان محمد غوری کے عہد حکومت میں بارہویں صدی کے اواخر میں تاتار سے ہندوستان آئے تھے۔ ہم نے ان کے جدامجد کی پیش بینی اور دوررس نگاہی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ اتنی صعوبتیں اٹھا کر ہندوستان نہ آتے تو ذرا سوچئے کہ شارب ردولوی ہندوستان میں کہاں ہوتے، تاتار ہی میں کہیں رہ جاتے اور ایسے میں ان کے بغیر ہماری اردو تنقید کا یہاں کیا حشر ہوتا،اسے کون معتدل، متوازن ، ہم آہنگ اور ہم نرم مزاج بناتا، اسے کون اعتبار، مرتبہ اور وقار عطا کرتا۔ 
(بحوالہ: سہ ماہی ’’سہیل‘‘ جنوری تا مارچ ۲۰۲۲ء کولکاتا)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK