’’اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام کرو اور (دن میں) اس کا فضل (روزی) تلاش کر سکو اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔‘‘(القصص:۷۳)
EPAPER
Updated: May 24, 2024, 3:55 PM IST | Abdul Rasheed Talha | Mumbai
’’اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام کرو اور (دن میں) اس کا فضل (روزی) تلاش کر سکو اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔‘‘(القصص:۷۳)
عبدالرشید طلحہ
| اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک اہم ترین نعمت پُرسکون نیند بھی ہے۔ نیند قدرت کا وہ عظیم تحفہ ہے، جو خالق کی عظمت و ربوبیت کا گواہ، اور اس کی بے مثال صنعت و کاریگری کا شاہ کار ہے۔ یہ ایک پیدائشی چیز ہے جو غیرشعوری طورپر انسان کی فطرت اور ساخت میں داخل ہے۔ اس کا انسانی ضرورت کے مطابق ہونا ہی اس بات کی شہادت ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں، بلکہ خالق و مالک نے ایک مضبوط ومستحکم نظام کے مطابق، جان داروں کی راحت رسانی کیلئے اسے بنایا ہے۔ انسان کو بس اتنا معلوم ہے کہ جب وہ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد تھکا ہارا بستر پر پہنچتا ہے تو بے ساختہ نیند اسے آدبوچتی ہے۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق جب انسان گہری نیند سوجاتا ہے، تب دماغ کا کارخانہ اپنے اندر دن بھر کے کام کاج کے دوران صحت کو نقصان پہنچانے والے جمع شدہ زہریلے فضلے کونکال باہر کرتا ہے اور پورے دماغ کی مرمت کرکے اُسے نئی توانائی فراہم کرتا ہے۔ جس سے دماغ اور اس کی وساطت سے سارا جسم ازسرنو مضبوط ومتحرک ہوجاتا ہے۔ چنانچہ نیند کا آنا، نیند سے تھکن کا دُور ہونا اور پھر تھکن دُور ہونے پر تازہ دم ہو کر اَز خود ہی بیدار ہوجانا، یہ سب قوتیں اللہ کی عطا ہیں، جو سراسر حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں۔ کیا کبھی ہم نیند کو ان زاویوں سے دیکھتے اور اس کے بارے میں سوچتے ہیں ؟
نیند میں پوشیدہ حکمت
نیند کی حالت کس طرح طاری ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک انسان کس طرح چست و توانا ہوجاتا ہے؟اس حقیقت کو صرف اللہ ہی جانتا ہے، اس پورے نظام میں انسانی ارادہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ قرآن مجید میں نیند کو پریشانی اور دُکھ رفع کرنے اور سکون کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’اور ہم نے تمہاری نیند کو (جسمانی) راحت (کا سبب) بنایا (ہے)۔ ‘‘ (النبا:۹)
مولانا مودودی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
انسان دُنیا میں مسلسل محنت نہیں کرسکتا، بلکہ ہرچند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹوں کیلئے آرام درکار ہوتا ہے، تاکہ پھر چند گھنٹے محنت کرنے کیلئے اسے قوت حاصل ہو جائے۔ اس غرض کے لئے خالق حکیم و رحیم نے انسان کے اندر صرف تکان کا احساس اور صرف آرام کی خواہش پیدا کردینے ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس نے ’نیند‘ کا ایک ایسا زبردست داعیہ اس کے وجود میں رکھ دیا، جو اس کے ارادے کے بغیر، حتیٰ کہ اس کی مزاحمت کے باوجود، خود بخود ہرچند گھنٹوں کی بیداری و محنت کے بعد اسے آدبوچتا ہے۔ چند گھنٹے آرام کرلینے پر اس کو مجبور کردیتا ہے، اور ضرورت پوری ہوجانے کے بعد خود بخود اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس نیند کی ماہیت و کیفیت اور اس کے حقیقی اسباب کو آج تک انسان نہیں سمجھ سکا ہے۔ یہ قطعاً ایک پیدائشی چیز ہے، جو آدمی کی فطرت اور اس کی ساخت میں رکھ دی گئی ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۳، ص ۷۴۷-۷۴۸)
مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ لکھتے ہیں :
یہاں حق تعالیٰ نے انسان کی راحت کے سب سامانوں میں سے خاص طور پر نیند کا ذکر فرمایا ہے۔ غور کیجئے تو یہ ایک عظیم الشان نعمت ہے اور اس نعمت کو حق تعالیٰ نے پوری مخلوق کیلئے ایسا عام فرما دیا ہے کہ امیر، غریب، عالم، جاہل، بادشاہ اور مزدور سب کو یہ دولت بہ یک وقت عطا ہوتی ہے، بلکہ دنیا کے حالات کا تجزیہ کریں تو غریبوں اور محنت کشوں کو یہ نعمت جیسی حاصل ہوتی ہے، وہ مال داروں اور دُنیا کے بڑوں کو نصیب نہیں ہوتی۔ نیند کی نعمت گدوں، تکیوں یا کوٹھی بنگلوں کی فضا کے تابع نہیں ہے، یہ تو عطائے خداوندی ہے جو براہ راست اس کی طرف سے ملتی ہے۔ بعض اوقات مفلس کو بغیر کسی بستر تکیے کے، کھلی زمین پر یہ نعمت فراوانی سے دے دی جاتی ہے اور بعض اوقات سازوسامان والوں کو نہیں دی جاتی، ان کو خواب آ ور گولیاں کھا کر حاصل ہوتی ہے اور بعض اوقات وہ گولیاں بھی کام نہیں کرتیں۔ (ملخص از معارف قرآن)
نیند کی جو حقیقت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے، اس سے زیادہ نہ کسی نے بیان کی ہے اور نہ کوئی بیان کرسکتا ہے۔ نیند کو موت کی بہن قرار دیتے ہوئے حق تعالیٰ شانہٗ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تمام روحوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرلیتا ہے، اور جن کو ابھی موت نہیں آئی ہوتی، ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں (قبض کرلیتا ہے)۔ پھر جن کے بارے میں اس نے موت کا فیصلہ کرلیاانہیں اپنے پاس روک لیتا ہے، اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک کیلئے چھوڑ دیتا ہے۔ یقینا اس بات میں ان لوگوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں جو غور وفکر سے کام لیتے ہیں۔ (الزمر:۴۲)
مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں :
قبض ِ روح کے معنی اس کا تعلق بدنِ انسانی سے قطع کردینے کے ہیں، کبھی یہ ظاہراً و باطناً بالکل منقطع کردیا جاتا ہے۔ اسی کا نام موت ہے اور کبھی صرف ظاہراً منقطع کیا جاتا ہے باطناً باقی رہتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ صرف حِس اور حرکت ِارادیہ جو ظاہری علامتِ زندگی ہے وہ منقطع کردی جاتی ہے اور باطناً روح کا جسم کے ساتھ تعلق باقی رہتا ہے، جس سے وہ سانس لیتا ہے اور زندہ رہتا ہے۔ اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ روحِ انسانی کو عالم ِ مثال کے مطالعہ کی طرف متوجہ کرکے اس عالم سے غافل اور معطل کردیا جاتا ہے، تاکہ انسان مکمل آرام پا سکے۔ اور کبھی یہ باطنی تعلق بھی منقطع کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جسم کی حیات بالکلیہ ختم ہوجاتی ہے۔ (تفسیر مظہری)
نیند کا ذکر قرآن مجید میں
نیند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ہے، جسے قرآن مجید میں احسان و امتنان کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اُس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔ یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کیلئے جو (غور سے) سنتے ہیں۔ ‘‘ (الروم:۲۳) اسی مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا گیا:’’اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام کرو اور (دن میں ) اس کا فضل (روزی) تلاش کر سکو اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔ ‘‘(القصص:۷۳)
پرسکون نیند کی بنیادی ضرورت اندھیرا اور شور شرابہ کانہ ہونا ہے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے رات کو تاریک بنا کر پرسکون نیند کی ان فطری ضرورتوں کو پورا کردیاہے، جیساکہ ارشاد ربانی ہے:’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پوشاک (کی طرح ڈھانک لینے والا) بنایا اور نیند کو (تمہارے لئے) آرام (کا باعث) بنایا اور دن کو (کام کاج کے لئے) اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا۔ ‘‘ (الفرقان:۴۷)۔ دوسرے مقام پر یوں فرمایا: ’’وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن کیا۔ بے شک اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ ‘‘ (المؤمن:۶۱)
نیند کا ذکر احادیث مبارکہ میں
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ارشادات میں متعدد مواقع پررات میں آرام کرنے کی اہمیت و ضرورت کو اُجاگر فرمایاہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت میں سے بعض نے کہا: ’میں نکاح (شادی بیاہ) نہیں کروں گا‘۔ بعض نے کہا: ’میں گوشت نہ کھاؤں گا‘۔ بعض نے کہا: ’میں رات میں نہ سوؤں گا‘۔ بعض نے کہا: ’میں مسلسل روزے رکھوں گا، کھاؤں پیوں گا نہیں ‘۔ یہ خبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے (لوگوں کے سامنے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے، جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ (مجھے دیکھو) میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزہ رکھتا ہوں اور کھاتا پیتا بھی ہوں، اور عورتوں سے شادیاں بھی کرتا ہوں۔ (سن لو) جو شخص میری سنت سے اعراض کرے (میرے طریقے پر نہ چلے) سمجھ لو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ‘‘ (بخاری، کتاب النکاح)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ رات کا ایک حصہ آرام و سکون حاصل کرنے کیلئے ہے، اس میں آرام کرنا ہی شریعت کا تقاضا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ حدیث کی کتابوں میں ملتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے ہو، اور پھر دن میں بھی روزے رکھتے ہو؟‘‘میں نے کہا: جی ہاں، میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تم ایسا کروگے تو تمہاری آنکھیں بیٹھ جائیں گی اور تمہاری صحت کمزور پڑے گی۔ جان لو کہ تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ کبھی روزہ بھی رکھو، افطار بھی کرو۔ قیام بھی کرو اور سوؤ بھی۔ ‘‘ (بخاری، کتاب الادب) اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بخشش و کرم کی انتہا دیکھئے کہ اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی برکت سے ہماری نیند کو بھی عبادت بنا دیا ہے، جیسا کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی، گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا، اور جس نے عشاء اور فجر دونوں جماعت سے پڑھیں، اس نے گویا پوری رات قیام کیا۔ ‘‘ (مسلم، کتاب المساجد، باب فضل صلاۃ العشاء والصبح فی جماعۃ) بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آپؐ کی صحیح اتباع کرتے ہوئے عشاء اور فجر کی نمازیں باجماعت ادا کریں۔
نیند اور مسلم معاشرہ
نیند کی اس راحت بخش نعمت کا اسلام نے بہت خیال رکھا ہے اور اس کیلئے مختلف آداب و احکام بیان کئے ہیں جو صحت بخش نیند اور پرسکون زندگی کا سبب ہیں۔ چنانچہ رات کو عشاء کے بعدجلدی سونا، تہجد میں اٹھنا، نماز فجرسے پہلے تھوڑا آرام کر لینا اور پھر نماز فجر ادا کرنا، اشراق تک ذکر اذکار میں مگن رہنا اور اشراق کی نفل نماز کے بعد دن کے کام کاج میں مشغول ہوجانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔ اسی سنت کو صحابہ کرام ؓ نے اپنایا اور امت مسلمہ صدیوں اس سنت پر کاربند رہی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’عشاء سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات کرنے کو مکروہ خیال کرتے تھے۔ ‘‘ (صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، حدیث:۵۵۳)
نیند وہ نعمت ہے، جسے ہم اکثر نظر انداز کردیتے ہیں اور ہمیں اس پر شکر گزاری کی توفیق بھی نہیں ملتی، بلکہ بسا اوقات ہم اپنی بے حسی اور عدم التفات کے سبب اس کی اہمیت و افادیت کو محسوس نہیں کرتے۔ در حقیقت وہی لوگ اس نعمت کے حقیقی قدر شناس ہوتے ہیں، جو خدا کی طرف سے کسی تکلیف میں مبتلا ہوں یا مسلسل جاگنے کی بیماری سے دوچار۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے صحت و غذا کے حوالے سے اپنی بے اعتدالی اور وقت کے عدم انضباط کی بناء پر نیند جیسی انمول و گراں قدر نعمت کو مصیبت بنا رکھا ہے۔ بڑے شہروں کا حال یہ ہے کہ مسلمان رات رات بھر جاگنے اور آدھا آدھا دن سونے میں گزاردیتے ہیں، جب کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے صبح کے وقت میں برکت کی دُعا دی ہے (ترمذی)۔ اور ایک روایت میں تو صبح کے سونے کو رزق کے لئے مانع قرار دیاہے۔
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے شب و روز گزارنے کی عادت ڈالیں، بالخصوص رات گئے تک جاگنے اور دوسرے دن نمازظہر تک سوتے پڑے رہنے کی عادت کو ترک کریں تبھی جاکر ہم دین ودنیا میں عروج و سربلندی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔ n