سورہ النحل میں معاشرتی برائیوں کو تین بڑے عنوانوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو یہ ہیں: (۱) فحشاء یعنی بے حیائی کے کام (۲) منکرات جس سے پوری جماعت کی زندگی متاثر ہو، اور (۳) بغی یعنی سرکشی، جیسے چوری قبل، ڈاکہ اور ملک وقوم سے غداری کے کام۔
EPAPER
Updated: January 26, 2024, 1:07 PM IST | Maulana Syed Muhammad Rabi Hosni Nadvi | Mumbai
سورہ النحل میں معاشرتی برائیوں کو تین بڑے عنوانوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو یہ ہیں: (۱) فحشاء یعنی بے حیائی کے کام (۲) منکرات جس سے پوری جماعت کی زندگی متاثر ہو، اور (۳) بغی یعنی سرکشی، جیسے چوری قبل، ڈاکہ اور ملک وقوم سے غداری کے کام۔
معاشرتی برائیاں نام ہے عقل وارادہ کی کمی کا۔ جب انسان میں عقل وارادہ کمزور پڑ جاتا ہے تو وہ برائی کی طرف مائل ہوتا ہے جس سے معاشرہ تباہ ہوتا ہے اور انسانی افراد واجتماع کو روحانی اور مادی نقصان پہنچتا ہے بلکہ یہ برائیاں جب کسی قوم میں عام ہو جاتی ہیں تو قوم و ملک کی ہلاکت وبربادی کا سبب بنتی ہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے، اسلئے قرآن نے جابجا معاشرتی برائیوں کاتفصیلی ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کا علاج بھی تجویز کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ انصاف اور احسان سے کام کرنے اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے، وہ بے حیائی، ناپسندیدہ بات اور سرکشی سے روکتا ہے، تمہیں وہ نصیحت کرتا ہے شاید کہ تم نصیحت پا جاؤ۔ ‘‘ (النحل: ۹۰)۔ اس آیت کریمہ میں معاشرتی برائیوں کو تین بڑے عنوانوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو یہ ہیں :
(۱) فحشاء یعنی بے حیائی کے کام (۲) منکرات جن سے پوری جماعت کی زندگی متاثر ہو، اور (۳) بغی یعنی سرکشی، جیسے چوری، قتل، ڈاکہ اور ملک وقوم سے غداری کے کام۔
یہ وہ اخلاقی برائیاں ہیں جن کو ہر مذہب اور ہر انسانی معاشرت نے یکساں طور پر برا کہاہے۔ اگر ان کو جائز قرار دے دیا جائے تو افراد کے باہمی حقوق سے امان اٹھ جائے اور کسی کی جان و مال اور عزت و آبروسلامت نہ رہے۔
قرآن مجید نے اس ضمن میں اخلاق کا معتدل نظام پیش کیا، وہ اخلاق جو خدا کو پسند ہیں فضائل کہلاتے ہیں اور جن کو خدا نا پسند کرتا ہے ان کو ر ذائل کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے جن فضائل اخلاق کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں :
تقوىٰ: ’’تقویٰ یعنی عفت و پاکیزگی، عدل و انصاف، عفو و درگزر، تواضع و انکساری، اعتدال و میانه روی، حق گوئی، احسان اور صلہ رحمی۔ ‘‘
ان فضائل کے نہ ہونے سے جو معاشرتی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں وہ یہ ہیں :
حرص و طمع، بے حیائی، فضول خرچی، جھوٹ، رشوت، قمار بازی، غیبت اور ناپ تول میں کمی۔ یہ وہ معاشرتی برائیاں ہیں جن کو قرآن نے فحشاء اور منکرات سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن مجید نے ان معاشرتی برائیوں کا جو علاج تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ: ’بے شک نماز بے حیائی اور برائی کی باتوں سے روکتی ہے اور اللہ کی یاد بڑی چیز ہے۔ ‘‘ ( سورہ النحل: ۴۵)
شرم وحيا: بے حیائی کا علاج شرم و حیا ہے۔ بے حیائی کی باتوں سے بچنا لیکن امر حق کے اظہار میں شرم و حیا دامن گیر نہ ہونا، یہی معاشرتی برائیوں کا قرآنی علاج ہے۔ حیا نام ہے فواحش و منکرات سے بچنے کا۔ جذبۂ حیا جو انسانوں کو معاشرتی برائیوں سے روکتا ہے اگر یہ نہ ہو تو پھر انسان بے حیا ہو کر جو چاہے کر سکتا ہے، حیا سے بھلائی پھیلتی ہے، نماز، حیا کا سر چشمہ ہے اور وہی برائیوں سے بچاتی ہے۔
عدل و انصاف: اسی طرح زندگی کے ہر شعبہ میں عدل و انصاف سے کام لینے کی بھی ضرورت ہے۔ جب عقل کی قوت اور نیکی کا چراغ، جذبات کی آندھیوں میں بجھ رہا ہو تو اس وقت عدل و انصاف کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بعض برائیاں وہ ہیں جن کے کرنے سے خدا کی رحمت چھن جاتی ہے، پھر وہ برائیاں ہیں جو خدا کی محبت سے محروم کر دیتی ہیں، پھر وہ برائیاں ہیں جو رضائے الٰہی سے خالی ہیں، مثلاً شرک، یہ ایک ایسی معاشرتی خرابی ہے کہ جس کا مرتکب رضائے الٰہی کو نہیں پاسکتا۔
در گزر: قرآن مجید نے دوسرا علاج جو معاشرتی برائیوں کو دور کرنے کیلئے تجویز کیا ہے وہ یہ ہے: ’’ برائی اور بھلائی برابر نہیں، اگر کوئی برائی کرے تو اس کا جواب اچھائی سے دو۔ ‘‘ (الفصلت:۳۴) کیونکہ جاہلوں سے درگزر کرنا اور احسان کرنا نیکی ہے، اللہ احسان کے بدلے کو ضائع نہیں کرتا، ہر نیکی ثواب کا کام ہے، احسان کرنے اور منصفانہ برتاؤ کو اپنانے سے برائیاں دور ہوتی ہیں، اور نیکی کے عمل سے، معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ہوتا ہے، اس لئے عفوو درگزر سے کام لینا چاہئے۔ نیکی بدی کو دھودیتی ہے، بھلائی کرنا ایک ایسی صفت ہے جو ہر نیکی کو محیط ہے، بھلائی کرنا بہت سی برائیوں کا علاج ہے۔ معاشرتی خرابیوں کا سب سے بڑا علاج بھلائی کرنا بتایا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ ‘‘ (ہود:۱۱۴)