Inquilab Logo Happiest Places to Work

شیر خدا حضرت علی ؓ جامع الکمالات شخصیت تھے

Updated: April 13, 2023, 11:00 AM IST | Prof. Dr. Muhammad Tauqeer Alam | Mumbai

امیر المومنین حضرت علی کرم ا للہ وجہہ بنی ہاشم کے چشم و چراغ تھے ۔ یہ خاندان حرم کعبہ کی خدمات، سقایہ زمزم کے انتظامات کی نگرانی ا ور حجاج کرام کے ساتھ تعاون و امداد کے لحاظ سے مکہ کا ممتاز خاندان تھا

photo;INN
تصویر :آئی این این

 امیر المومنین حضرت علی کرم ا للہ وجہہ بنی ہاشم کے چشم و چراغ تھے ۔ یہ خاندان حرم کعبہ کی خدمات، سقایہ زمزم کے انتظامات کی نگرانی ا ور حجاج کرام کے ساتھ تعاون و امداد کے لحاظ سے مکہ کا ممتاز خاندان تھا۔ علاوہ ازیں بنی ہاشم کو سب سے بڑا شرف اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے نصیب ہوا ۔ وہ نبی آخر الزماں ، سرور عالم ﷺ کی بعثت ہے جو دوسرے تمام اعزازات سے بلندتر ہے۔   حضرت علیؓ کے والد حضرت ابو طالب اور والدہ حضرت فاطمہ دونوں ہاشمی تھے۔  اس طرح حضرت علی ؓ کو نجیب الطرفین ہاشمی ہونے کا شرف حاصل تھا۔ 
 حضور نبی کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہونے کے بعد اسلام کی طرف دعوت دینے کا آغاز اپنے اہل خاندان سے فرمایا۔ ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ نے سب سے پہلے اس دعوت کو قبول کیا اور پہلی مسلمان خاتون قرار پائیں ۔ حضورؐ پاک کے حلقۂ احباب میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے دعوت حق قبول کی اور سب سے پہلے مسلمان بالغ مرد ہونے کا شرف حاصل کیا ۔ اسی طرح نوخیز لڑکوں میں سب سے پہلے نبی پاک کے گھر میں تربیت پانے والے حضرت علیؓ مشرف بہ اسلام ہوئے اور غلاموں میں سب سے پہلے آپؐ کے خادم حضرت زید بن حارثہ نے مسلمان ہونے کی سعادت حاصل کی ۔نبی کریم  ﷺ نے اپنے تمام قریبی رشتہ داروں کو اپنے گھر میں جمع کرکے دعوت اسلام پیش کی تو تمام مردو خواتین خاموش رہے ۔ حضرت علی ؓ ان میں سب سے کم عمر تھے۔ انہوں نے اٹھ کر کہا کہ گو میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں اور مجھے آشوب چشم کا عارضہ ہے اور میری ٹانگیں دبلی پتلی ہیں مگر میں آپؐ  کا ساتھی اور دست و بازو بنوں گا ۔ حضورؐ نے یہ سن کر فرمایاکہ علیؓ  بیٹھ جائو، تم میرے بھائی اور وارث ہو۔
 جب آپؐ نے ہجرت فرمائی تب حضرت علی ؓ کی عمر ۲۳؍سال تھی۔ سرور کائنات ﷺ نے مشرکین مکہ کے محاصرہ اور اُن کے بُرے ارادوں کی اطلاع پاکر حضرت علی مرتضیٰؓ کو اپنے بستر پر استراحت کرنے کا حکم دیا تھا اور مکہ کے لوگوں کی امانتیں جو آپؐ کے پاس تھیں ان کے مالکوں کے سپرد کردینے کی ہدایت فرمائی ۔ اس شدید خطرے کی حالت میںحضرت علی ؓ نبی کریم ﷺ کے بستر پر سکون و اطمینان کے ساتھ محو استراحت ہوگئے اور مشرکین مکہ یہ سمجھے کہ نبی پاک ﷺ ہی اپنے بستر پر موجود ہیں ۔ جب وہ علی الصباح اپنے ناپاک ارادے کی تکمیل کیلئے اندر آئے تو یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ حضور ؐ کی جگہ آپؐ کا جانثار اپنے آقا پر قربان ہونے کیلئے موجود ہے۔ 
غزوئہ بدر میں تین سو تیرہ جاں نثارصحابہ کرام میں حضرت علی ؓکا مقام و مرتبہ نمایاں تھا ۔ نبی کریم ﷺ نے سیاہ رنگ کے دو جھنڈوں میں سے ایک حضرت علی ؓ کے سپرد کیا  تھا۔ بدر کے میدان میں پہنچتے ہی نبی کریم ﷺ نے دشمن کی نقل و حرکت کا پتہ چلانے کیلئے حضرت علیؓ کو ہی چندجاںبازوں کے ساتھ بھیجا تھا ۔ انہوں نے نہایت خوبی کے ساتھ یہ خدمت انجام دی۔ مجاہدین اسلام نے مشرکین سے پہلے پہنچ کر بدر کے اہم مقامات پر قبضہ کرلیا تھا۔ قاعدہ کے مطابق پہلے تنہا مقابلہ شروع ہوا تومشرکین مکہ کی طرف سے تین بہادر جنگجو نکلے اور مسلمانوں سے مبارزت طلب کی ۔ تین انصاری مسلمانوں نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور آگے بڑھے تومشرکین کے بہادر جنگجوئوں نے ان کا نام و نسب پوچھا۔ جب یہ معلوم ہوا کہ وہ یثرب کے نوجوان ہیں تو ان کے ساتھ لڑنے سے مشرکین نے انکار کردیا اور حضورؐ پاک کو پکار کرکہا کہ ہمارے مقابلہ  میں ہمارے ہمسر قبیلہ قریش کے نوجوانوں کو بھیجو۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے اپنے خاندان کے تین قریبی عزیزوں حضرت حمزہؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہ بن حارثؓ کو میدان میں بھیجا۔ حضرت علیؓ نے اپنی شجاعت کے غیر معمولی جوہر دکھائے جو تاریخ کا حصہ ہیں۔         
 دنیامیں بے شمارعظیم شخصیات پیداہوئیں جن میں کوئی نہ کوئی خوبی اور کمال پایا جاتا ہے ۔ لیکن حضرت علیؓ  کی شخصیت جامع الکمالات تھی۔ آپ ؓ انتہائی نرم دل اور متواضع انسان تھے۔ آپ ؓ کے دل میں شفقت و محبت اور ہمدردی و خیر خواہی بدرجہ اتم موجود تھی۔ اس کے باوجود آپ کا رعب و دبدبہ اور خوف لوگوں پر طاری رہتا تھا۔ شجاعت اور بہادری حضرت علی ؓکا خاص وصف تھا ۔ آپؓ کی شجاعت و بہادری کا یہ حال تھا کہ عرب کے بڑے بڑے بہادر اور سورما آپؓ کی شجاعت و بسالت کا لوہا مانتے تھے۔ اسی  وجہ سے آپ کو شیر خدا اور سید الاشجعین یعنی بہادروں کاسردارکہاجاتاتھا ۔
 حضرت علی ؓبن ابو طالب ۳۰؍ عام الفیل میں پیدا ہوئے اور اعلان نبوت سے پہلے ہی مولائے کل سید الرسل جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کی پرورش و پرداخت میں آگئے تھے۔ جب قریش قحط میں مبتلا ہوئے تھے تو حضورؐ نے ابو طالب پر عیال کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے حضرت  علی ؓ کو پرورش میں لے لیا تھا اس طرح حضورؐ کے سائے میں آپؓ نے پرورش پائی اور آپؐ کی گود میں ہوش سنبھالا۔ اس طرح آنکھ کھولتے ہی حضورؐ کا جمال جہاں آراء دیکھا ، آپؐ کی باتیں سنیں اور آپؐ کی عادتیں سیکھیں اس لئے بتوں کی نجاست سے ہمیشہ پاک و صاف رہے یعنی آپؓ نے کبھی بھی بت پرستی نہیں کی اسی لئے آپ کو کرم اللہ وجہہ الکریم کا لقب بھی دیا گیا۔ (تنزیہ المکانتہ الحیدریہ ۔ ج ۔ ۱۔ص۔۳۲)  آپؓ کی شجاعت و بہادری شہرئہ آفاق ہے۔ عرب و عجم میں آپؓ کی قوت بازوکو تسلیم کیا گیا۔ آپؓ کے رعب و دبدبہ سے بڑے بڑے پہلوانوں کے دل کانپ جاتے تھے۔ جنگ تبوک کے موقع پر حضورؐ پاک نے آپؓ کو مدینہ طیبہ پر اپنا نائب مقرر فرمادیا تھا اسلئے اس جنگ میں حاضر نہیں ہوسکے تھے باقی تمام غزوات اور جہاد میں شریک ہوکر بڑی جانبازی سے  مقابلہ کیا تھا۔ 

شجاعت و بہادری کے ساتھ ساتھ حضرت علیؓ میں دشمنوں کو معاف کرنے اور ان سے درگزر کرنے کی صفت بھی بدرجہ اتم موجود تھی۔ آپؓ کے اخلاق و عادات میں سب سے زیادہ اجاگر اور اہم آپؓ کی شجاعت و بسالت اور جرأت وہمت اور بہادری ہے ۔ اس وصف میں کوئی معاصر آپ کا حریف نہ تھا۔ اسی وجہ سے آپ کو اسد اللہ یعنی شیر خدا کا لقب دیا گیا ہے۔  غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق اور غزوہ خیبر سے دم ِ شہادت تک قدم قدم پر آپ ؓ نے فقید المثال شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔ فاتح خیبر، حیدر کرار، صاحب ذوالفقار، شیر یزداں، شاہ مرداں ابو الحسن سیدنا علی مرتضیٰ ؓ کو اللہ رب العزت نے شجاعت و بہادری کے عظیم جوہر سے مزین فرمایا تھا۔ میدان کارزار میں آپؓ کی سبقت و پیش قدمی بہادر مرد اور جواں افراد کیلئے ایک نمونہ تھی ۔ 
 حضرت ابو حمراء ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ایک دن حضرت علیؓ بن ابی طالب، رسالت مآب ؐ کی خدمت میں رونق افروز ہوئے تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ وہ حضرت آدمؑ کو ان کی علمی شان کے ساتھ دیکھے، حضرت نوحؑ کو ان کی فہم و فراست اور دانشمندی کی شان کے ساتھ دیکھے اورحضرت ابراہیمؑ کو ان کے پاکیزہ اخلاق کی شان کے ساتھ دیکھے تو وہ علیؓ بن ابی طالب کو دیکھ لے کہ ان میں سب کے اوصاف و کمالات او ر جلوے موجود ہیں۔ ‘‘(فضائل خلفائے راشدین ۔ ابو نعیم اصفہانی ) 
آپ تمام غزوات اور جنگوں میں شریک ہوئے اور سب میںاپنی شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے۔ اسلام میں سب سے پہلاغزوئہ بدرپیش آیا۔ تب حضرت علیؓ کا عنفوان شباب تھا لیکن اس عمر میں آپؓ نے جنگ آزما بہادروں کے دوش بدوش ایسی داد ِشجاعت دی کہ آپ اس کے ہیرو قرار پائے۔ آغا ز جنگ میں آپ کا مقابلہ عرب کے مشہو پہلوان ولید بن عقبہ سے ہوا۔ اس کو اپنی بہادری اور دلیری پر بڑا ناز اور فخرتھا لیکن حضرت علیؓ نے ایک ہی وار میں اس کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ پھر شیبہ کے مقابلہ میں حضرت عبیدہ بن حارث آئے اور اس نے ان کو زخمی کیا تو حضرت حمزہ اور حضرت علیؓ نے حملہ کرکے اس کا بھی کام تمام کردیا۔ غزوہ احد میں کفار کا جھنڈا طلحہ بن ابی طلحہ کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے مبارزت طلب کی تو حضرت علی مرتضیؓ ہی اس کے مقابلے میںآئے اور اس کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ اس کے سر کے د و ٹکڑے ہوگئے۔ رسولؐ اللہ کو جب اس کی اطلاع ملی تو فرط مسرت میں تکبیر کا نعرہ بلند کیا اور مسلمانوں نے بھی تکبیر کے نعرے لگائے۔ اسی طرح غزئہ خندق میں بھی پیش پیش رہے چنانچہ عرب کے مشہورپہلوان عمروبن عبدو نے جب مبارزت طلب کی تو حضرت علیؓ نے آپؐ سے میدان میں جانے کی اجازت چاہی۔ آپؐ نے ان کو اپنی تلوار عنایت فرمائی،  اپنے دست مبارک سے ان کے سر پر عمامہ باندھا اور دُعا کی کہ خداوندا تو‘ اس کے مقابلہ میں ان کا مددگار ہو۔ اس اہتمام سے آپؓ ابن عبد ود کے مقابلہ کیلئے گئے اور اس کو زیر کردیا۔
  غزوئہ خیبر کا معرکہ حضرت علیؓ ہی کی شجاعت و بہادری سے سر ہوا تھا جب خیبر کا قلعہ کئی دنوں تک فتح نہیں ہوسکا تھا تو نبیؐ کریم نے فرمایا تھا کہ کل جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو خدا اور خدا کے رسولؐ کو محبوب رکھتا ہے اور خدا اور خدا کے رسولؐ بھی اس کو محبوب رکھتے ہیں چنانچہ دوسرے دن آپؐ نے حضرت علی کو بلایا اورجھنڈا عنایت فرمایا۔ خیبر کا سردار مرحب تلوار ہلاتا ہوا اور رجزپڑھتا ہوا مقابلہ میں آیا۔ اس کے جواب میں حضرت علیؓ  آگے بڑھے، مرحب کا کام تمام کردیا اور پھر خیبر فتح ہوگیا۔ خیبر کی فتح کو آپؓ  کے جنگی کارناموں میں خاص امتیاز حاصل ہے۔ جنگ بدر میں ولید شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ دونوں حضرت علیؓ کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے تھے۔ اس جنگ میں آپؓ کی تلوار نے بجلی کی طرح چمک چمک کر اعدائے اسلام کو زیر کیا۔ غزوہ احد میں بھی  حضرت علیؓ نے بے جگری کے ساتھ لڑتے ہوئے مشرکین کا رخ پھیر دیا تھا جو حضورؐ  کی طرف یلغار کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ 
پھر اس شجاعت و بہادری کاظہور غزوہ احزاب کے مو قع پر ہوا جب کفار کبھی کبھی گھوڑوں پر سوار ہوکر خندق میں گھس کر حملہ کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حملہ آوروں میں عمروبن عبد ود بھی شامل تھا جو پورے عرب میں مانا ہوا بڑا پہلوان تھا۔ اس وقت اس کی عمر نوے بر س ہوچکی تھی لیکن پورے عرب میں اس وقت بھی اس سے مقابلہ کی ہمت کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے مبارزت طلب کی اور نعرہ لگایا کہ ہے کوئی جو میرادوبدو مقابلہ کرے ؟ جب حضرت علی ؓ آگے بڑھے تو  وہ ہنسا او ر غرور سے بولا تم میرا مقابلہ کرنے آئے ہو؟ تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے بڑے استہزائیہ انداز میں کہا کہ میر ی عادت رہی ہے کہ جب میرا کسی سے مقابلہ ہوتا ہے تو تین میں سے   ایک خواہش ضرور پوری کرتا ہوں، بو لوتمہاری کیا خواہش ہے۔ یہ سن کر حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ میری اولین خواہش تو یہ ہے کہ تم ایمان لے آئو۔ اس نے کہا یہ تو نہیں ہوسکتا۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ میری دوسری خواہش یہ ہے کہ تم میدان جنگ سے واپس چلے جائو۔ وہ ہنسا اور بولا یہ بزدلی کا کام ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایاتو پھر تیسری خواہش یہ ہے کہ آئو مقابلہ کیلئےتاکہ میں تمہیں جہنم رسید کردوں۔ حضرت علیؓ کی باتیں سن کر وہ حیران وششدر رہ گیا یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کسی نے اس کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ یہ سن کر وہ برہم ہوگیا اور گھوڑے سے کود پڑا اور مقابلہ کرنے لگا لیکن تھوڑی دیر ہی میں حضرت علی ؓ کی تلوار نے اس کو واصل جہنم کردیا ۔ 
حضرت علی ؓ کےفضائل و مناقب میں اتنی احادیث مبارکہ وارد ہیں کہ بلکہ امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ جتنی احادیث مبارکہ آپ کی فضیلت میں آئی ہیں کسی اور صحابی کی فضیلت میں نہیں آئی ہیں ۔بخاری اور مسلم میں حضرت سعد بن وقاص ؓ سے روایت ہے کہ غزوئہ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو مدینہ طیبہ میں رہنے کا حکم فرمایا تھا او ر اپنے ساتھ نہیں لیا تھا تو انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ آپ مجھے یہاں عورتوں اور بچوں یر اپنا خلیفہ بناکر چھوڑے جاتے ہیں توسرکار مدینہ ﷺ نے فرمایاتھا کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میں تم کو اس طرح چھوڑے جاتا ہوں کہ جس طرحضرت موسیٰؑ نے حضرت ہارون کو چھوڑ گئے تھے البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔ مطلب یہ کہ جس طرح حضرت موسیٰؑ نے کوہ طور پر جانے کے وقت چالیس دن کیلئے اپنے بھائی حضرت ہارون کو بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ بنایا تھا اسی جنگ تبوک کی روانگی کے وقت میں تم کو اپنا خلیفہ اور اپنا نائب بناکر جارہاہوں ۔ لہٰذا جو مرتبہ اور مقام حضرت موسیٰؑ کے نزدیک حضرت ہارون کا تھا وہی مرتبہ ہماری بارگاہ میں تمہارا ہے اس لئے اے علیؓ تمہیں خوش ہونا چاہئے ،تو ایسا ہی ہوا کہ اس خوشخبری سے حضرت علیؓ کو تسلی ہوگئی ۔
 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK