Inquilab Logo

شٹ اپ اینڈ مائنڈ یور اون بزنس

Updated: April 03, 2024, 1:05 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

دراصل خدائی فوجدار بننے اور دوسروں کے اندرونی معاملوں میں ٹانگ اڑانے کی امریکہ کی پرانی عادت ہے۔ لیکن اب امریکہ کو ہندوستان کی جانب سے جارحانہ ردعمل کی عادت بھی ڈال لینی چاہئے کیونکہ جب سے جے شنکر وزیر خارجہ مقرر کئے گئے ہیں ہماری خارجہ پالیسی شمشیر بے نیام بن چکی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

یہ ہو کیا رہا ہے؟ دنیا کے مختلف ممالک ہمیں جمہوریت، قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور اختلاف رائے کے احترام کا درس کیوں دینے لگے ہیں؟کیا انہیں پتہ نہیں ہے کہ اب ساری دنیا میں بھارت کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے اور بہت جلد ہمارے ماتھے پر عالمی قیادت کی پگڑی باندھی جانے والی ہے۔ دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری پر مغرب اتنا واویلا کیوں مچا رہا ہے؟ کبھی جرمنی تو کبھی امریکہ تو کبھی اقوام متحدہ ہمیں کیوں سمجھارہا ہے کہ جمہوریت میں حزب اختلاف کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھنا چاہئے؟
کیا ان ممالک کو معلوم نہیں کہ پہلے ہندوستان جنت نشان صرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت تھا لیکن اب نریندر مودی جی نے اسے Mother of Democracy کے رتبے پر پہنچا دیا ہے؟کیا اب بھی واشنگٹن یابرلن ہمیں بتائے گا کہ جمہوری نظام کیسے چلایا جاتا ہے؟
مودی سرکار نے ٹھیک کیا کہ دلی میں دونوں ممالک کے سفارت کاروں کو طلب کرکے ’’ شٹ اپ اینڈمائنڈ یور اون بزنس‘‘ کہہ دیا۔ جرمنی کو یہ بات سمجھ آگئی کہ یہ نیا بھارت ہے اور اس سے پنگا لینا ٹھیک نہیں ہے لیکن امریکہ شاید ابھی تک سپر پاور ہونے کے زعم میں مبتلا ہے۔ کیجریوال کی گرفتاری کے بعد واشنگٹن کو کیا ضرورت تھی یہ بیان دینے کی کہ وہ پورے معاملے پر نگاہ رکھ رہا ہے اور صاف و شفاف،دیانت دارانہ اور بر وقت قانونی کاروائی چاہتا ہے؟نئی دہلی نے امریکی سفارت کار گلوریا بربینا کو طلب کرکے سمجھا دیا کہ’’ بی بی یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے اس میں دخل مت دو۔‘‘ ہم نے کانگریس مکت بھارت بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب ہمارا ارادہ اگر اپوزیشن مکت بھارت بنانے کا ہوگیا ہے تو امریکہ کو کیا تکلیف ہے؟ نیو انڈیا میں محبت اور جنگ کے علاوہ الیکشن میں بھی سب جائز ہے۔
لیکن امریکہ گالیاں کھاکے بھی بے مزہ نہ ہوا۔ واشنگٹن میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھو ملر کو کیجریوال کی گرفتاری کے علاوہ کانگریس پارٹی کے بینک کھاتوں کے منجمد ہونے پر بھی تشویش ہونے لگی۔ واقعہ خواہ دنیا کے کسی کونے میں ہوا ہو، امریکہ کے پیٹ میں مروڑ ضرور اٹھتا ہے۔ لیکن سپر پاور کی سیاسی اور سفارتی عیاری اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ امریکہ کمزور ملکوں کو دباتا ہے لیکن جب بات اس کے دوستوں، اتحادیوں اور حواریوں کی ہو تو ان کیلئے ’’سات خون معاف‘‘ والی پالیسی اختیار کرلیتا ہے۔ روس۔ یوکرین کی جنگ اور غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر بائیڈن انتظامیہ کے دہرے رویے آج جگ ظاہر ہیں۔ چھ ماہ سے غزہ میں جاری فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے کے بجائے امریکہ اسرائیل کی سفارتی، اقتصادی اور عسکری مدد کررہا ہے۔ ہزاروں معصوم فلسطینی بچوں کے قتل عام میں تعاون کرنے والی بائیڈن حکومت کو کوئی اخلاقی اختیار نہیں ہے کہ وہ ہندوستان کو جمہوریت پر لیکچر دے۔ 
مودی جی نے اپنے دس سالہ دور اقتدار میں وہائٹ ہاؤس میں تین تین صدور بارک اوبامہ، ڈونالڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کی آمد دیکھی۔ یوں توتینوں کے ساتھ ان کے اچھے مراسم رہے لیکن ٹرمپ کے ساتھ ان کا ذاتی یارانہ تھا۔ فروری ۲۰۲۰ء میں ٹرمپ کی دلی میں موجودگی میں بلوائی قتل و غارت کا بازار گرم کرتے رہے لیکن اس بھلے آدمی نے زبان تک نہ کھولی اور اپنے میزبان کو شرمندگی سے بچالیا۔ بائیڈن کے دور صدارت میں بھارت سرکار کی پالیسیوں پر واشنگٹن کی تنقید اور تبصروں میں اضافہ ہونے لگا۔ متنازع زرعی قوانین، کسان آندولن، اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اور سی اے اے کے نفاذ پر ہمیں امریکی نکتہ چینی کا نشانہ بننا پڑا۔ پچھلے ماہ متنازع شہریت قانون سی اے اے کے نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ پھر میدان میں کود پڑا۔اس نے اس قانون پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں یہ گیان دے دیا کہ مذہبی آزادی کا احترام اور قانون کے تحت تمام شہریوں کے ساتھ مساویانہ سلوک جمہوریت کے بنیادی اصول ہیں۔ارے بھائی دنیا میں جمہوریت کی نگرانی کرنے والے ادارے ہمیں پچھلے پانچ چھ برسوں میں ’’ ناقص جمہوریت‘‘ اور ’’انتخابی آمریت‘‘ کا خطاب دے چکے ہیں اور ابھی حال میں تو’’بدترین تاناشاہی‘‘ کا تمغہ بھی ہمیں مل چکا ہے۔تو کیا ہوا؟ ہمارا کیا بگڑ گیا؟
 دراصل خدائی فوجدار بننے اور دوسروں کے اندرونی معاملوں میں ٹانگ اڑانے کی امریکہ کی پرانی عادت ہے۔لیکن اب امریکہ کو ہندوستان کی جانب سے جارحانہ ردعمل کی عادت بھی ڈال لینی چاہئے کیونکہ جب سے جے شنکر وزیر خارجہ مقرر کئے گئے ہیں ہماری خارجہ پالیسی شمشیر بے نیام بن چکی ہے۔ موجودہ سرکار کی دنیا کو ٹھینگا دکھانے کی ادا نے ملک کے اندر مودی جی کی مقبولیت بڑھادی ہے۔ بھارت جب امریکہ، جرمنی یا اقوام متحدہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے تو مودی بھکتوں کا سینہ فخر سے پھول جاتا ہے۔گودی میڈیا نے ویسے بھی ان کا یہ برین واش کررکھا ہے کہ مودی جی نے بھارت کو ایسا وشو گرو بنادیا ہے جس کے سامنے امریکہ بھی سر جھکاتا ہے۔واشنگٹن پوسٹ تک کو حال میں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ’’ہندوستان کے لب و لہجہ میں جو تبدیلی آئی ہے وہ اس کے بدلتے قدوقامت کی عکاس ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ مودی کے دور اقتدار میں یہ ملک ایک عالمی طاقت بنتا جارہاہے۔‘‘
 مودی سرکار کو پتہ ہے کہ کیجریوال کی گرفتاری یا کانگریس کے بینک اکاؤنٹس تنازع پر بائیڈن حکومت محض زبانی جمع خرچ کررہی ہے ٹھیک اسی طرح جیسے وہ غزہ پر زبانی جمع خرچ کررہی ہے۔ ویسے بھی ہم یہ راز جانتے ہیں کہ نئی دہلی کے ناز اٹھاناواشنگٹن کی مجبوری ہے۔ اس وقت ہندوستان کی جیوپالیٹیکل حیثیت اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ امریکہ اور مغرب کو ہماری ضرورت ہے۔ امریکہ اورمغرب کے دباؤ کے باوجود نئی دہلی نے یوکرین پر روسی حملے کی نہ مذمت کی اور نہ ہی ماسکو پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کی پروا اور اس کے باوجود نہ کوئی ہم سے نہ روٹھا اور نہ ہی کسی نے رشتے توڑے۔ امریکہ میں نومبر میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اس لئے بائیڈن کی ڈیموکریٹ حکومت وقتاً فوقتاً ایسے بیانات دیتی رہتی ہے جس سے امریکی عوام کو یہ اطمینان رہے کہ ان کا ملک جمہوریت اور حقوق انسانی کے عالمی علمبردارکااپنا کردار بخوبی نبھارہا ہے۔ اسی طرح جب بھارت امریکہ کی تنقید کا منہ توڑ جواب دیتا ہے تو ہندوقوم پرست مودی بھکتوں کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا ہے۔ ہمارا سخت سفارتی موقف اور جارحانہ لب و لہجہ مودی جی کے ’’گھر میں گھس کر ماریں گے‘‘ والے امیج پر خوب جچتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK