Inquilab Logo Happiest Places to Work

مسکرایئے، آپ’’ نئے بھارت ‘‘میں ہیں

Updated: September 24, 2023, 12:52 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم مودی پرگیہ ٹھاکر کی طرح  بدھوڑی کو بھی ’ دل سے کبھی معاف نہ کرسکیں‘ مگر بدھوڑی نے پوری دنیا کو باور کرادیاہے کہ ’نئے بھارت ‘ میں اقلیتوں کے تعلق سے حکمراں  محاذ کا رویہ کیا ہے، اس رویے کی مزید تائید سابق وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن اور سابق وزیر قانون روی شنکر پرساد کی ہنسی نے کردی۔

While Ramesh Budhuri was speaking badly, former Law Minister Ravi Shankar Prasad was laughing. Photo: INN
رمیش بدھوڑی جس وقت مغلظات بک رہے تھے، سابق وزیرقانون روی شنکر پرساد ہنس رہے تھے۔ تصویر:آئی این این

پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں جنوبی دہلی سے بی جےپی کے رکن پارلیمان رمیش بدھوڑی نے ایک مسلم رکن پارلیمان کو نشانہ بناتے ہوئے تمام ہندوستانی مسلمانوں کیلئے جس طرح مغلظات بکی ہیں ، اس کے بعد ممکن ہے کہ وزیراعظم مودی اُسی طرح اُنہیں  ’’دل سے کبھی معاف نہ کرسکیں ‘‘ جس طرح وہ پرگیہ ٹھاکر کو’’معاف ‘‘نہیں کر سکے مگر بدھوڑی نے بڑا کام ضرور کیا ہے۔ انہوں  نے نہ صرف پورے ہندوستان کو بلکہ پوری دنیا کو یہ باور کرادیا ہے کہ ’’نئے بھارت‘‘ میں حکمراں محاذ کی نظر میں مسلمانوں کی کیا حیثیت ہے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھلے ہی بعد میں  نقصان کی بھرپائی کیلئے ایوان سے معافی مانگی ہو اور لوک سبھا اسپیکر نے بدھوڑی کی مغلظات کو کارروائی سے حذف کردیا ہو مگربدھوڑی جب ایوان میں  اپنی بد تہذیبی کا مظاہرہ کر رہے تھے تب سابق وزیر قانون روی شنکر پرساد اور سابق وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن (جو چاندنی چوک جیسے خاصی مسلم آبادی والے حلقے سے منتخب ہوتے ہیں ) جس طرح بے تحاشہ ہنس رہے تھے، وہ ایک مسلم رکن پارلیمان اور تمام مسلمانوں کیلئے بدھوڑی کے مغلظات کی تائید سے کم نہیں تھا۔ 
کیمرہ اگر حکمراں محاذ کے دیگر اراکین پارلیمان کے چہروں کو بھی قید کرلیتا تو شاید وہ بھی ان گالیوں سے اسی طرح  لطف اندوز ہوتے نظر آتے۔ یہ اس لئے بھی کہا جارہاہے کہ جمعرات کے اس واقعہ کے بعد سے اب تک راج ناتھ سنگھ کے اظہار معذرت کے علاوہ زعفرانی پارٹی کے کسی لیڈر نے عوامی سطح پر نہ بدھوڑی کے بیان کی مذمت کی ہے اور نہ ہی اُ ن آوازوں  کا ساتھ دیا ہے جو بدھوڑی کے خلاف کارروائی کی مانگ کر رہی ہیں ۔ پارٹی کی سطح پر بھی بدھوڑی کی تائید صاف نظر آتی ہے۔ فوری کارروائی کے بجائے وجہ بتاؤ نوٹس پر اکتفا کیاگیاتاکہ فی الحال ناقدین کو خاموش کیا جاسکے اور اگر معاملہ زیادہ طول نہ پکڑے تو کوئی علامتی تادیبی کارروائی کے ذریعہ خانہ پری کرلی جائے۔ اگر طول پکڑ لے اور فائدہ سے زیادہ نقصان ہوتا نظر آئے تو پھر کارروائی کرکے نقصان کی بھرپائی کرلی جائے۔ وزیراعظم مودی جو ایوان کے لیڈر ہیں ، کی خاموشی بھی بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ انہوں  نے وہی  خاموشی اختیار کرلی ہے جو ایسے موقعوں  پر ان کا ’خاصہ ‘ہے۔ ویسے شمشان اور قبرستان نیز کپڑوں سے پہچاننے والے ان ہی کے بیانات نے بدھوڑی جیسوں   کے حوصلے ا تنے بلند کئےکہ وہ سڑک کی زبان ایوان تک لے آئے۔ ان کے اس بیان سے دانش علی کی توہین کم اور خود اُن کی اوراُن کی پارٹی کی حقیقت زیادہ سامنے آئی ہے۔ 
لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی منتقلی کیلئےمودی سرکار نے خصوصی اجلاس طلب کیا، وزیراعظم کی قیادت میں ہاتھوں  میں  آئین تھامے اراکین پارلیمان کا نئی عمارت تک پیدل مارچ کرایا اور پھر نئی پارلیمنٹ میں   پہلا بل خواتین ریزرویشن کی شکل میں  پاس کراکر اسے تاریخی بنانے کی کوشش کی مگر تاریخ رقم کی رمیش بدھوڑی نے۔ بی جے پی کے دور اقتدار میں  یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی مسلم رکن پارلیمان کو اس کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایاگیاہے۔ حال میں اس سے قبل اسدا لدین اویسی اور بدرالدین اجمل ایسے رویے کا سامنا کرچکے ہیں مگر بدھوڑی نے سارے پردے ہی چاق کر دیئے۔ ان کے اس بیان نے یہ کھول کررکھ دیا ہے کہ ایک رکن پارلیمان کو اگر ایوان میں اس طرح کی زبان کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو عام مسلمان کو اس ’’نئے بھارت‘‘ میں  کیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ 
ایسے حالات میں  حوصلہ افزاء پہلو یہ ہے کہ دانش علی کو اپوزیشن نے اکیلا نہیں چھوڑا، راہل گاندھی نے اگران کے گھر جاکر انہیں تسلی دی تو اپوزیشن کے دیگر لیڈر بھی ان کےاور ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ نظر آئے۔اس سے بھی زیادہ حوصلہ کا باعث سوشل میڈیا پر اٹھنے والی آوازیں ہیں جو ملک کے عام آدمی کی آوازیں ہیں جو اس ’’نئے بھارت‘‘ پر پرانے بھارت کو ترجیح دیتے ہیں ۔ جنہوں نے بدھوڑی ہی نہیں بی جےپی کو ملک کے حالات کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا اور بدھوڑی کی گرفتاری کی مانگ کی۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب جنوبی دہلی سے بی جےپی کے اس رکن پارلیمان نے ایسا ذلالت آمیز رویہ اختیار کیا۔اس سے قبل وہ عام آدمی پارٹی لیڈر کے گھر کے باہر احتجاج کرتے ہوئےان کے بچوں  کی ولدیت پر سوال اٹھا کر بھی اپنی حقیقت کو بیان کرچکے تھے۔ کسانوں  کے معاملے میں  بھی ان کی بدزبانی دل آزاری کا سبب بنی تھی۔ عموماً بی جےپی میں  ایسے بدزبانوں   کوترقی ملتی ہے کیوں  کہ ایسی زبان بی جےپی کے ووٹ بینک کے ایک حصے کیلئے باعث تسکین ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اسپیکر اوم برلا جنہوں نے محض تنبیہ پر اکتفا کیاتھا،اپوزیشن اور دانش علی کی جانب سے ملنے والی نوٹسوں کے بعد کیا رویہ اختیار کرتے ہیں ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK